وہ تو بھلا ہو متقی اور متشرع حافظ سعید صاحب کا جنہوں نے یہ بات کہی۔ ورنہ ہم جیسے گنہگار تو کب سے شور مچا رہے تھے۔ بقول ناصرکاظمی….
رات پھر شہر میں بجلی سی چمکتی رہی ہم سوئے رہے
وہ تو کہیے کہ بلا سر سے ٹلی ہم نفسو! شکر کرو
حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ برطانوی وزیراعظم چاربیڈ کے ایک پرانے گھر میں رہتا ہے جو چند مرلوں میں بنا ہوا ہے اور ایک چھوٹی سی گلی میں واقع ہے۔ یہ اسلامی طرز ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ سنتِ رسول پرعمل کر رہا ہے !
حافظ صاحب چار روز پہلے وی آئی پی کلچر کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں گئےہیں۔انہوں نے فریاد کی ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ آئین اور سنتِ رسول …. دونوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔گورنر پنجاب سینکڑوں ایکڑ کے محل میں رہ رہا ہے۔کمشنر حضرات سو سو کنال کے ” مکانوں“ میں قیام پذیر ہیں۔ایوان صدر کا روز کا خرچ دس لاکھ روپے اور وزیراعظم کے دفتر کا خرچ بارہ لاکھ روپے ہے۔ حافظ صاحب نے مقدمہ کے دعویٰ میں یہ بھی بتایا ہے کہ صدر پاکستان گزشتہ ہفتے خصوصی جہاز میں لندن گئے ہیں۔وہاں ائر پورٹ پر جہاز کھڑا کرنے کا روز کا کرایہ چھ سو پاﺅنڈ یعنی تقریباً ایک لاکھ روپے ہے، وہاں سے صدر اور ان کے اہل خاندان ذاتی کام سے ایڈنبرا گئے لیکن سفارت خانہ نے اس کیلئے بھی خصوصی جہاز کا بندوبست کیا۔ اسکے مقابلے میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون وزیراعظم بننے سے پہلے سائیکل پر پارلیمنٹ جاتا تھا اور وزیراعظم بننے کے بعد صرف سیکورٹی کی وجہ سے سرکاری کار استعمال کر رہا ہے ۔ لندن شہر کا میئر لورس جانسن سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔
ہم جیسے لوگ جب کہتے تھے کہ سنگا پور،کینیڈا، برطانیہ، فرانس اور دوسرے مغربی ممالک کے حکمران اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہیں تو ایسی ایسی خوفناک ای میلیں آتی تھیں کہ الامان و الحفیظ! کوئی یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتا تھا اور کوئی جان سے مارنے کی دھمکی دیتا تھا، سچ کبھی نہیں چھپتا،اب حافظ صاحب نے یہی کچھ کہا ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جو روزِ روشن سے زیادہ واضح ہے۔امریکی صدر کو جھوٹ بولنے کی پاداش میں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ڈنمارک میں خاتون وزیر آدھی رات کو سائیکل چلاتے وقت لال بتی پر رُکی نہیں دوسرے روز استعفیٰ دینا پڑا۔ وزیراعظم برطانیہ کی بیوی ٹرین کا ٹکٹ گھر چھوڑ آئی اورچَیکر کو دکھا نہ سکی تو سزا بھگتنا پڑی۔ سکینڈے نیویا کے ملکوں میں وزیروں کی ڈاک میڈیا والے کھولتے ہیں اور ساری شکایات سب کچھ میڈیا پر دکھایاجاتا ہے۔ سکینڈے نیویا ہی کے ایک ملک کی وزیراعظم عام کمرشل پرواز میں سفر کررہی تھی۔ معلوم ہوا، کہ پاکستان کے وزیراعظم چارٹرڈ وی آئی پی جہاز سے آرہے تھے اور اس کیلئے باقی جہازوں کو روکاجا رہا ہے۔ یہ وزیراعظم لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔ خاتون وزیراعظم نے وہیں سے اپنی حکومت کو حکم دیا کہ پاکستان کو دی جانے والی ساری امداد روک دی جائے کیونکہ جس ملک کا وزیراعظم اتنی شان و شوکت اور تزک و احتشام سے سفر کر رہا ہے اُسے امداد کی کیا ضرورت ہے۔روزنامہ فرنٹیر پوسٹ کے مطابق یہ امداد کوشش کے باوجود بحال نہ ہوسکی!
ظلم کی تازہ ترین مثال دیکھئے۔پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے حال ہی میں حکم دیا ہے کہ نواز شریف ، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر شخصیات سے سرکاری بلٹ پروف گاڑیاں واپس لے لی جائیں لیکن وفاقی حکومت نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا ہے۔ان گاڑیوں کی مرمت اور ٹائرو ں کی تبدیلی ہی پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور سوائے چوہدری شجاعت کے باقی سب شخصیات یہ سارے اخراجات قومی خزانے سے وصول کر رہی ہیں، سینٹ کے سابق چیئر مین اور موجودہ وزیر قانون نے ایسی دو گاڑیوں کی مرمت پر پچیس لاکھ اور سپیکر قومی اسمبلی نے دس لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔کل اخراجات اربوں میں ہیں، خود سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے کہا ہے کہ جتنی رقم ایک بلٹ پروف یا مرسڈیز کار کی دیکھ بھال پر صرف ہوتی ہے اتنے میں نئی کرولا کار آجاتی ہے!
