مسئلے تو بہت ہیں مثلاً یہ کہ وزیر مملکت برائے داخلہ حکومتِ پاکستان نے دو ماہ کے عرصہ میں ممنوعہ بور کے صرف پانچ ہزار چھ سو اناسی لائسنس جاری کئے ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس پر ’تشویش‘ کا باقاعدہ اظہار کیا ہے اور ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے کیلئے تین سیکشن افسروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے! سیکشن افسروں کا اصل جرم غالباً یہ ہے کہ وہ اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتے جس طبقے سے سینٹ کے ارکان تعلق رکھتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے اگر ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے ہوں تو یہ تجویز بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ گرفتار شدہ سیکشن افسر قطعاً رہا نہ کئے جائیں اور وزیر مملکت برائے داخلہ بدستور لائسنس جاری کرتے ہیں۔ اخبارات نے تو یہ اطمینان بخش خبر بھی شائع کی ہے کہ جس پرائیویٹ (یعنی غیر سرکاری) شخص کو اسلحہ کے شعبے کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام دیا گیا تھا، اسی نے چھبیس ہزار لائسنس خود ہی جاری کر دئیے!۔ مسئلے بہت ہیں مثلاً حافظ حسین احمد صاحب اور محمد علی درانی صاحب نے بہاولپور میں پریس کانفرنس سے اکٹھا خطاب کیا لیکن یہ اصل خبر نہیں ہے۔ اصل خبر یہ ہے کہ حافظ حسین احمد نے پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ اکبر بگتی کے قاتل پرویز مشرف کو کٹہرے میں لایا جائے اور محمد علی درانی نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جب پرویز مشرف عازمِ برطانیہ ہو رہے تھے تو قاف لیگ نے یہ نہیں کہاکہ …؎
میرے قاتل مرے دل دار! مرے پاس رہو
تو کیا محمد علی درانی قاف لیگ کا حصہ نہیں؟ اس سوال کا جواب قاف لیگ ہی دے سکتی ہے یا درانی صاحب خود۔ لیکن درانی صاحب بھی کیا کریں۔ قاف لیگ تو خود حصوں بخروں کا شکار ہوگئی ہے…؎
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
بنے گا کوئی تو تیغِ ستم کی یادگاروں میں
مسئلے تو اور بھی ہیں لیکن درمیان میں بابا جی آ گئے ہیں۔ کیوں آ گئے ہیں؟ اس کی وجہ کالم کے آخر میں عرض کی جائیگی۔بابا جی بیمار پڑ گئے۔ ٹائی فائیڈ کا علاج اس وقت تک تسلی بخش نہیں دریافت ہوا تھا۔ بیماری کی شدت سے انکی آواز تک بند ہوگئی۔ بابا جی کے تین بیٹے تھے۔ اس بیماری کے دوران تینوں بیٹوں نے باپ کی اس قدر خدمت کی کہ انکی خدمت پورے علاقے میں ضرب المثل بن گئی۔ لکڑی کی طرح پہروں بابا جی کی چارپائی کیساتھ کھڑے رہتے۔ کوئی ٹانگوں کو دبا رہا تھا تو کوئی تکیہ بنا ہوا تھا۔ انہوں نے دور دور سے دوائیں منگوائیں۔معجزہ ہوا اور بابا جی رْوبصحت ہونا شروع ہوگئے۔ آواز بحال ہوگئی۔ پہچاننا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھ جانے لگے۔ گھوڑی منگوا کر چند منٹ سواری بھی کی۔ عالم اور فاضل تھے۔ بیٹوں کے ساتھ گفتگو میں علم و حکمت کے موتی بکھیرنے لگے۔ پھر زندگی معمول پر آنے لگی۔ ایک دفعہ انہوں نے بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ویسے تو میں اب اللہ کا شکر ہے تندرست ہوں لیکن ٹانگوں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ ایک بیٹے نے بہت ہی ادب کیساتھ اور ذرا سی بذلہ سنجی کیساتھ جواب دیا کہ ’آپ نے شکار تھوڑا ہی کرنا ہے‘۔ بابا جی نے بیٹے کا یہ فقرہ سنا تو مسکرائے اور کہنے لگے کہ میں چالیس سال سے اس فقرے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ یہ فقرہ کہا جائیگا لیکن میں سوچا یہ کرتا تھاکہ تینوں میں سے کون سا بیٹا میرا قرض مجھے واپس کریگا۔ میری والدہ نے مجھے کہا تھا کہ بیٹا ٹانگوں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے تو میں نے کہا تھا امی! آپ نے کون سے ہرن شکار کرنے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے بھی ایسا ہی کہا جائے گا سو، آج جو ہونا تھا، ہوا !
