عہد جزب میں منصف خوب بکتے دیکھا ہے
پاؤں میں یزیدوں کے عجز جھکتے دیکھا ہے
لے کے اس مدینے سے آج کے مدینے تک
ہم نے ہر عدالت کو جرم کرتے دیکھا ہے
ہم سے تیرہ بختوں کی عمر یونہی گزری ہے
بے بسی کے عالم میں عدل مرتے دیکھا ہے
شہر کی فصیلوں پر اک عجیب وحشت ہے
زاہدوں کے چہروں پر خوف اگتے دیکھا ہے
بے ضمیر لوگوں کا اک ہجوم ہے ہر سو
مفتیوں کے نرغے میں دیں سسکتے دیکھا ہے
شہر علم و حکمت پر جاہلوں کا قبضہ ہے
اہل علم و حکمت کو پانی بھرتے دیکھا ہے
قاتلوں نے خود صفدر عدل بیچ ڈالا ہے
فیصلہ ان آنکھوں نے آپ لکھتے دیکھا ہے
سینئر براڈ کاسٹر، صحافی، تجزیہ کار، محقق، ادیب، صداکار، مدیراعلی عالمی اخبار، انگلینڈ اور قادرالکلام شاعر جناب صفدر ھمدانی نے ہماری عدلیہ کے لیے یہ ایک انتہائی پرسوز قصیدہ قلم بند فرمایا ہے۔ بلکہ آپ یوں کہیے کہ صفدر ھمدانی صاحب نے بے شک تاریخ رقم فرما دی ہے۔
وطن عزیز اور محبان وطن ہی کو نہیں بلکہ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں کی بھی غیرت کو للکار کر ڈینٹسٹ فرمارہے ہیں کہ مفاہمت کی راہ اختیار کی جائے۔ اگر اس دندان ساز میں کسی قسم کا سیاسی شعور ہوتا تو جب کشکول خان نے اپنے دور اقتدار میں دروغ گوئی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے ، عہد شکنی اور ماہر حوریات کے پٹھو اور پنکی پیرنی کے زن مرید ،مالی بدعنوانی میں اپنی مثال آپ مانے جا رہے تھے، جب پہلی مرتبہ پاک فوج اور پاک فوج کی اعلی قیادت کے خلاف زہر اگلا تھا ، مسلسل ایک برس اور ایک ماہ تک دوسروں پر بہتان تراشی کا سلسلہ جاری رکھا تھا ، اور اخلاق اور انسانیت کی بد ترین بلکہ پست ترین سطح پر اتر کر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیے رکھا تھا ، منافقت کے اعلی ترین درجے کو پہنچ کر اپنے ہر قول اور عہد سے انحراف کیا جاتا رہا اور پھر عدلیہ نے انصاف کے تمام تر تقاضے بالائے طاق رکھ کر سہولت فراہم کی اور تاریخی (قومی ورثہ) ، فوجی اور سرکاری املاک ، اسکول ، ہسپتال ، ایمبولینس ، واٹر ٹینکر ، فائر بریگیڈ کی آرمی اور پولیس کی گاڑیوں ، مونٹریال ویز ، میٹرو بسوں کو نذر آتش کرنے اور پاک دھرتی کے شہدائے کی یادگاروں کی بے حرمتی کرکے نذر آتش کرنے کی تمام تر منصوبہ بندی کرکے اور شرپسندی کی ترغیب دے کر جب عدالت عظمی پہنچے تو ان کا استقبال ایسے کیا گیا کہ جیسے وہ جنگ میں دشمن کو شکست فاش دے کر آئے ہوں۔ عدلیہ کی جانب سے متعدد بار باور کرائے جانے کے باوجود مزمت تک نہ کی اور جب کشکول خان کو اب تک کے قائم قائم شدہ اور آئندہ کے قائم ہونے والے تمام تر مقدمات میں جب ضمانت عام کے پروانے تھمائے جا رہے تھے تب تو آپ کو رواداری یاد نہ آئی۔ موصوف دندان ساز آپ تو اس وقت بھی خاموش رہے کہ آرمی پبلک اسکول کے شہداء کے خون سے ہاتھ رنگنے والے دہشت گردوں سے آپ کا لاڈلا مزاکرات کر رہا تھا۔ جب دکھیاری ماؤں نے عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کے سامنے آکر پر امن احتجاج کیا تھا اور کہا تھا ہمارے جگر گوشوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں سے کیسی مفاہمت اور کیسے مزاکرات؟
خیرات اور صدقات اور امداد کی رقوم میں ہولناک بےضابتگیوں کا معاملہ ہو یا حزب اختلاف کے معزز اراکین پارلیمینٹ کے خلاف انتقامی کاروائیوں کی تمام تر حدیں پار کر لی گئیں اور انسانی حقوق کی ببانگ دہل خلاف ورزیاں ہورہی تھیں۔
