*** آج بابا ذہیں شاہ تاجی کا یوم وفات ہے" ***
::: " بابا زہین شاہ تاجی: ایک پیر طریقیت ۔۔۔۔۔ جو عالم اور شاعر بھی تھے" :::
حضرت زہین شاہ تاجی کا تعلق صوفیوں کے سلسلہ چشتیہ سے ھے۔ ان کا سلسلہ نسب دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق (رض) سے ملتا تھا۔ ان کا اصل نام محمد طوسین پیرزادہ دیدار بخش فاروقی اور "تاجی" تخلص تھا۔ 1902 میں کھنڈیلہ، ضلع تواوئی، ریاست جے پور میں پیدا ہوئے۔ ۔ ان کے والد ساحب کا نام پیرزادہ خواجہ دیدار بخش فاروقی تھا۔ جو خود صوفی منش انسان تھے۔ 1922 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دہلی میں قیام کے دوران بابا تاجی نے محبوب المطالج مچھلی دالان { اردو بازار} میں ملازمت کی اور خوش نویسی سیکھی وہ بہت اچھے خوش نویس تھے۔ جے پور کی عدالت میں کلرک کی نوکری کی اور 1942 میں بابا زہین شاہ تاجی محکمہ سول سپلائی میں چیف انسپکٹر مقرر ہوئے۔ بابا تاجی اردو کے علاوہ انگریزی، فارسی، عربی ، سسنکرت اور ہندی میں تحریروں ، اور گفتار میں روان تھے۔ اور ان زبانوں میں ان کا قلمی اور تکلمی اظہار بہت رواں اور شستہ تھا۔ اب کا 23 جولائی 1978 میں کراچی میں انتقال ھوا۔ آستانہ تاجیہ ، میوہ شاہ میں رزق خاک ہوئے۔ زیین شاہ تاجی مرحوم مذھبی عالم، دانشور، غزل کے شاعر ھونے کے علاوہ انھیں اردو ، فارسی ،ہندی، سسنکرت ،عربی اور انگریزی پر بھی دسترس تھی۔ ان کے مرشد حضرت یوسف شاہ تاجی تھے۔ زہین شاہ تاجی تاج الدین بابا ناگوری کے معتقد بھی تھے۔ انھون نے ابن عربی کی کتاب ۔۔"فصوص الحکم"۔۔ اور منصور بن حلاج کی مشہور تصنیف؛؛"الطوسین"۔۔ کا اردو ترجمہ کیا۔ جس میں خدا اور ابلیس (شیطان) کا مکالمہ بھی شامل ھے۔ ان کی سب سے اھم کتاب بابا تاج الدین ناگوری کی سوانح عمری جو اردو اور فارسی میں لکھی گئی تھی۔ ان کی دو شعری تصانیف ۔۔۔" لمحات جمال " (حمد و نعت ) ، " جمال آیت" ( فارسی غزل و نظم ) زہین شاہ تاجی نے سولہ (16) سے زائد کتابیں لکھیں۔ کراچی سے ایک رسالہ " تاج" بھی جاری کیا۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ان کے علمی اور ادبی حلقے میں اے بی حلیم المعرف ابّا حلیم (سابق شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی) ماہر القادری (مدیر فاران)پروفیسر غلام مصطفے، پروفیسر کراد حسین ( سابق وائس چانسلر ، بلوچستان یونیورسٹی)، مولانا کوثر نیازی، رشید ترابی، جوش ملیح آبادی، ابو لخیر کشفی،اطہر نفیس، الیاس عشقی، رئیس امرہوی، ڈاکٹر محمود احمد ( سابق صدر شعبہ فلسفہ، جامعہ کراچی)، ڈاکٹر علی اشرف ( سابق صدر شعبہ انگریزی، جامعہ کراچی، جو 1971 میں بنگلہ دیش چلے گئے تھے) ڈاکٹر منظور احمد (وائس چانسلر، ہمدرد یونیورسٹی کراچی)، سید محمد تقی ، حسرت کاسگنجوی، غلام فرید صابری قوال اور بہاو الدیں قوال اور سلیم احمد شامل تھے ( فہرست طویل ھے)۔ ان کے صافیانہ کلام کو عابدہ پرویں نے گایا ھے۔ 60 کی دہائی میں کراچی میں شاعر اطہر نفیں کے سوتیلے بھائی کنور اصغر علی خان کے گھرواقع نشتر روڈ (سابقہ لارنس روڈ) پر زہین شاہ تاجی آیا کرتے تھے۔ عموما وہاں پر مذھبی اور علمی مباحث ھوا کرتی تھیں۔ تاجی بابا کی باتوں میں بلا کا کمال، جمال اور جلال ھوتا تھا ۔ ایک دن "سجدے" پر بحث شروع ھو گئی۔ انھوں نے سجدے کی کوئی دو/2 درجن اقسام گنوائی اور اس کی عام فہم تشریح بھی کی۔ ان کے گفتگو میں بہت علمیت ھوتی تھی اور عشا کی نماز کے بعد مشاعرہ بھی ھوتا تھا۔ جس میں کراچی کے شعرا حصہ لیتے تھے۔ کراچی کے میوہ شاہ کےقبرستان میں ان کا آستانہ تھا جہان ہر جمعرات کو سماع اور لنگرکا اہتمام بھی ھوتا تھا۔ زہین شاہ تاجی پان بہت شوق سے کھاتے تھے۔ عطر اور سرمہ لگاتےتھے۔ عام آدمیوں کے لیے ان کے دروازے ہمشیہ کھلے رھتے تھے بھت مہمان نواز تھے۔ جب بھی لنگر او دعوت ھوتی تو بچون کو پہلے کھانا کھلانے کا کہتے تھے۔ان کے شاعرانہ الہام میں مخصوص شعری جمالیات کی خوشبو پھیلی ھوتی تھی۔ ان کا کلام ملاخطہ ھو:
