ہمارے اردگرد سکولوں کا جال بچھا ہوا ہے، ہر طرف پرائیویٹ سکول ہیں، چھٹی کے وقت سارے شہر کی ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بھی جا بجا پرائیویٹ سکول کھلے ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم لوگ تعلیم کے معاملے میں کتنے حساس ہو گئے ہیں۔ تعلیم بہت ضروری ہو گئی ہے، لیکن علم کہاں گیا؟ آئے روز بچے گولڈ میڈل لیتے ہیں‘ پوزیشنیں لیتے ہیں‘ ضلع بھر میں اول آتے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ یہ اتنے لائق فائق بچے کیا واقعی بہت ذہین ہوتے ہیں؟ اس کا چھوٹا سا احوال مجھے شیخ صاحب نے بتایا۔ شیخ صاحب ایک پرائیویٹ اکیڈمی چلاتے ہیں اور ہر سال ان کی اکیڈمی میں پڑھنے والے بچے بورڈ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کی اکیڈمی کے باہر جابجا بینرز لگے ہوئے ہیں جن پر اُن بچوں کی تصاویر ہیں جنہوں نے بورڈ کے امتحانات کو پچھاڑ کر اعلیٰ ترین کارکردگی کی مثال قائم کی۔
میں نے ایک دن شیخ صاحب کی اکیڈمی میں پڑھنے والے ایک میٹرک کے سٹوڈنٹ سے کچھ دیر گفتگو کی۔ میں نے پوچھا: پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟۔ کچھ دیر سوچ کر بولا ''پی ٹی سی ایل کا انٹرنیٹ بار بار ڈس کنکٹ ہو جاتا ہے‘‘۔ میرے دل پر ہاتھ پڑا‘ مجھے بھی لگا جیسے بچہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ میں نے دوسرا سوال کیا ''قائد اعظم کے چودہ نکات یاد ہیں؟‘‘۔ اُس نے کچھ دیر غور کیا اور اطمینان سے بولا ''قائد اعظم میں چودہ نہیں تین نقطے آتے ہیں‘‘۔
میں نے بچے سے اجازت چاہی اور شیخ صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ میٹرک میں پاس ہو جائے گا؟ ‘‘ شیخ صاحب مسکرائے ''بالکل ہو گا اور امتیازی نمبروں سے پاس ہو گا‘‘… میں نے حیرت سے شیخ صاحب کی طرف دیکھا ''نہ اِس کا جنرل نالج ٹھیک ہے‘ نہ کتابی‘ پھر یہ کیسے پاس ہو گا؟… اور تب شیخ صاحب نے مجھے وہ بات بتائی جسے سن کر میرے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ فرمایا کہ ہماری اکیڈمی میں زیادہ تر تعداد اُن سرکاری اساتذہ کی ہے جو میٹرک کے پیپرز بناتے ہیں۔ وہ شروع دن سے ہی بچوں کو مخصوص چیزوں کی تیاری کرواتے ہیں جس کی وجہ سے کند ذہن بچے بھی آسانی سے میٹرک کر جاتے ہیں۔ میں اچھل پڑا ''یعنی آپ کا مطلب ہے دو نمبری؟‘‘۔ شیخ صاحب نے مجھے واپس کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ''اتنا اچھلنے کی ضرورت نہیں‘ یاد کرو تم بھی تو میٹرک میں بُوٹیاں لگا کر پاس ہوئے تھے‘‘۔ مجھے شیخ صاحب کی یہ بات سن کر شدید دُکھ ہوا لیکن میں نے غصہ کرنے سے پرہیز کیا‘ سیانے کہتے ہیں: سچی بات کا کیا غصہ کرنا…!!!
