بقیہ تفصیل توہمارے ذہن میں کچھ دھندلا گئی ہے، اتنا یاد ہےکہ ایکسل لیب کے بزنس وزٹ سے واپسی پرمیں اور آپریشن مینیجر عبدالوحید لاہور کے مسافر تھے۔ پتوکی سے ہوتے ہوئے چونیاں کینٹ کا بائی پاس پکڑہم نے منہ ول قصور شریف کیا اور تھوڑی دیر میں کھڈیاں خاص کے پاس دیپالپور۔ قصور روڈ کو جا لیا رات گہری ہو چلی تھی اور پپوٹےبھاری جب قصورسےکچھ پہلےہم ایک وےسائیڈہوٹل پرچائےپینےرکے
گرم چائےکی سُرکیاں لیتی وہاں بیٹھی مقامی لوگوں کی ایک ٹولی نے ہمیں خوش آمدیدکہا
باتوں باتوں میں لاہورکاذکرآیا تو قصورکی انگڑائیاں لیتی اس سرد رات میں بابا بلھےشاہ کی نگری کےایک باسی نےبےاختیارکہا
اُچے برج لاہور دے
جتھے بلدے چار مشال
ایتھے ای میاں میرؒ دی بستی
ایتھے ای شاہ جمالؒ
اک پاسے دا داتاؒ مالک
اک دا مادھو لالؒ
اسی رات کی مسافت میں میں اورعبدالوحید صاحب اچے برج والے لاہورپہنچ گئےاوربات آئی گئی ہوگئی
بعد کےدنوں میں ایک اتوارکی کسلمندی میں میں چارمشال کھوجنے نکلا
تومیاں میرسےہوتاہوامادھو لال حسین اوروہاں سےداتادربارتک ہوآیا۔ شاہ جمال کی حاضری کسی مہاجن کےقرض کی طرح ہم پراُدھارہی رہی
صاحب اُسی اُچے برج لاہورکاذکرہےکہ ہمارےدن کچھ بےفکری سے کٹ رہےتھے۔ امیگریشن ویزاکی کاغذی کارروائی کےآخری مرحلےمیں ہماراپاسپورٹ ہائی کمیشن والوں نےمنگوالیاتھا اورایکسل لیب کی مینیجمنٹ ان دنوں لاہورمیں ہمارامتبادل تلاش کررہی تھی۔ مگرجب ارباب اختیارہماری سفری دستاویزکوسردمہری کی دھیمی آنچ پردم پخت لگا کچھ بےنیازسےہوگئے اور ہمارے انتظارکی گھڑیاں سہ ماہی سے ہوتی ششماہی خانے میں سستانے لگ گئیں تو دلِ بےپرواہ کو ایک تشویش نے آگھیرا۔
اس ساری بےیقینی میں واحدپائیدارہماری نوکری تھی۔ کمپنی کودیے گئےہمارےتین ماہ کےنوٹس کاعرصہ مکمل ہونےکےباوجودہم برسرِ روزگارتھے۔ ایکسل لیب کی انتظامیہ نےہمیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ پاکستان میں ہمارےقیام تک ہماری خدمات سےمستفیدہوتےرہیں گے
صاحب ایسےایمپلائر قسمت والوں کو ملتےہیں بارے روزگارتو تسلی ہوئی مگربیوی بچوں سےدوری کو کافی وقت ہوچلاتھا۔ اپنے پیاروں کی یادوں سےبوجھل ایسی ہی ایک شامِ شہرِیاراں میں ہمارےجانی جان لاہوری دوست نےکہا ’پائین تسیں شاہ جمال دا چکرکیوں نہیں لاندے۔ اوتھوں بیڑاپارہوجاناجے۔‘ ہم بالکل بھی خوش عقیدہ لوگوں میں سے نہیں ہیں مگر اپنےعزیزدوست کی فرمائش پریادآیاکہ اُچےبرج لاہورکےچارمشال والا شاہ جمال کےدربارکاچکرہم پرابھی تک اُدھارتھا۔
اب یہ اوربات کہ شاہ جمال پرحاضری کےچند ہی ہفتوں کےاندرہماراپاسپورٹ مع امیگریشن ویزابذریعہ واپسی ڈاک آگیا۔ صاحب ہم صدقِ دل سےیہ مانتےہیں کہ اس ساری کارروائی میں صاحبِ مزارکا(نعوذباللہ) بالکل بھی کوئی ہاتھ نہیں مگراس کاکیا کریں کہ ہمیں وہاں لےجانےوالاکوئی غیرمرئی ہاتھ تھااوروہاں دریافت ہونےوالی کہانی ایک مافوق الفطرت داستان
