عجیب عالم تھا۔ بیان نہیں کر سکتا۔ زمین… اگر وہ زمین تھی تو ‘ مختلف قسم کی تھی۔ آسمان تھا ہی نہیں! وزن ناپید تھا۔ قدم اٹھاتا تو سینکڑوں ہزاروں میل کی مسافت طے ہو جاتی! ستارے اِدھر اُدھر لڑھک رہے تھے۔ کہکشائیں‘ ایک دوسرے کو شاہراہوں کی طرح کاٹتیں‘ مختلف سمتوں کو رواں تھیں۔ کہیں پھل بوٹے تھے اور باغ چمنستان‘ کہیں پہاڑیاں تھیں‘ سیب اور انار کے درختوں سے ڈھکی ہوئی۔ کبھی صحرا نظر آتے مگر یوں کہ ان کے درمیان میں دریا رواں دواں تھے جن کے کناروں پر سبزہ زار تھے۔ طائروں کی اتنی اقسام تھیں کہ عقل دنگ تھی۔ بولیاں ان کی طرح طرح کی! معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ عالم یہ خواب کا تھا یا بیداری کا۔ اچانک ایک پردہ سا افق سے افق تک تن گیا۔ معلوم ہوا فرشتہ اڑ رہا ہے اور اس کے پروں نے پورے منظر کو جیسے ڈھانپ لیا ہے۔
اچانک دیکھا تو ایک قالین اڑتا چلا آ رہا ہے ۔ایک بزرگ تکیے سے ٹیک لگائے اُس پر نیم دراز بیٹھے ہیں اور کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ایک طرف سے جُھک کر دیکھا تو کتاب کا نام نظر آیا… ’’باغ و بہار‘‘۔سوچنے لگا ان بزرگوار کو کہیں دیکھا ہے‘ ایک آواز آئی‘ یہ میر امن دہلوی ہیں اور فورٹ ولیم کالج کے لیے ایک نئی تصنیف کی تیاری کر رہے ہیں۔ عجیب عالم تھا اس جہان کا۔ ذرا یادداشت پر زور دیا اور آواز نے آ کر یاد تازہ کر دی! قالین رک گیا۔ میر امن قالین سے اترے‘ کتاب ہاتھ میں پکڑے ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور غالیجہ اڑتا چلا آ رہا ہے۔ ایک بزرگ اس پر نیم دراز محو استراحت تھے۔ آواز آئی یہ رجب علی بیگ سرور ہیں۔ لکھنؤ سے آ رہے ہیں۔ بغل میں فسانۂ عجائب نامی کتاب تھی۔ وہ بھی اترے اور میر امن دہلوی کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر عبدالحلیم شرر آئے۔ مٹیا برج کلکتہ سے براہ راست سواری ان کی آئی تھی۔
اتنے میں ایک پورا گروہ آتا نظر آیا۔ آگے آگے سر سید احمد خان۔ پیچھے ان کے منشی ذکاء اللہ ‘ حالی‘ شبلی نعمانی‘ ڈپٹی نذیر احمد اور ڈپٹی صاحب کے پیچھے مودبانہ چلتے مرزا فرحت اللہ بیگ! ایک طرف رتن ناتھ سرشار نظر آئے‘ دوسری طرف سے ایک بزرگ‘ صافہ باندھے‘ گھوڑے پر سوار چلے آ رہے تھے۔ دائیں بائیں شاگرد‘ کتابیں کھولے‘ ساتھ ساتھ قدم زن ۔سبق جاری تھا۔ آواز آئی یہ محمد حسین آزاد ہیں اور گورنمنٹ کالج لاہور سے آ رہے ہیں۔پھر منشی پریم چند آئے۔ پھر ایک خاتون آئیں۔ حنا سے بال سرخ تھے۔ ذرا تنک مزاج مگر شان سب سے الگ۔ کتابوں کا انبار ساتھ ساتھ چلا آ رہا تھا۔۔۔۔ کارِ جہاں دراز ہے‘ چاندنی بیگم اور آگ کا دریا۔ یہ قرۃ العین حیدر تھیں۔ ان کے دائیں طرف عبداللہ حسین تھے۔
پھر شعرا آنا شروع ہوئے۔ علامہ اقبال کے ساتھ ان کے علی بخش حقہ پکڑے تھا۔ حیرت تھی کہ سب اسی میدان میں کیوں جمع ہو رہے تھے۔ وہ دیکھیے جُھومتے جھامتے جگر مراد آبادی چلے آ رہے ہیں۔ ن م راشد بدستور پائپ پی رہے تھے اور ’’لا۔انسان‘‘ ہاتھ میں لیے تھے۔ ایک دُبلا پتلا شخص‘ نظر کی عینک لگائے‘ سائیکل بہت آہستہ چلاتا آیا۔ آواز آئی یہ مجید امجد ہیں جنہیں بلیک آئوٹ کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ نصابی کتابوں سے انہیں آئوٹ رکھا گیا مگر شان ان کی اسی طرح اونچی رہی‘ کمی کوئی نہ لاسکا! انہوں نے سائیکل کھڑی کی تو خود بخود ٹِک گئی اور وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ اچانک ایک جانی پہچانی آواز آئی ۔’’اظہار! چھوٹے بحر کی غزل سنائو تو تمہارا کچھ پتا بھی چلے‘‘ یہ جون ایلیا تھے جو حالتِ حال میں تھے!