اگر آپ کا بچہ نویں دسویں کا امتحان دینے والا ہے تو یقینا آپ بھی ان اکیڈمیز سے واقف ہوں گے۔ والدین کی اکثریت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا بچہ تعلیم کے کس معیار پر ہے، انہیں صرف وہ اکیڈمی اچھی لگتی ہے جو ان کے بچے کو میٹرک پاس کروا دے۔ اصل مسئلہ ہی میٹرک کا ہے کیونکہ اس کے بعد تو ایک سے ایک کالج پڑا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں میں بھی لوگ اس لیے بچوں کو داخل کرواتے ہیں کہ میٹرک سے پہلے ان کا بچہ ہر کلاس میں نمایاں پوزیشن لیتا ہے۔ پرائیویٹ سکول میں فیل ہونے کا تصور ہی نہیں کیونکہ انتظامیہ جانتی ہے کہ جس بچے کو انہوں نے فیل کیا‘ وہ اگلے دن سکول بدل لے گا اور وہ اُس کی فیس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ کلاس میں کوئی پوزیشن ضرور حاصل کرے تاکہ وہ اپنے رشتہ داروں میں فخر سے بتا سکیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ایک کلاس میں تین بچے ہی فرسٹ‘ سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں‘ باقی بچوں کے والدین کو کیسے مطمئن کیا جائے؟ اس کا حل بھی کچھ پرائیویٹ سکولز نے نکال لیا ہے۔ اب اگر بیس بچوں کی کلاس ہے تو اس میں پانچ بچے فرسٹ آجاتے ہیں‘ پانچ سیکنڈ اور دس کی تھرڈ پوزیشن آجاتی ہے۔ خالی پاس کوئی نہیں ہوتا‘ ہر بچہ پوزیشن ہولڈر ہوتا ہے اور والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے‘
حالانکہ ان میں اکثر بچے وہ بھی ہوتے ہیں جو پچھلے تمام ٹیسٹس میں فیل ہوتے چلے آتے ہیں… لیکن الحمدللہ فائنل میں بہترین پوزیشن حاصل کر لیتے ہیں۔ پہلے یہ ذمہ داری بچوں پر ہوتی تھی کہ انہوں نے میٹرک کی تیاری کرنی ہے۔ اب یہ ذمہ داری والدین نے اٹھا لی ہے۔ ماں باپ کا کردار بھی بدل گیا ہے۔ پہلے بچے باپ سے ڈرتے تھے، اب ماں سے ڈرتے ہیں۔ آج کل باپ سے بچوں کی محبت زیادہ ہو گئی ہے لہٰذا باپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بچے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ کم سے کم محنت میں زیادہ سے زیادہ نمبر لے کر میٹرک کا دریا عبور کر جائے۔ سوال پھر وہی ہے… علم کہاں گیا؟ نصابی کتابوں کے علاوہ کوئی کچھ پڑھنے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال صرف میٹرک کے سٹوڈنٹس کے ساتھ ہی نہیں ایم اے کے سٹوڈنٹس کو بھی درپیش ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے اُستادوں سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ آپ نے جو پڑھایا ہے اس کے نوٹس دے دیں۔ اُردو ویسے ہی کسی کو لکھنی نہیں آتی‘ انگلش بھی لکھتے ہیں تو ایس ایم ایس والی۔ پھر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ''میں فیل کیسے ہو گیا؟‘‘ میرے ایک دوست مقامی سکول میں استاد ہیں۔ انہوں نے انگریزی کے پرچے میں ایک طالب علم کو فیل کیا تو اُنہیں طالب علم کا میسج موصول ہوا‘ لکھا تھا…''why i feil in inglish?‘‘
نمبروں کے چکر نے ہمیں علم سے دور کر دیا ہے۔ تعلیم کا سارا انحصار نمبروں پر ہے۔ دس یا پانچ سوال کسی بھی بچے کے مستقبل کا فیصلہ کر دیتے ہیں۔ ڈگری یافتہ‘ تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں۔ ہر گھر میں سائنس کا بخار چڑھا ہوا ہے، بچہ پڑھ پڑھ کے پھاوا ہو جاتا ہے لیکن والدین اسے آرٹس رکھوانے پر آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ سائنس رکھوانا سٹیٹس سمبل ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کی اکثریت آرٹس میں میٹرک نہیں کرواتی اور ثابت کر دیا گیا ہے کہ آرٹس پڑھنے والے جاہل ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے سکول میں بھی پڑھتے ہیں‘ اکیڈمیوں میں بھی جاتے ہیں‘ اس کے بعد بھی کتابیں کھولے بیٹھے رہتے ہیں… لیکن یہ کیا پڑھ رہے ہیں؟ ذرا جائزہ تو لیجئے۔ یہ پڑھ نہیں رہے فوٹو کاپی کر رہے ہیں‘ کتاب میں لکھی ہوئی ساری عبارت قومے اور فل سٹاپ سمیت اپنے ذہن میں اُتار رہے ہیں۔ اِن کے اساتذہ کی اکثریت بھی اِنہیں تعلیم نہیں طریقے بتا رہی ہے کہ کس طرح میٹرک کلیئر کرنا ہے۔ یہ طریقے جس بچے کی سمجھ میں آجاتے ہیں وہ یکدم ذہین بن جاتا ہے اور والدین کے لیے فخر کا باعث بنتا ہے۔ فیل اور پاس کی اِس جنگ میں بچے اور والدین بُری طرح رگیدے گئے ہیں۔ امیر والدین اس لیے اپنے بچے کو امتحان میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کا شملہ اونچا رہے‘ اور غریب والدین اس لیے بچے کی کامیابی کی دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر یہ فیل ہو گیا تو کہیں نصاب ہی نہ بدل جائے۔ بقول بیدل حیدری ''بچے کا فیل ہونا بڑے دُکھ کی بات ہے… اور اُس پہ یہ ستم کہ کتابیں بدل گئیں‘‘۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