صاحبو، نہرسےجو راستہ شاہ جمال کی بھول بھلیوں کوجاتااور چبوترےکی سیڑھیوں سےاوپرچڑھتا ہےوہیں مزارکے تکیے سے پہلو بچاتے دالان میں ایک طاقچے پر آس اوریاس کے کچھ روشن ٹمٹماتے دیے امیدو بیم کی ایک ہزارایک کہانیاں سناتے ہیں
مزارکے پچھواڑے شادمان کی گلیاں جب جیل روڈ کو پلٹتی ہیں تو وہیں ایک گول چکر پر گئے دنوں کی ایک سوگوار یاد کا بین کرتی حال کھیلتی ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہیں کہیں صاحب مزار کی ملاقات ماضی کےایک انقلابی بھوت سے ہوتی ہے +
___
قصورکے بابا بھلےشاہ نے اپنے اوچ شریف والے مُرشد کی شان میں کہا تھا
تسیں اُچے تہاڈی ذات وی اُچی، تسیں وچ اوچ دے رہندے
اسیں قصوری، ساڈی ذات قصوری، اسیں وچ قصوردے رہندے
شاہ عنایت، بلھےشاہ اپنےماپےچھوڑجن کےلڑلگےوہ لاہورآگئےتھےاور یہیں دفن ہوئے
کوئینزروڈپران کامزارہے
بلھےشاہ نےقصوری روش برقراررکھی اوربعدازوصال قصورکوہی اپنا مسکن بنایا
قصورشہرنےبلھےشاہ کی زندگی میں جن کی لاہوروالےمرشدسےآنکھ لڑگئی تھی کچھ اچھاسلوک نہیں کیا
یہی روش اس دورکےقصورکےافغانی خانزادوں نےبھی اپنائی
جب لاہورپہ ڈالی بُری نظرہی ڈالی
ہم قصورواپس آئیں گےفی الوقت لاہورچلتےہیں
شاہ جمال کےمزارکےعقب میں چھوٹی گلیوں کی بھول بلیوں سے نکل کر روڈ پر آجائیں تووہاں سے شادمان کی سڑک جیل روڈسے بغلگیرہونےکی عجلت میں شمالاً جنوباً چلتی چلی جاتی ہے۔ اس روڈ پردوگول چکرآتےہیں۔ ہماری توجہ کی مستحق ان میں سےپہلی چورنگی ہےجو شاہ جمال کےمزارسےلگ بھگ پانچ سو گز دور ہے
ماجد شیخ ہمیں بتاتےہیں کہ یہ علاقہ لہناسنگھ کی چھاؤنی کہلاتاتھااورعین ہماری اس چورنگی پرایک عظیم الشان حویلی تھی۔ سردارلہناسنگھ سےتعارف کےلیے ہمیں تھوڑاماضی میں جاناپڑےگا۔
اٹھارویں صدی کےہندوستان کا ذکرہے۔ نادرشاہی قتلِ عام کےزخم ابھی تازہ تھے
احمد شاہ ابدالی کے پےدرپے حملوں نے پنجاب کوپنجابی محاورےکےمطابق ’مدھول‘ کررکھ دیاتھا۔ کہنے والےکہتےتھےکہ گندم کےخوشوں اورمویشیوں کےتھنوں میں دودھ اترتاتواحمد شاہی فوج کوخبرہوجاتی جو اپناخراج وصول کرنے چڑھ دوڑتی تھی۔ پنجاب کےمیدان آج بھی اس کہاوت کی بازگشت سےباہرنہیں نکلےجواحمد شاہی لشکرکی دھول میں گونجا کرتی تھی
کھادا پیتا لاہے دا
رہندا احمد شاھے دا
یہ وہ دورتھاجب سکھ جتھوں میں بھنگی مِسل زورپکڑ رہی تھی۔ احمد شاہی حملوں کازورکچھ کم ہواتولاہورکی راجدھانی پرتین سکھ سرداروں کےعروج کاسورج طلوع ہوا۔ گجرسنگھ (قلعہ گجرسنگھ والے)، سوبھا سنگھ اورلہنا سنگھ مجیٹھیا، شادمان کی چھاؤنی والےلہنا سنگھ تیس برس اورگزرے اوراقتدار اس مضبوط سکھ مثلث سےان کی کمزور اولادوں کےہاتھوں میں گیاتولاہورمیں بھنگی مِسل کےچراغ کی لوبھی ٹمٹمانےلگی۔ یہ وہ وقت تھاجب قصورکےخانزادوں کی نظریں للچائی ہوئی نظروں سےلاہورکو دیکھنےلگی تھیں