جن چند اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں ملتا ہے بلکہ آخرت کے علاوہ اس دنیا میں ’بھی‘ ملتا ہے، ماں باپ کیساتھ حسنِ سلوک یا بدسلوکی اْنہی اعمال میں سے ہے۔ یوں تو کسی کو پست سمجھ کر اسکے ساتھ حقارت سے پیش آنا بھی ایسا ہی عمل ہے اور اس کا بدلہ بھی اکثر و بیشتر اسی دنیا میں ملتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ایک نہ ایک دن اسی ’پست‘ شخص کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا ہے! لیکن صدیوں کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ جس طرح دو اور دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح والدین کیساتھ جو سلوک روا رکھا جائے، وہ ضرور پیش آتا ہے! اس معا ملے میں بدبختی، بدبختی ہی کو جنم دیتی ہے اور سعادت مندی خوش قسمتی کا باعث بنتی ہے، جنہوں نے بوڑھی بیمار ماں کو نوکروں کی کوٹھڑیوں میں رکھا تھا وہ دولت مند جانوروں کے باڑے میں مرے۔ اگر کسی شقی القلب نے باپ پر ہاتھ اٹھایا تو اسے بھی اس کی اولاد نے مارا اور اسی جگہ جہاں اس نے ہاتھ اٹھایا تھا۔ یہ الگ بات کہ اب اس جگہ بازار تھا! جو باپ کے جوتے اٹھا کر مسجد کے باہر انتظار کرتے تھے کہ باپ نکلے تو اس کے پاؤں زمین پر پڑنے سے پہلے جوتے پیش کریں، انکے سامنے انکے بیٹوں نے جوتے سیدھے کئے۔ اورنگ زیب عالم گیر نے اپنے باپ کو قید میں رکھا۔ اْس کا بیٹا اْس کے مرنے کی دعائیں کرتا تھا۔ اورنگ زیب کو معلوم ہوا تو اس نے اسے خط لکھا۔ (علامہ اقبال نے پیامِ مشرق میں اس خط کو منظوم کیا ہے) اس کالم نگار نے عجیب عجیب مناظر دیکھتے ہیں ایک عالم دین کو دیکھا جو باپ کیساتھ گستاخی کے مرتکب ہو رہے تھے۔ گاؤں کے ان پڑھ اکھڑ بھائیوں کو دیکھا جو باپ کے سامنے بولنے کی ہمت نہ رکھتے تھے اور باپ کے قدموں کی آہٹ سن کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ ایک حافظ قرآن کو رمضان میں تراویح پڑھاتے دیکھا۔ جب وہ پندرہویں پارے کی اس آیت پر پہنچے کہ اْنکے سامنے اْف تک نہ کرو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور اپنے بازوؤں کو انکے سامنے عاجزی سے جھکائے رکھو اور نرمی کا معاملہ کرو، تو ان کی آواز بھّرا گئی۔ اس وقت انکے والد عین انکے پیچھے کھڑے انکی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے۔ وہ واقعہ یاد آ گیا جس میں شاعروں کو گرہ لگانے کیلئے یہ مصرع دیا گیا …؎
میں تھا نماز میں، مری کعبے کو پیٹھ تھی
شاعر حیران تھے کہ اس پر گرہ کیوں کر لگائیں۔ آخر نماز میں کعبے کی طرف پیٹھ کیسے ہو سکتی ہے؟ آخر ایک شاعر کی سمجھ میں معاملہ آ گیا اور اس نے شعر کو اس طرح مکمل کیا۔
میں تھا نماز میں، مری کعبے کو پیٹھ تھی
میں تھا امام اور مرے والد تھے مقتدی
اللہ نے اپنی آخر کتاب میں جہاں اولاد کو انسان کیلئے فتنہ قرار دیا، جہاں ایک سے زیادہ مرتبہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اپنے بچوں پر رحم کرو اور ان کا خیال رکھو‘ اس لئے کہ اولاد کے ساتھ محبت اور انکی خاطر قربانی تو ماں باپ کی فطرت میں رکھ دی گئی۔ مشکل کام تو یہ ہے کہ ماں باپ کو اولاد پر ترجیح دی جائے۔ ہم نے یہ واقعہ بھی سن رکھا ہے کہ ایک بوڑھا اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹے کی شکایت کی کہ جب وہ چھوٹا تھا تو میں اپنا مال اس پر خرچ کرتا رہا اور اب وہ میرا خیال نہیں رکھتا اور مجھ سے اپنا مال بچا کر رکھتا ہے۔ آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپکے منہ سے وہ فقرہ ادا ہوا جو قیامت تک آنیوالے مسلمانوں کیلئے قانون بن گیا۔ آپؐ نے اسکے بیٹے سے فرمایا کہ’ تم اور تمہارا مال۔ سب تمہارے باپ کی ملکیت ہیں…‘‘!جو جانتے ہیں وہ تو جانتے ہیں، جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ کڑوا تْنبا بو کر سیب کا پھل کسی نے نہیں کھایا اور راستے میں کانٹے بچھا کر پھولوں پر کسی نے پاؤں نہیں رکھے گندم بونے والے کو گندم ملے گی اور جو بولنے والے کو جو ہی کاٹنے ہیں۔ اگر ماں باپ توجہ اور التفات سے محروم ہیں تو نماز اور حج کوئی کام نہیں آئینگے۔بوڑھے والدین کی خدمت نہ کرنے سے بڑی بدبختی ابھی وجود ہی میں نہیں آئی۔ ایک بوڑھے شخص نے، جسکی اولاد اسکے بڑھاپے اور ضعف کا خیال نہیں رکھ رہی، ہمیں اپنی حالتِ زار سنائی۔ یہی ان سطور کے لکھنے کا باعث بنا۔ بھوک اور ناکامی کی دعوت دینے کا آسان ترین نسخہ یہی ہے کہ ماں باپ کو چھوڑ دیا جائے۔ اس لئے کہ سبز گنبد کے نیچے استراحت فرمانے والے نے یہ اصول بتا دیا تھا کہ ’تمہیں تمہارے ضعیفوں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور اْنہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
http://columns.izharulhaq.net/2010_01_01_archive.html
“