پھر ایک خوش وضع ‘ خوش لباس‘ نرم گفتار شاعر تشریف لایا۔ یہ فیض تھے۔ آواز آئی‘ان کی شاعری نے ان کا قد اتنا اونچا کیا کہ کسی بیساکھی کی ضرورت نہ تھی مگر ان کے پس ماندگان نے الیکٹرانک میڈیا پر قبضہ کیے رکھا اور اپنی غرض کے لیے انہیں سیاسی شاعر بنانے کی کوشش کی۔ فیض صاحب نے اس سارے بکھیڑے سے یکسر بیزاری کا اظہار کیا! پھر ایک ترکمانی قالین اڑتا آیا۔ ایک بزرگ اس پر پورے دراز تھے۔ یہ منیر نیازی تھے۔ میریٹ اسلام آباد کے مشاعرے میں سٹیج پر اسی طرح لیٹے تھے کہ وہیں سے اس طرف چل پڑے۔
پھر ایک بزرگ آئے ۔ سون سکیسر کی پگڑی پہنے اور سرخ لاچہ باندھے ۔ خوش گفتار اتنے کہ بات کریں تو پھول جھڑیں ۔ چہرے پر ملائمت ہی ملائمت۔ نرمی ہی نرمی۔ کئی قالین ان کے دائیں بائیں جیسے تیرتی چلی آ رہی تھیں۔ ایک پر افسانوں کے مجموعے، دوسری پر شاعری کے دیوان‘ تیسری پر فکاہی کالم‘ چوتھی پر فنون کی فائلیں۔ یہ احمد ندیم قاسمی تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے فراز صاحب‘ کنکھیوں سے خواتین کو دیکھے جا رہے تھے‘ مگر خواتین میں تھیں ہی کون‘ قرۃ العین حیدر‘ خدیجہ مستور اور جمیلہ ہاشمی!
پھر ایک آواز آئی جس نے سب کی سماعتوں کو ڈھانپ لیا۔’’اب وہ صاحب آ رہے ہیں جن کے استقبال کے لیے ان متقدمین اور متاخرین کو یہاں دعوت دی گئی ہے‘‘۔ ہلکا سا شور برپا ہوا۔ ایک طرف سے کچھ گرد اٹھی‘ پھر بیٹھی ۔ سب کی نظریں اُسی طرف تھیں۔ دیکھا تو یہ انتظار حسین تھے۔ چال میں آہستگی تھی۔ مگر عجیب دلکشی! نظروں میں بیٹھ جانے والی! سب نے مرحبا مرحبا کہا۔ کوئی صدقے کہہ رہا تھا تو کوئی جی آیاں نوں! اب جو معانقے اور مصافحے شروع ہوئے تو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہے تھے۔ کبھی رجب علی بیگ ان کی پیٹھ پر تھپکی دیتے تو کبھی میر امن۔ دہلوی بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق نے تو گال بھی تھپتھپائے !! فراق صاحب دیر تک بغل گیر رہے! کوئی ہاپوڑ کا حال پوچھ رہا تھا تو کوئی جاننا چاہتا تھا کہ لاہور میں نہاری عام ہوئی یا ابھی تک پائے اور نان چھولے ہی راج کر رہے ہیں! میرٹھ والے ایک طرف کھڑے ان سے بہت دیر باتیں کرتے رہے۔ ان میں سلیم احمد اور پروفیسر کرار حسین تھے۔ فراق صاحب نے پھبتی کسی: ’’میاں لاہور تو تم چلے گئے مگر تمہاری تحریریں ہجرت کا ماتم ہی کرتی رہیں‘‘۔
پھر خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی میں ناصر کاظمی کی آواز ابھری۔ انتظار ! تم چلے تو آئے مگر کیا پیچھے بھی کسی کو چھوڑ آئے؟ یا مکمل سناٹا ہے؟‘‘ انتظار حسین نے ناصر کاظمی کے سر پر اڑتے کبوتروں کو دیکھا اور بتانے لگے : ’’بس! منظر نامہ پیچھے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں! میرے حساب میں تو چار پانچ بابے ہی بچے ہیں! خدا کرے قسمت اردو کی یاوری کرے اور یہ عمر خضر پائیں!‘‘
’’کون کون سے؟ ‘‘ سب نے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’بھائی‘ سب سے بڑا بابا تو ظفر اقبال چھوڑ آیا ہوں۔ کہولت سے بھر پور مقابلہ کیے جا رہا ہے اور مسلسل لکھے جا رہا ہے۔ شاعری میں وہی تازگی ہے اور کالموں میں وہی کاٹ جس سے مشکل سے ہی کوئی بچ پاتا ہے۔ پھر شمس الرحمن فاروقی کو چھوڑ آیا ہوں اور مشتاق احمد یوسفی کو۔ دو بابے اور ہیں‘ مستنصر حسین تارڑ سفر ناموں اور ناولوں کا بے تاج بادشاہ! ہر نئی تصنیف اس کی خستگی میں پرانے لاہور کے تازہ کلچوں کو مات کرتی ہے اور بابا عطاء الحق قاسمی جس نے کالم نگاری کی تو اس آن بان سے کہ اسے اردو ادب کی صنف بنا دیا ۔وصیت ناموں میں موت سے اتنا ڈرایا کہ سنا ہے تبلیغی جماعت والے ان وصیت ناموں کو اپنے نصاب کا حصّہ بنانے پر تلے ہیں!‘‘
انتظار حسین نے ناصر کاظمی کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف چل دیے۔ سروں پر کبوتروں کی ڈار تھی!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“