لیکن ابھی لاہورکےسنگھاسن پرامرتسر کی دشاسےایک مہاراجہ نےآناتھا اسے بلانے والوں میں لاہورشہرکی آرائیں برادری بھی تھی۔ یہاں تاریخ کے چغل خورہمارے کانوں میں چپکے سے ایک نام ڈالتے ہیں۔ چوہدری محکم دین
حجرےشاہ مقیم کا چوہدری محکم دین ذیلدار جو نواں کوٹ لاہورمیں سبزیوں کا آڑھتی تھا اور اندرون شہر بھی مال سپلائی کرتا تھا محکم دین نےرنجیت سنگھ کی فوج کورات کےاندھیرےمیں موری گیٹ کےپاس وہ بدرو دکھائی جس سےشہرکی آلائش بیرونی خندق میں گرتی تھی
رنجیت سنگھ کےسپاہی اس شگاف سےاندرداخل ہوئےاور لاہوری گیٹ کےدرکھول دیے۔ رنجیت سنگھ نےاگربغیرخونریزی کےتخت لاہورپرقدم جمائےتو اس کاکریڈٹ محکم دین آرائیں کوجاتاہے مثل مشہورہے’آرئیں۔ مطلب تائیں‘ برانہ منائیےگاہم خودآرائیں ہیں اوراس مثل کی صداقت میں اپنی مثال پیش کرنےکوبھی تیارہیں
مگریہاں معاملہ الٹ ہوا، مہاراجہ کی ہردلعزیزمائی موراں سےکسی بات پران بن ہوئی تورنجیت سنگھ نےتوتاچشمی کاثبوت دیااورمحکم دین سےبہت سی مراعات ونوازشات واپس لےلیں یہاں اگرہم لاہورکےقصہ گوماجد شیخ کی انگلی پکڑلیں تووہ کشاں کشاں چوبرجی کےگول چکرسےنکلتےبہاولپورروڈ پرایک وقف اسپتال لےجائیں گے
یہاں وہیل چیئرپربیٹھی، گئے وقتوں کی بیرسٹرثریاعظیم دکھی انسانیت کی خدمت کابیڑا اٹھائےہوئےہیں
یہ چوہدری محکم دین کاشجرہ ہے، مگر یہ قصہ پھر کبھی چھیڑیں گے یہاں سے ہم اپنے پڑھنےوالوں کو واپس شاہ جمال کےمزارپرلےجائیں گےجہاں پاس ہی شادمان کےگول چکر پرواقع لہناسنگھ کی حویلی ہے۔ رنجیت سنگھ کےراج میں قصورسےبہت سےلشکرآئےاور منہ کی کھائی۔ جب ان سے اورنہ کچھ بن پڑا تو انہوں نے انگریزوں سے سازبازکرکے رنجیت سنگھ کےقتل کا منصوبہ بنایا۔
کہتےہیں کہ قصورکاایک وفد یہ سازشی تجویزلےکرلاہورآیااوررنجیت سنگھ کےایک جرنیل سےمِلا
یہ سازشی ملاقات شاہ جمال کےپڑوس میں لہناسنگھ کی اسی حویلی میں ہوئی
ہواکچھ یوں کہ اتفاق رائےنہ بن پڑااورسازش کی بوُپھیل جانےکاخطرہ لاحق ہوگیاتورنجیت سنگھ کےجرنیل نےقصوری وفدکےسربراہ کی گردن اتاردی قصورکےایوانوں میں جب کٹاہواسر بمعہ سربُریدہ لاش پہنچےتو کہرام مچ گیا
یہ تب کی بات ہےکہ قصورکےجوتشیوں نےپیشنگوئی کی کہ یہ خون اپنا انتقام لےگا اور لاہور سے شروع ہونے والا یہ خون آشام چکر شاہ جمال کے ہمسائے میں شادمان کی اسی چورنگی کو پلٹے گا
ــــــ
گورنمنٹ کالج سے لوئرمال کے پار اتریں تو ڈی سی آفس کے بالکل ساتھ لاہور کے چیف آف ٹریفک پولیس کا دفتر ہے۔ بغداد کے پیرانِ پیر کے نام پر رکھی دو رویہ شیخ عبدالقادرجیلانی روڈ ٹریفک پولیس آفس کو گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز سے جدا کرتی ہے۔
