گاؤں جس بابے نے بسایا تھا وہ دہائیاں بیتے مر چکا تھا۔ لوگ اسکو بابا وڈا کے نام سے جانتے تھے۔ بابا وڈا کی آل اولاد کا کچھ پتہ نہیں کہاں تھی۔ پھر نمبردار بدلتے بدلتے گاؤں کی چودھراہٹ ایک مزدور خاندان کے پاس ایسے چلی گئی کہ انکو شہر میں لوہا کوٹنے کا ٹھیکہ مل گیا۔ پیسہ آیا تو مکان بنا اور مکان بنا تو ڈیرہ چلا۔ کسان اور ہاریوں کو حقہ پینے کو دیا جاتا، وہ اسی پر خوش تھے۔
رفتہ رفتہ مزدور خاندان کے بڑے نے اپنا نام لوہا کوٹ سے پیسہ پھینک رکھ لیا۔ اور پیسہ پھینک خاندان گاؤں کی معشت پر چھا گیا۔ کسانوں کی فصل سے پہلے پیسہ پھینک سودا کر لیتا اور نقد جنس اسکے گوداموں میں پہنچ جاتی۔ پیسہ پھینک خاندان کے دو سپوت بڑے ہونہار نکلے اور باپ کی پیسہ پھینکی روایات کو چار چاند لگا دیے۔ اب گاؤں میں انکی برابری کا کوئی خاندان نہیں تھا۔
مگر نہیں، ان سے زرا نیچے ایک اور گاؤں کے آدھے حصے کی فصلوں پر اجارہ دار تھا۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ انکا ایک بڑا ان زمینوں کے مالکوں کے کچھ پلید جانوروں کی صفائی کا زمہ دار تھا۔ مالکان و قابضان رقبہ جاتے جاتے حلوائی کی دکان پر فاتحہ کر گئے۔ اس خاندان کی آخری نسل اپنے حصے کو بچانے کے لیے پیسہ پھینک خاندان سے صلح جوئی کے چکر میں رہتی۔ بظاہر یہ شہیدوں کا خاندان کہلاتا مگر انکے مزاروں کے اردگرد غریبوں کی گلیوں میں سڑاند سانس نہ لینے دیتی۔
کچھ سال پہلے دور دراز سے ایک بانکا نوجوان گاؤں آیا اور سیدھا بابا وڈا کی کچی مٹی قبر پر جا کر رونے لگا۔ گاؤں میں دھول مٹی کی طرح خبر پھیل گئی کہ بابے وڈے کا پڑپوتا اپنے جد کی تلاش میں واپس ادھر کو آ نکلا ہے۔ گاؤں کی بڑی بوڑھیاں اس کا ماتھا دیکھتیں تو چومتے نہ تھکتیں کہ ان کو بابے وڈے کی عظمت کی جھلک اس میں دکھائی پڑتی۔ بانکا نوجوان دو روز گاؤں میں ٹھہرا اور اپنے پڑدادا کے گاؤں کا حال دیکھ کر آزردہ ہوا۔ دونوں خاندان اردگرد کی ساری فصلوں پر قابض تھے۔ اور گاؤں کے لوگ محض انکے پھینکے ٹکڑوں پر زندہ تھے۔
بانکے نے اپنے باپ سے اس گاؤں کی کہانی سن رکھی تھی کہ کیسے اسکے پڑدادا نے سارے گاؤں والوں کو اس گاؤں اور اردگرد کی زمینوں کا مالک اور رکھوالا ٹھہرایا تھا۔ مگر اب ان دو خاندانوں کو کے قبضے کو دیکھ کر وہ آبدیدہ ہوگیا۔ افسوس یہ تھا کہ گاؤں کے لوگ برسوں سے ظلم سہہ کر یہی سمجھتے تھے کہ زمینوں کے اصل مالک وہی دو خاندان ہیں اور وہ صدیوں سے خدائی حکمت کے تحت انکے غلام ہیں۔
بانکے نے کئی روز ان دونوں خاندانوں کو للکارا کہ وہ ان غریبوں کا حق واپس کردیں۔ دونوں خاندانوں کے لڑکے بانکے سے الجھنے لگے۔ اور تو اور کچھ غریب خاندان کے لڑکے بھی پیسہ پھینکوں کے ساتھ اس آس پر شامل ہو گئے کہ ان کو بھی پیسہ پھینک ہی سمجھا جائیگا۔ بانکے کا بہت مذاق اڑایا گیا۔
بانکے نے بڑی عدالت سے حکمنامہ لیا کہ گاؤں کا اصل وارث بانکا ہی ہے اور وہ اب گاؤں کا نمبردار ہے۔ اس پر دونوں خاندان بڑا سٹپٹائے۔ اور اپنی اپنی حویلیوں کے دروازے گاؤں والوں پر بند کر دیے۔ زمینیں چونکہ ابھی تک ان خاندانوں کے قبضے میں تھیں۔ گاؤں کے لوگ بھوکے مرنے لگے۔
بانکے نے عدالتوں میں ان خاندانوں کے قبضے چھڑانے کی درخواستیں بھی لگا دیں۔ اور گاؤں کے لوگوں کے روزگار کے لیے بھی شہر شہر پھرنے لگا۔ بانکا جب بھی کسی شہر کی جانب گاؤں والوں کے لیے دانہ پانی کے بندوبست کو نکلتا، دونوں خاندانوں کے لڑکے اور انکے میراثی نکلتے اور گاؤں کے لوگوں کو سمجھاتے کہ دیکھا! یہ تم کو بھوکا مروائے گا۔ تم اچھے تھے جب تم "ہماری" زمینوں پر کام کرتے تھے، ہم تم پر ترس کھا کر تمہارے حق سے زیادہ مزدوری اور دانے بھی دیتے تھے۔ اب تم بھوکے مرو۔
گاؤں کے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ان میں سے کئی تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ یہ امارت غربت تو خدا کی طرف سے ہے۔ اس میں ان دونوں خاندانوں کا کیا قصور۔ اور زمینیں تو ہیں ہی ان دونوں خاندانوں کا حق۔ بھلا گاؤں والے انکے مالک کیسے ہو سکتے ہیں؟ غلام بھی بھلا آقا کا حصہ دار ہوا کرتا ہے؟
سنا ہے، اس بار بانکا شہر کی منڈی سے واپس لوٹآ تو اس کے ساتھ کچھ کٹے اور مرغیاں تھیں۔ وہ گاؤں کے لوگوں میں انکو بانٹ رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ عزت کی روٹی کماؤ، پھر سے ان خاندانوں کی جوتیاں چاٹنے کی ضرورت نہیں جو تمہارے بچوں کا حصہ کھا کر تمہاری حالت پر ہنستے ہیں۔ جب تک عدالت سے تمہاری زمینوں کا فیصلہ تمہارے حق میں نہیں آتا تب تک تم اپنی روزی روٹی ایسے چلاؤ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
سنا ہے، دونوں حویلیوں میں لڑکے ٹھٹھے اڑا رہے ہیں اور انکے کمی کمین حمائیتی بھی انکی ہنسی میں ہنسی ملا رہے ہیں کہ دیکھو، بابے وڈے کا پڑپوتا انڈے مرغی کا کام کر رہا ہے۔ خاندانی امارت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دونوں خاندانوں کے اندرونی کمروں میں دو تصویریں لگی ہوئی ہیں، ایک خاندان کا بزرگ ہاتھ میں دھونکنی پکڑے بھٹی سلگا رہا ہے، اور دوسرے کا بزرگ کسی گورے قابض کے جانور کو گیند پکڑنا سکھا رہا ہے۔