ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ زندگی کیا ہے؟ بزرگ نے ایک گہری سانس لی‘ جیب سے ماچس نکالی‘ اُس میں سے چار تیلیاں نکال کر زمین پر رکھیں‘ باری باری ایک تیلی کو جلایا اور پھر پانچویں تیلی نکالی‘ اُس کے مصالحے والی سائیڈ ہاتھ میں پکڑی اور دوسری سائیڈ سے کانوں میں خلال کرتے ہوئے آہستہ سے فرمایا’ پُترمینوں کی پتا‘۔
پس ثابت ہوا کہ بزرگوں کو بھی ہر بات پتا نہیں ہوتی۔وہ بابے اب کہاں جو اشفاق احمد مرحوم کو ملا کرتے تھے اب تو بابوں کی اکثریت نوجوانوں کی محتاج ہوچکی ہے۔ میں نے کل ہی ایک بابے کو دیکھا جو بیس سالہ نوجوان سے پوچھ رہا تھا’بیٹا موبائل میں پلے اسٹور کیسے انسٹال کرتے ہیں؟‘‘۔ٹیکنالوجی نے بچوں کو بابا اور بابوں کو بچہ بنا دیا ہے۔آج کل سب سے بڑے بابے ہمارے بچے ہیں، وہ بچے جنہیں ہم نے انگلی پکڑ کر موبائل استعمال کرنا سکھایا، آج وہی ہمیں بتا رہے ہوتے ہیں کہ واٹس ایپ کا نیا فیچر کون سا آیا ہے۔پرانے بزرگ اب صرف حیرت زدہ ہونے کے لئے رہ گئے ہیں۔پچھلے دنوں ایک شادی میں جانا ہوا، لڑکے والے دلہن کے گھر کا راستہ بھول گئے‘ لڑکے کے والد صاحب بار بار دلہن والوں کوفون کرکے راستہ پوچھتے اور ساری بارات کو غلط راستے پر لے کر دائرے میںگھوم کر واپس اُسی جگہ پہنچ جاتے‘ بالآخر بارات میں موجود ایک بزرگ نے مشورہ دیا کہ جہاں جہاں سے ہم گزر رہے ہیں وہاں کوئی نشانی لگا دینی چاہئے تاکہ دوبارہ اگر وہاں سے گزریں تو پتا چل جائے کہ ہم اس راستے پر پہلے آچکے ہیں۔سب نے تحسین بھری نظروں سے بزرگ کی طرف دیکھا ‘ اتنے میں ایک پندرہ سالہ لڑکے نے اطمینان سے دلہن کے گھر والوں کا مکمل ایڈریس پوچھا‘ موبائل نکال کر گوگل میپ کو ہدایات دیں اور پندرہ منٹ بعد ساری بارات دلہن کے دروازے پر موجود تھی۔
آج کل بزرگ پرانی حکایات سنانے سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔میرے ایک دوست کا اپنے بھائی سے جھگڑا تھا‘ دونوں بھائی کافی عرصے سے ایک دوسرے سے نہیںملے تھے‘ دونوں کی خواہش تھی کہ ملنے میںپہل دوسرا بھائی کرے۔ خاندان کے ایک بزرگ کو اس بات کا پتا چلا تو انہوں نے ایک بھائی کویہ خوبصورت جملہ کہاکہ’ایک دن ہم سب ایک دوسرے کو یہ کہہ کر کھو دیں گے کہ اگر وہ مجھ سے نہیں ملتا تو میں اُس سے کیوں ملوں‘۔یہ سنتے ہی بھائی کا لڑکا دوسرے کمرے سے دوڑتا ہوا آیا اور بزرگ سے بولا’یہ تو آ پ نے میرا فیس بک اسٹیٹس چرا کر بیان کر دیا ہے‘۔بزرگ کھسیانے ہوکر بولے‘ لیکن بیٹا یہ بات تو اشفاق احمد مرحوم نے لکھی تھی۔ لڑکے نے جھٹ سے موبائل نکالا ‘ فیس بک کھولی اور اشفاق احمد کی ٹائم لائن ڈھونڈنے لگ گیا۔
گئے وقتوں میں بزرگ ہمیںپاس بٹھا کر نصیحتیں کیا کرتے تھے‘ آج کل یہ فریضہ بھی ٹیکنالوجی نے سنبھال لیا ہے۔دن میں 125بار واٹس ایپ پر میسج آتے ہیں جن میں دنیا جہان کے اچھے جملے اور ’نیک بنو نیکی پھیلائو‘ کی ترغیب دی ہوتی ہے۔کئی دفعہ تو صبح’ پھانسی کے وقت ‘گڈ مارننگ کا میسج آیا ہوتا ہے۔ یاد کیجئے ہمارے بزرگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ کان میں در د ہوجائے تو کون سا گھریلو ٹوٹکا استعمال کرنا چاہئے‘ دانت میں درد ہو تو لونگ کا تیل کیسے لگانا چاہئے…اب یہ بزرگوں کے بتانے کی باتیں نہیں رہیں‘ فیس بک پر فی سبیل اللہ ایسا ایسا نسخہ دستیاب ہے کہ جس جس نے استعمال کیا‘ انتقاماً سب کو بھیجا۔کینسر سے لے کر لبلبے کے علاج تک کا گھریلو نسخہ فیس بک پر موجود ہے۔مجھے شک پڑتاہے کہ یہ نسخے انہیں بزرگوں نے پھیلائے ہیں جو خود بھی فیس بک جوائن کرچکے ہیں۔