بہت سال نہیں گزرے کہ ٹریفک پولیس کی جگہ یہاں ڈسٹرکٹ پولیس آفس ہواکرتاتھا، اسلامیہ کالج کلمہ پڑھ کے مسلمان نہیں ہوا تھا اور ابھی ڈی اے وی (دیانند اینگلوویدک) کالج کہلاتا تھا۔
یہاں کبھی انقلاب زندہ باد کا نعرہ پروان چڑھا تھا، مگر اس کا ذکر ابھی کرتے ہیں، ذری ایک چکر آگے کا لگا آئیں اسلامیہ کالج سےاگر آپکامنہ اورنیت داتادربار کی طرف ہو تو تھوڑا آگےگنج بخش ٹاؤن کی بھول بھلیوں میں ایک سالخوردہ عمارت بمشکل اپنےڈھانچےپر کھڑی ہے۔ پہلی نظرمیں گمان گزرتاہےکہ اس کی اینٹوں کو جیسے زنگ لگ گیاہو۔ ریٹیگن روڈ پرخستہ حال، آج ہےکل نہیں کےمصداق یہ گئےدنوں کا بریڈلا ہال ہے۔
انقلاب کےنعروں سےگونجتی اس عمارت سےہماراایک بہت ہی محبوب نام جڑاہے، بھگت سنگھ
1905کی پگڑی سنبھال جٹاہو یا 1929میں کانگریس کی پورنا سَوراج، بریڈلاہال مزاحمتی تحریکوں کا گڑھ تھا۔ یہیں لالہ لاجپت رائےنےنیشنل کالج کی بنیاد ڈالی جس کےفارغ التحصیل انقلابیوں میں ایک نام بھگت سنگھ کا ہے۔
لوئر مال سےجڑے آج کےناصرباغ میں تقسیم سےپہلے جب یہ ابھی گول باغ ہواکرتاتھا، جوش تقریر میں ایک انگلی آسمان کی طرف اٹھائےایک مجسمہ لالہ لاجپت رائےکی یادتازہ کرتاتھا۔ ایک آزاد اسلامی مملکت کولالہ جی راس نہ آئےاور ہم نےبقیہ مہاجرین کی طرح اس مجسمے کو بھی انڈیا کی راہ دکھادی۔
پنجاب کےاس گم گشتہ سپوت کوجسکالقب شیرِپنجاب تھابالآخر شملہ کےسکینڈل پوائنٹ میں ایک سنگ مرمری چبوترےپرجگہ مِل گئی
وہ نومبر 1928کاایک روشن دن تھاجب سائمن کمیشن کےخلاف موچی گیٹ سےنکلی احتجاجی ریلی پرپولیس نےوحشیانہ لاٹھی چارج کیا۔ پولیس کمشنرجیمزاےسکاٹ کےحکم پربرسائی گئی لاٹھیوں کی ضربوں کی زدپرآنےوالوں میں لالہ لاجپت رائےبھی تھےجوزخموں کی تاب نہ لاتےہوئےاسپتال میں چل بسے۔ یہ تب کی بات ہےکہ بھگت سنگھ اوراس کےانقلابی ساتھیوں نےقسم کھائی کہ لالہ لاجپت رائےکےخون کابدلہ لیاجائےگا۔ ہمارےپڑھنےوالوں میں سےجنہوں نےراکیش اوم پرکاش مہراکی رنگ دےبسنتی دیکھی ہے انہیں شاید وہ منظر یاد ہوگا جب چندرشیکھرآزاد نے کہا ’ہمیں کچھ ایسا کرنا ہوگا جو انہیں جڑ سے ہلا دے‘ جس پر درگا بھابھی نے بےدھڑک کہاتھا ’مار ڈالو اسے‘
اب ہم واپس ڈی اے وی کالج اور اس کے مقابل پولیس لانئز کی طرف پلٹتے ہیں، جنکا ذکر ہم نے اس قسط کے شروع میں کیا تھا۔
دسمبر 1928 کی ایک سرخ سہ پہرڈسٹرکٹ پولیس آفس کےاحاطےمیں بھگت سنگھ نےراج گرواورچندرشیکھرآزادکےساتھ ملکرایک فرنگی پولیس افسرکوگولیاں مارکرہلاک کردیا۔
جائےوقوعہ سےکورٹ سٹریٹ اورپھراسلامیہ کالج کےہوسٹلوں کی دیواریں اورچھتیں پھلانگتےانقلابیوں کی یہ ٹولی دیوسماج روڈکےراستےفرار ہوگئی۔
یہ عقدہ بعد میں کھلاکہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جیمز سکاٹ کے مغالطےمیں بھگت سنگھ اورساتھیوں نےایک نوآموز پروبیشن پرآئے جان سانڈرزکومارڈالا تھا۔
ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کے پمفلٹوں پر ایک نام تبدیل ہوا مگر نفس مضمون وہی رہا۔
جےپی سانڈرز ماراگیا
ہم نےلالہ لاجپت رائےکا بدلہ لےلیا
لاہورکی سڑکوں پر دن دہاڑے ایک فرنگی کےقتل کی بازگشت بہت دور تک سنی گئی۔ آنےوالےدنوں میں نوآبادیاتی نظام عدل نےآزادی مانگنےوالےان جانبازوں کوموت کی سزاسنانی تھی۔ آزاد منش روحوں کوسیاسی قیدیوں کادرجہ پانےکےلیے ابھی بھوک ہڑتال کرنی تھی اوربھگت سنگھ نے ابھی پھانسی کےمقابلے میں فائرنگ سکواڈ کےانتخاب کی ناکام عرضی دینی تھی۔
ان سب کےساتھ ساتھ فرنگی سرکارکوایک اوربڑامسئلہ درپیش تھا
ـــــــ
آج کےگوگل میپ پرقصورشہرایک تکون کےمانند دکھائی دیتا ہے۔ غورکرنےپراس مثلث کےعین قلب میں بابابلھےشاہ کامزارہے
ایک عالیشان مسجد کےپہلو میں نسبتاً ایک سادہ سے چوکور کمرے میں تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا والا درویش اپنی ابدی نیند سورہاہے۔ مزارکے احاطے میں ایک اورکمرے میں چند ایک قبریں ہیں۔ وہاں ایک کتبہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شہید جمہوریت نواب سردار محمد احمد خان قصوری کا مدفن ہے۔
تاریخ شہادت 11 نومبر 1974 درج ہے۔ تاریخ کے رنگ بھی نیارے ہیں قصورکے وہی افغان سردار جنہوں نے بلھے شاہ کےانتقال پر لادینیت کے فتوے لگا اس کی لاش کو قصورشہر کی دیواروں کے اندر دفن ہونے کے اجازت بھی نہ دی ان میں سے ایک اسی مزار کے احاطے میں دوگز زمین کا زمیندار ہے۔ مگر قصورکے اس افغانی سردار زادے کی کہانی اس سے آگے بھی ہے۔
لاہورسازش کیس میں قائم کیےگئےاسپیشل ٹریبونل کی سنائی گئی سزاؤں کےتحت بھگت سنگھ، راج گرواورسکھ دیوکو 7 اکتوبر 1930 کوپھانسی دی جانی تھی جوبوجوہ غیرمعینہ مدت کےلیےملتوی کردی گئی۔
بہت سی قانونی پیچیدگیوں اوران پرجع کروائی گئی درخواستوں کویکسرنظراندازکرتےہوئےانگریزسرکارنے18 مارچ کو بلیک وارنٹ جاری کردیےجن کےمطابق پھانسی پرعملدرآمد 24 مارچ 1931 کوہوناتھا۔ ہند کےگلی کوچوں میں بھگت سنگھ اب ایک زندہ نام بن چکاتھااور پورےہندوستان میں کوئی مجسٹریٹ پھانسی کی سزاپرعملدرآمد کروانےکےلیے تیارنہیں تھا۔ تب انگریزسرکارکو قصورکےخیشگی سرداروں میں سےایک اعزازی مجسٹریٹ نے اپنی خدمات پیش کیں۔ بوکھلاہٹ اور جلد بازی میں ہمارے نوآبادیاتی آقاؤں نے انقلاب کے سرخیل جوانوں کی پھانسی کے انتظامات ایک دن پہلےہی مکمل کرلیے اور بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو اپنے رشتے داروں سے آخری ملاقات کرائے بغیر دار کی رسیوں کے گلوبند گلے میں پہنائے تو اس بین کرتی ہوئی ہنستی گاتی شام میں پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کروانے اعزازی مجسٹریٹ نواب سردار محمد احمد خان قصوری پہلےسےموجودتھے۔
