ٹیلی ویژن پر دھشت گردی کی واردات کی خبر دیکھتے دوران بے ساختہ سوال کہ بابا یہ مولوی اتنے برے کیوں ہوتے ہیں۔
اس سوال نے مجھے دہلا دیا۔ مجھے میرے وہ سارے فرشتہ سیرت اساتذہ یاد آگئے جن کی بدولت میرے جیسے پسماندہ دیہاتی کو کچھ اخلاقی اور تہذیبی شدبد نصیب ہوئی۔
نہیں بیٹا ایسے مت سوچو۔ بیٹا غور سے سنو
بیٹا آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ چیزیں فروخت کرتے وقت کئی دفہ چیز کوئی اور بتاتے ہیں اور دے کچھ اور دیتے ہیں۔ ہم اس عمل کو دھوکا کہتے ہیں اور اس طرح کے چھوٹے موٹے دھوکے ہم روز کھاتے ہیں جیسے سبزی گھر آکر خراب نکلتی ہے اور کبھی پھل اور کبھی کپڑوں کا رنگ بدل جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بیٹا ہم ان باتوں کو عموماً زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مگر جب کوئی سنار ہمیں ہزاروں یا لاکھوں روپے کا دھوکا دیتا ہے تو ہمیں زیادہ دکھ ہوتا ہے اور ہمیں ساری عمر یاد بھی رہتا ہے۔
اور بیٹا سب سے قیمتی چیزیں تو اخلاقی اقدار ہیں اور جب کوئی شخص ہمیں اخلاقی اقدار کوئی اور بتاتا ہو اور پڑھاتا ہو اور خود اس کے برعکس عمل کرتا ہو تو بیٹا یقیناً ہمیں اس بات کا دکھ ان سب سے زیادہ ہوگا۔
کیونکہ عزت اور آبرو کو ہم جان اور مال دونوں سے قیمتی جانتے ہیں۔
بیٹا یہ سب دھوکے ایک ہی روئیے کا اظہار ہیں ہر فرد کے اپنے اپنے پیشے کے لحاظ سے۔
اور بیٹا تمھارا سوال اس لئے بہت زیادہ اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو دین کی تعلیم کو بطور پیشہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ جب بھی پیشہ ورانہ مصلحتیں پیشہ اختیار کرنے والے پر غالب آجائیں گی تو وہ لوگ پٹڑی سے اتر جائیں گے۔
یہ عظیم کام تو رضاکارانہ کام تھا جو ہم سب نے اپنی زندگیوں میں مل جل کر کرنا تھا جو ہم نے ایک پیشہ بنا کر کچھ مجبور اور اکثر بیروزگار لوگوں کے سپرد کردیا۔
اس جرم میں پورا معاشرہ حصہ دار ہے۔
اور اس کا علاج یہ ہے کہ ہم خود قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں اور کسی ایک مترجم یا مفسر پر اکتفا نہ کریں بلکہ ہر اہم ترجمہ اور تفسیر دیکھیں اور اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ انسانی علم اور شعور کا سفر ہمیشہ جاری رہنا ہے اور انسانیت نے بلندیوں کی طرف ارتقائی سفر جاری رکھنا ہے۔
جس سوال کا ہمیں آج جواب نظر نہ آرہا ہو اس کا جواب آنے والے دن میں مل جائے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...