***********
یہ چاہے تو شیشہ بن جا
کلام: حضرت ذہین شاہ تاجی رحمة اللہ علیہ
جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا
شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مےخانہ بن جا
مے بن کر، مےخانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا
مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا
ہستی سے بیگانہ ہونا، مستی کا افسانہ بننا
اس ہونے سے، اس بننے سے، اچھا ہے دیوانہ بن جا
دیوانہ بن جانے سے بھی، دیوانہ ہونا اچھا ہے
دیوانہ ہونے سے اچھا، خاکِ درِ جاناناں بن جا
خاکِ درِ جاناناں کیا ہے، اہلِ دل کی آنکھ کا سُرمہ
شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نُورِ دلِ پروانہ بن جا
سیکھ ذہین کے دل سے جلنا، کاہے کو ہر شمع پہ جلنا
اپنی آگ میں خود جل جائے، تو ایسا پروانہ بن جا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوانہ ہوں تو تیرا ہوں
کلام:ذہین شاہ تاجی |
میں ہوش میں ہوں تو تیرا ہوں ، دیوانہ ہوں تو تیرا ہوں
ہوں رازِ ازل تو تیرا ہوں ، افسانہ ہوں تو تیرا ہوں
برباد کیا برباد ہوا ، آباد کیا آباد ہوا
ویرانہ ہوں تو تیرا ہوں ، کاشانہ ہوں تو تیرا ہوں
تو میرے کیف کی دنیا ہے ، تو میری مستی کا عالم
پیمانہ ہوں تو تیرا ہوں ، میخانہ ہوں تو تیرا ہوں
ہر ذرہ ذہین کی ہستی کا تصویر ہے تیری سر تا پا
او کعبہ دل ڈھانے والے بت خانہ ہوں تو تیرا ہوں
کلام : ذہین شاہ تاجی رحمة اللہ علیہ
یہ شرک ہے تصّورِ حسن وجمال میں
کلام:ذہین شاہ تاجی |
یہ شرک ہے تصّورِ حسن وجمال میں
ہم کیوں ہیں تم اگر ہو ہمارے خیال میں
جب سے مرا خیال تری جلوہ گاہ ہے
آتا نہیں ہوں آپ بھی اپنے خیال میں
اٹھّا ترا حجاب نہ میرے اٹھے بغیر
میں آپ کھوگیا ترے ذوقِ وصال میں
بیداریِ حیات تھی ایک خوابِ بیخودی
نیند آگئی مجھے تری بزمِ جمال میں
اب ہر ادائے عشق میں اندازِ حسن ہے
اب میں ہی میں ہوں آپ کی بزمِ جمال میں
چھائے ہوئے ہیں حسن کے جلوے جہان پر
تم ہو خیال میں ، کہ نہیں کچھ خیال میں
ہاں اے خدا ئے حسن دعائے جنوں قبول
میں تجھ سے مانگتاہوں تجھی کو سوال میں
حد ہوگئی فریبِ تصور کی اے ذہین
میں خود کو پیش کرتا ہوں اس کی مثال میں
حضرت بابا ذہین شاہ تاجی
لاَ موجودُ غَیر الحق
کلام:ذہین شاہ تاجی |
لاَ موجودغَیر الحق
غیرِ حق زق زق بق بق
چشمِ حق ہے سوئے حق
دیکھ ! مقیّد میں مطلق
ایک دمک سے مکھڑے کی
ہوش ہیں غائب رنگ ہیں فق
دل کا بیڑا پار اترا
بے کشتی و بے زورق
محض جنوں کی بے ربطی
کیا دنیا کا نظم و نسق
مہر و مہ، عرش و کرسی
مصحفِ دل کاایک ورق
حسن کی سادہ بات ذہین
فکرَ دقیق ، کلام ادق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولیٰ مولیٰ لاکھ پکارے مولیٰ ہاتھ نہ آئے
لفظوں سے ہم کھیل رہے ہیں معنٰی ہاتھ نہ آئے
جو پانی کے نام کو پانی جانے نادانی ہے
پانی پانی رٹتے رٹتے پیاسا ہی مر جائے
شعلہ شعلہ رٹتے رٹتے لب پر آنچ نہ آئے
اک چنگاری لب پر رکھ لو لب فورا جل جائے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