گئے وقتوں کے لاہور کی سنٹرل جیل میں پھانسی کے جس تختے پر بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتےایک مستی میں جھول گئے وہ شادمان میں ہمارےاسی گول چکرکی جگہ پر کھڑاکیا گیاتھا جہاں ایک زمانے میں لہنا سنگھ کی حویلی ہوا کرتی تھی۔ وہی حویلی جہاں رنجیت سنگھ کےقتل کی سازش کی مخبری ہونےپر قصوری افغانوں کےوفدکا سربراہ مارا گیاتھا۔ قصورکے جوتشیوں کی پیشنگوئی کی تعبیر میں شاہ جمال کے مزار کے ہمسائے میں بھگت سنگھ نے اپنا جیون دان کردیاتھا اور اس موت کی تصدیق پر ثبت ہونے والے دستخطوں میں سے ایک دستخط قصورکے نواب محمد احمد خان کے بھی تھے۔
ابھی اس خون آشام چکر نے کچھ اور جانیں لینی تھیں۔
بھگت سنگھ کے واقعے کو نصف صدی بھی پوری نہیں ہوئی تھی جہاں کبھی پھانسی گھاٹ لگا تھا وہ جگہ اب فوارہ چوک کہلاتی تھی۔ یہاں ایک شادی کی تقریب میں آئے پاکستان پیپلزپارٹی کے نواب احمد رضا قصوری کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور نتیجے میں ان کے والد نواب محمد احمد خان قصوری اسپتال پہنچتے پہنچتے طبی امداد ملنےسے پہلے جان کی بازی ہار گئے۔
بھگت سنگھ کی پھانسی والے اعزازی مجسٹریٹ نواب محمد احمد خان قصوری کا قتل بعینہٖ شادمان کے اسی خون آشام چوک پرہوا جہاں کبھی لہنا سنگھ کی حویلی تھی اور جہاں داعی انقلاب بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو گلےلگایاتھا۔ قصور کا خونی چکر گھوم پھر کرشادمان کے گول چکر کو آن ملاتھا۔
قصورکےنواب کا قتل پاکستان پیپلزپارٹی کےذوالفقارعلی بھٹو کے گلے کا ہار بنا، ایک اور عدالتی سرکس لگا اور راولپنڈی میں جہاں آج جناح پارک ہے اور میکڈونلڈز کا فرنچائز ہے جس کےپاس چار مینار کھڑےہیں قصورکےخونی چکر نے ایک اور خراج وصول کرلیا اور نسرین انجم بھٹی نے’بھٹو دی وار‘ لکھی
میرے دشمن لِکھن عدالتاں میرے سجناں خبر پڑھی
میں مرزا ساگر سندھ دا میری راول جنج چڑھی
اوراحمدبشیرنےدل بھٹکےگامیں کہا ’اب تواس ڈرامےکےتمام ایکٹر مر چکےہیں۔ بھٹوکوپھانسی ملی۔ ضیاءالحق کاجہازگرااورجسٹس مولوی مشتاق آخری سال گھرمیں مقیدرہ کرمراتواس کےجنازےپر شہدکی مکھیاں ٹوٹ پڑیں‘
قصور اور شادمان کے خون آشام چکر کا اثرابھی ہے کہ ختم ہوگیا اس کے بارے میں مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہے۔ مگر یہیں کہیں شادمان کے گول چکر کی قربت میں شاہ جمال کے مجاوروں سے مروی ہے کہ چاندنی راتوں کی دودھ دُھلی روشنی میں دربار کی سیڑھیاں چڑھیں تو جہاں دالان کے منّت کے چراغوں کی لو ستاروں سی ٹمٹماتی ہے بھگت سنگھ کا بھوت آج بھی شاہ جمال کے مزار کا طواف کرتاہے اورکہنے والے کہتے ہیں کہ یہیں کہیں نظر بچاکر بھگت سنگھ کی ملاقات شاہ جمال سے ہوتی ہے
واللہ اعلم