" بابڑہ قتل عام۔۔۔ 12 اگست 1948"
دیگر کئی مذہبی و سیاسی جماعتوں کی طرح باچا خان اور ان کے حامیوں نے بھی قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ ان کے بلائے لویا جرگہ نے 1947 میں پٹھانوں کو ایک خودمختار ریاست یعنی پختونستان دیے جانے کا مطالبہ بھی کیا جسے انگریزوں نے رد کر دیا۔ قیام پاکستان کے بعد 23 فروری 1948 کو باچا خان نے پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں کھڑے ہو کر ریاست پاکستان کو تسلیم کیا اور اس سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ اس کے بعد باچا خان اور قائد اعظم کے درمیان کراچی میں ملاقات بھی ہوئی۔ یہ سب کچھ تحریک پاکستان کے نامور راہنما اور باچا خان کے ہم زبان خان عبد القیوم خان کیلئے ناقابل برداشت تھا۔ قائد اور باچا خان میں دوسری ملاقات پشاور میں خدائی خدمتگاروں کے ہیڈکوارٹر میں ہونا تھی جسے عبد القیوم نے مختلف سازشیں کر کے ناکام بنا دیا۔ مئی 1948 میں باچا خان نے پاکستان کی پہلی اپوزیشن جماعت "پاکستان آزاد پارٹی" کی بنیاد رکھی۔
جون 1948 میں خان عبد القیوم نے صوبائی حکومت آرڈننس کے تحت انتظامیہ کو وسیع اختیارات سونپ دیے۔ اب سرحد میں کسی بھی شخص کو حکومت نہ صرف غیرمعینہ مدت کیلئے گرفتار کر سکتی تھی، بلکہ اس کی جائیداد بھی بحق سرکار ضبط کی جا سکتی تھی۔ یہی نہیں، ان حکومتی اقدامات کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ گویا فاٹا کے سیاہ قوانین کو پورے صوبے پر نافذ کر دیا گیا۔
12 اگست یعنی آج کے دن 1948 کو خدائی خدمتگاروں نے باچا خان کی رہائش گاہ عثمان زئی سے لے کر بابڑہ چارسدہ تک ریلی کا اہتمام کیا۔ شہر میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ تھی۔ مگر خدائی خدمتگاروں کا اصرار تھا کہ وہ پرامن ریلی نکالنا چاہتے ہیں۔ سہہ پہر کے وقت ریلی پر اندھادھند فائرنگ کی گئی۔ عورتیں، بچے اور نہتے مرد بلاامتیاز گولیوں کا نشانہ بنے۔ عورتیں ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر فائرنگ روکنے کا مطالبہ کرتی رہیں، مگر فائرنگ جاری رہی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس روز چھ سو افراد دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر بابڑہ میں بھون کر رکھ دیے گئے۔ غیرسرکاری اندازے ہزار سے زاید شہدا بتاتے ہیں۔ بابڑہ کو پختون قوم کیلئے کربلا بنادیا دیا گیا۔
جلیانوالہ باغ کے جنرل ڈائر سے بھی زیادہ درندگی اور سفاکیت کا مظاہرہ خان عبد القیوم خان نے کیا۔ اس پاگل کتے نے ستمبر 1948 میں صوبائی اسمبلی کے فلور پر اعلانیہ کہا۔ " جب لوگ منتشر نہ ہوئے، تو ان پر گولی چلا دی گئی۔ ان کی خوش قسمتی کہ پولیس کے پاس ایمونیشن ختم ہوگیا تھا ورنہ وہاں ایک بھی شخص زندہ نہ بچ پاتا، اور اگر ایسا ہوتا تو (میری) حکومت کو ذرہ برابر پروا نہ ہوتی"
باچا خان نے کہا تھا کہ انگریزوں کو جنگجو پٹھان سے زیادہ ڈر پرامن پٹھان سے لگتا ہے۔ منظور پشتین اور احسان اللہ احسان سے ریاستی سلوک دیکھیں تو یہ بات آج کے حکمرانوں کیلئے بھی اتنی ہی درست ہے جتنی گوروں کیلئے تھی۔
یہ ریاست دو روز بعد جس کا ہم جنم دن منانے چلے، اس کی بنیاد خون پر رکھی گئی تھی۔ اسے قائم رہنے کیلئے خون درکار ہوتا ہے اور اسے پھلنے پھولنے کیلئے بھی خون درکار ہوتا ہے۔۔۔۔ اپنے شہریوں کا۔
یہ 14 اگست اس عزم کے ساتھ منانا ہے کہ جیسے ہم نے پرامن آئینی اور جمہوری جدوجہد سے انگریزوں سے نجات حاصل کی ، ویسے ہی ہم پرامن آئینی اور جمہوری جدوجہد سے اپنے موجودہ اصل حکمرانوں سے بھی آزاد ہو کر رہیں گے۔ ان شاءاللہ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