یہ جو ملک کو اور ملک کے عوام کو نوچ نوچ کر اور بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھایا جارہا ہے تو کیا ہم بھیڑیوں کے نرغے میں ہیں؟ کیا یہ ” اہم شخصیات“ خون چوس چوس کر سیراب نہیں ہوئیں۔ سانپ بھی کبھی کبھی ڈسنے سے انکار کردیتا ہے اور جنگلی درندوں کو بھی کبھی شرم آجاتی ہے لیکن ہمارا پالا جن لیڈران کرام سے پڑا ہے،وہ شرم و حیا سے عاری ہیں۔ ایک ایک وزیراعلیٰ نے چار چار محلات کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے رکھا ہے۔ذاتی جاگیروں پر پولیس کے سینکڑوں سپاہی پہرے دے رہے ہیں۔ حکومت چلانے میں بھائی، بیٹا، بھتیجی، سب شریکِ کار ہیں! چھچھورے پن کا یہ عالم ہے کہ ہالی وُڈ کی معروف اداکارہ انجلینا جولی سیلاب زدگان کی مدد کیلئے پاکستان آئی تو اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اُسے کھانے کی دعوت دی۔ اداکارہ کو ملنے وزیراعظم کا پورا خاندان ملتان سے خصوصی جہاز پر آیا کھانے کی میز دنیا بھر کے انواع و اقسا م کے ماکولات و مشروبات سے اٹی پڑی تھی بیش بہا تحائف اس کے علاوہ تھے۔ یہ منظر اتنا بھیانک تھا کہ اداکارہ نے واپس جاکر اسکی مذمت کی اور ایسی باتیں کیں کہ کسی میں شرم ہوتی تو ڈوب مرنے کا مقام تھا۔
سارا مسئلہ خاندانی پس منظر کا ہے۔ پھل سے بھری ہوئی ٹہنی جھکتی ہے اور بے ثمر شاخ ہوا میں اچھلتی لہراتی اور مارنے کو دوڑتی ہے۔ یہ جو گیلانی اور مشرف، پانچ پانچ لاکھ روپے کا ایک ایک سوٹ پہننے لگے تھے تو اس لئے کہ زندگی میں پہلے کچھ دیکھا نہ تھا، یہ خبر آخر کس نے نہیں پڑھی کہ پرویز مشرف دورے پر چین گیا تھا تو وہ وقت بھی تھا کہ سخت سردی میں نیچے پہننے کا زیر جامہ قرض لیکر خریدا۔ گیلانی صاحب جیل میں تھے تو ڈھکی چھپی بات نہیں ، ہر اخبار میں خبر چھپی کہ گھر کا خرچ چلانے کیلئے گھڑی فروخت کی لیکن قومی خزانہ تحویل میں آیا تو ایک سوٹ دوبارہ نہ پہنا اور یوں لگتا تھا جیسے ماشاءاللہ باتھ روم میں بھی تھری پیس سوٹ میں تشریف لے جاتے تھے۔ غریب جاٹ کو کٹورا ملا تو پانی پی پی کر بے حال ہوگیا اور ہیجڑوں کے گھر بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے چوم چوم کر اسے مار ہی دیا۔اس کے مقابلے میں قائداعظم کا رویہ دیکھئے۔ محنت سے پیسہ کمایا تھا اور اتنا کمایا تھا کہ بمبئی میں شاید ہی ایسا گھر کسی کا ہو۔رونمائی میں اپنی دلہن کو اس وقت لاکھوں روپے دئیے جب پندرہ روپے ماہوار کی تنخواہ خوشحالی کی علامت سمجھتی جاتی تھی لیکن زیارت میں جرابیں منگوائیں ،قیمت پوچھی تو کہا مہنگی ہیں۔واپس کرا دیں۔ لاہور سے کپور تھلہ والوں کا باورچی منگوایا گیا جس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا پسند کرتے تھے ،واپس بھجوادیا۔ یہ جو عوام کے پسینے کی کمائی سے بلٹ پروف کاروں پر سوار یاں کر رہے ہیں آخر ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ اور یہ کن کھیتوں کی مولیاں ہیں؟
حافظ سعید صاحب! وی آئی پی کلچر کی لعنت کے خلاف اس جہاد میں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور حافظ صاحب! گستاخی معاف!یہ جہاد بھی ضروری ہے۔!
http://columns.izharulhaq.net/2012_07_01_archive.html
“