ایک ڈینٹسٹ ایسے عاقبت نا اندیش ، ظلم و بربریت پر یقین رکھنے والے ، اپنے چار سالہ عہد جبر میں حزب اختلاف سے ہاتھ ملانا تو کجا سلام تک کرنے کے روا دار نہ تھے۔ اور انہی چار سالوں میں فارن فنڈنگ ، توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ اور سینکڑوں کاغذی منصوبوں میں اربوں ، کھربوں کی خرد برد کے مقدمات میں براہ راست ملوث ہونیوالے سے مذاکرات کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ جعلی قاتلانہ حملے میں جعلی پلاسٹر اور رپورٹس اور ایکسرے پیش کرنے والوں سے کیسے مذاکرات ، دہشت گرد اور شر پسند تنظیموں کے سرپرستوں کی سہولت کاری کرکے انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں سے کیسے مذاکرات ؟ صحت اور تعلیم کو ملک کی ترقی اور غریب عوام کی خوشحالی بلکہ کمزوری سمجھتے ہوئے انتہائی مکاری اور عیاری کے ساتھ خوب ہاتھ صاف کیے اور دوسروں کو چور اور ڈاکو کہہ کر مخاطب کرنے والے سے مفاہمت اور مذاکرات کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
ڈینٹسٹ کو اپنی بادشاہت کی مدت پوری ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ کشکول خان کے سہولت کاروں کے سربراہ کی معیاد بھی ختم ہو رہی ہے۔ دندان ساز س کشکول خان کی راہ سے کانٹے چننے کی خدمت سرانجام دینے والے دندان ساز کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کامیاب اور معیاری سیاست دراصل رواداری اور تحمل مزاجی ہی نہیں بلکہ برد باری ، دانشمندی اور اپوزیشن سے نظریاتی اختلاف اور طرز سیاست سے نا اتفاقی کے باوجود خوش دلی تعظیم و تکریم برقرار رکھتے ہوئے ساتھ لے کر چلنے اور عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل پر انحصار کرتی ہے لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ جس کو کرکٹ کا سپر سٹار سمجھا گیا اس کے اندر اسپورٹس مین سپرٹ نام کے جراثیم ہی نہیں۔
دندان ساز کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ماہ رواں کی ۹ اور ۱۰ تاریخ کو جس بے دردی سے ریڈیو پاکستان کی تاریخی ، قدیم اور عظیم عمارت اور ریڈیو پاکستان جیسے مدر انسٹی ٹیوشن ، جناح ہاؤس ، کور کمانڈر ہاؤس ، میٹرو بس اور ٹرمینلز ، سینکڑوں گاڑیوں ، الیکشن کمیشن آفس اور متعدد ایمبولینسز اور شہدائے وطن کی یادگاروں کو تباہ و برباد اور نذر آتش کرنے جیسے جرائم میں ملوث قومی مجرمان کو یہ زندہ اور پائندہ قوم کسی قیمت پر معاف کرنے کو تیار نہیں اور ارض پاک کے شہداء اور ان کے پسماندگان کا بھی تعلق اسی غیور عوام سے ہے کہ جن کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں نے لوٹ مار کرکے جشن فتح منایا۔
شر پسند اور تخریبی کاروائیوں میں مصروف ملک دشمن عناصر یاد رکھیں کہ انہوں نے ملکی و قومی املاک ، تاریخی ورثے ، نوادرات ، شہداء کی یادگاروں ، پبلک پوائنٹس ، پبلک ٹرانسپورٹ اور کور کمانڈر ہاؤسز پر حملہ آور ہو کر محبان وطن کی غیرت کو للکارا ہے۔ ان کی اس للکار کے جواب میں ہم ممتاز اسکالر ، مفکر ، محقق ، ادیب ، صحافی اور قادرالکلام شاعر جناب سید فخرالدین بلے کی ایک شاہکار نظم کے دو بند شامل تحریر کر رہے ہیں۔
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
نظم نگار :۔ سید فخرالدین بَلّے
پی رہے تھے حق کے متوالے شہادت کے سبو
راہِ حق میں جان دے کر ہو رہے تھے سرخرو
سر زمینِ پاک کے جانباز، حق کے پاسباں
پڑھ رہے تھے کلمۂ حق خون سے کر کے وضو
حق کی خاطر کھیل جائیں گے ہم اپنی جان پر
بچہ بچہ جان دے دے گا وطن کی آن پر
چھمب ، واہگہ اور چونڈہ کے شہیدوں کی قسم
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر