آنجہانی جگن ناتھ آزاد کا تعلق تقسیم برصغیر سے قبل ضلع میانوالی سے تھا۔ ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے معروف شاعر تھے اور ان کی نظمیں خاص طور پر مقبرہ نور جہاں اور دریائے سندھ بہت مشہور ہوئی تھیں۔ جگن ناتھ آزاد ہندوستان کے بڑے ماہر اقبالیات تھے۔ ان کا عشق رسول میں ڈوبا نعتیہ کلام ، حمدوثنا اور بزرگان دین سے ان کی عقیدت دیکھ کر یہ گمان کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ کسی ہندو کے جذبات ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت پر جگن ناتھ آزاد نے ایک جذباتی اور تاثراتی نظم تحریر کی تھی ، جو ان کے مجموعہ کلام ”نسیم حجاز“ میں شامل ہے۔
بابری مسجد ۔ جگن ناتھ آزاد
۱
یہ تو نے ہِند کی حُرمت کے آئینے کو توڑا ہے
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے
ہمارے دِل کو توڑا ہے عمارت کو نہیں توڑا
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے حد توڑنے والے
۲
ترے اِس فعل سے اِسلام کا تو کچھ نہیں بگڑا
مگر گھونپا ہے خنجر تو نے ہندو دھرم کے دِل میں
اِدھر ہندوستاں کا تو نے چہرہ مسخ کر ڈالا
اُدھر بوئے ہیں کانٹے تو نے اِس کی راہِ منزل میں
۳
تجھے کچھ بھی خبر اِس کی نہیں اے بد نصیب اِنساں
کہ ہندو دھرم کیا ہےاور اُس کی آتما کیا ہے
نہیں ہے دھرم وہ ہرگز جسے تو دھرم کہتا ہے
تجھے کیا علم کیا ہے آتما، پرماتما کیا ہے
۴
خبر کل تک بس اِتنی تھی کہ گُنبد ایک ٹوٹا ہے
کھلی اب بات مسجد کا نہیں چھوڑا نشاں باقی
وہ تہذیبی تسلسُل جو تھا جاری چار صدیوں سے
تو سمجھا ہے رہ نہ پائے گی اُس کی داستاں باقی
۵
میں اِک گنبد کو روتا تھا مگر اب یہ کھلا مجھ پر
گرا ڈالا ہے اِس ساری عبادت گاہ کو تو نے
دیا تھا اِک دِلِ آگاہ تجھ کو دینے والے نے
یہ کس رستے پہ ڈالا ہے دِلِ آگاہ کو تو نے
۶
خدا کا گھر ہے مندر بھی، خدا کا گھر ہے مسجد بھی
مجھے تو میرے ہندو دھرم نے بس یہ سکھایا ہے
نہیں ہے دھرم ہرگز وہ، فقط اندھی سیاست ہے
تجھے تیرا یہ درسِ شیطنیت جس نے پڑھایا ہے
۷
مروّت جس کو کہتے ہیں، مودّت جس کو کہتے ہیں
یہ مسجد اُس مروّت اُس مودّت کی علامت تھی
اِسی کے ساتھ تو ایک اپنا مندر بھی بنا لیتا
وہی تیرا بڑپّن تھا، وہی تیری کرامت تھی
۸
خدا کے گھر کو جب تو منہدم کرنے کو نکلا تھا
خدا جانے ترے دِل میں خیالِ خام کیا ہوگا
مکافاتِ عمل کہتے ہیں جس کو اِک حقیقت ہے
شقی القلب کیا کہئیے ترا انجام کیا ہوگا
۹
یہ مسجد آج بھی زندہ ہے اہلِ دِل کے سینوں میں
خبر کیا ہے تجھے مسجد کا پیکر توڑنے والے
ابھی یہ سر زمیں خالی نہیں ہے نیک بندوں سے
ابھی موجود ہیں ٹوٹے ہوئے دِل جوڑنے والے