مجھے ایک دور میں بڑا شوق ہوا کرتا تھا کہ میں بھی بابوں کے پاس جائوں، اس مقصد کے لئے میں بابے ڈھونڈا کرتا تھا‘ یہ بابے مجھے اکثر کسی نہ کسی گرائونڈ کے کونے میں ڈیرہ جمائے نظر آجاتے تھے۔ میرا اعزاز ہے کہ انہی بابوں کی بدولت آج میں ’منگ پتہ ‘ بہت اچھی کھیل لیتا ہوں۔ایک دفعہ مجھے کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ ایک بابا جی ہیں جو بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ میرا دل مچل اٹھا، فوراً بابا جی کے پاس پہنچا اور فرمائش کی کہ مجھے بھی کچھ عنایت فرمائیں۔انہوں نے گھور کر میری طرف دیکھا اور گالیاں دینے لگے۔ میں خوشی سے جھوم اٹھا‘ سنا تھا کہ جو بابے گالیاں دیتے ہیں وہی سچے بابے ہوتے ہیں۔میں نے ان کے پائوں پکڑ لئے اور منتیں شروع کردیں کہ خدا کے لئے مجھے کچھ نہ کچھ ضرور دیں۔ میری آہ و زاری دیکھ کر بابا جی کا دل پسیج گیا۔ انہوں نے کچھ دیر میرا جائزہ لیا پھر بولے’پچاس روپے نکالو‘۔ میں نے جلدی سے بٹوہ نکالا اور پچاس روپے بابا جی کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ بابا جی نے نوٹ الٹ پلٹ کر دیکھا اور میری آنکھوں میں جھانکا’’کس نے بھیجا ہے تمہیں؟‘‘۔ میں نے چھ سات بندوں کے نام بتا دیئے۔ بابا جی کے چہرے پر اطمینان کی لہر نمودار ہوئی، انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کالی سی چیز میری طرف بڑھا دی۔
میں نے سرکھجایا’’یہ کیا ہے بابا جی؟‘‘۔ بابا جی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور سرگوشی کے انداز میں بولے ’خالص چرس ہے، آئندہ سو روپے کی ملے گی…!!‘‘
میرا ایمان پختہ ہوتا جارہا ہے کہ بابوں کے پا س اب کچھ نہیں رہا، بابے اب کمائی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ لاہور کے مشہور دربار پر جائیں تو وہاں ہر دیگ بیچنے والے نے ایک باریش بابا رکھا ہوا ہے۔ ہزار روپے کی چاولوں کی دیگ کے ساتھ ایک بابا فری ملتا ہے…یعنی باآواز بلند دعا کرتاہے۔البتہ اگر آپ نے دیگ کے بغیر دعا کروانی ہو تو فی دُعا ڈیڑھ سو روپے میں پڑتی ہے۔یہ وہ بابے ہیں جو گھر میں فارغ بیٹھے بہوئوں کو کوستے رہتے تھے لہٰذا انہیں اِن کے بیٹے اٹھا کر دکانوں پر لے آئے ہیں، سفید لباس پہنایا ہے اوردکان کے کونے میں بٹھا دیاہے، ہر آتے جاتے کویہ بابے کسی ولی اللہ کی Look دیتے ہیں لہذا شام تک آسانی سے بارہ پندرہ سو کی دیہاڑی لگا لیتے ہیں۔ سیانے بابے اب ناپید ہوچکے ہیں۔ اشفاق احمد کیا گئے‘ اپنے بابے بھی ساتھ ہی لے گئے۔آجکل بابوں کی اکثریت نفرتیں پھیلانے میں مشغول ہے۔ پاکستا ن کے معیاری وقت کے مطابق بابا اسے کہتے ہیں جس کی عمر 60سال سے تجاوز کرچکی ہو۔ اس لحاظ سے ہماری ساری سیاست بابوں سے بھری ہوئی ہے اور’بابائی امراض ‘ کا شکار ہے۔آدھے سے زیادہ بابے سٹھیا چکے ہیں اور بضد ہیں کہ انکے زریں مشوروں پر عمل کرکے پاکستان کو بچا لیا جائے۔ایک وقت آئیگا جب ہم سب بابے بن چکے ہوں گے، ہوسکتا ہے تب ہمیں بھی کوئی تسلیم نہ کرے۔ بابا بننے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ پھر آپ کسی کو بابا نہیں کہہ سکتے۔ بابوں کی اس بڑھتی ہوئی بہتات میں وہ بابے کہیں کھو گئے ہیں جو اصلی اور نقلی کی پہچان بتایا کرتے تھے۔ جن کے پاس بیٹھ کر سکون ملتا تھا‘ جو وظیفے بتاتے تھے، جو محبت کی بات کرتے تھے،جو انا کو مارنے کے طریقے بتایا کرتے تھے…آجکل کے کئی بابے ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کے نادر طریقے بتاتے ہیں اور پھر بڑی معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ ’لوگ ہماری قدر کیوں نہیں کرتے‘۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“