بابا جی
بابا جی اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔۔۔لیکن مجھے یقین ہے اُن کے فرمودات رہتی دُنیا تک یاد رہیں گے۔ بابا جی سے میری پہلی ملاقات ایک کچی بستی میں ہوئی۔ وہ دُنیا سے بے نیاز ایک طرف چھوٹی سی جھونپڑی میں رہائش پذیر تھے۔مٹی کے معمولی برتنوں میں کھانا کھاتے تھے اورپھٹا پرانا لباس پہنتے تھے۔ کم بولتے تھے لیکن جب بولتے تھے تو ایسا ایسا فکر انگیز جملہ کہتے کہ سننے والا سردھننے پر مجبور ہوجاتا ۔میں اُن کا مرید ہونا چاہتا تھا لیکن اُنہوں نے سختی سے منع کردیا۔ میں نے منت سماجت کی کہ آخر میں کس طرح آپ کے کام آسکتا ہوں۔ انہوں نے ہلکا سا تبسم فرمایا‘ پھر نہایت نرمی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے’’بیٹا! مجھے کسی سکیم میں پانچ مرلے کا پلاٹ لے دو‘‘۔بابا جی کی یہ بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں دل پر بھاری بوجھ لیے خاموشی سے اُٹھ کر فلم دیکھنے چلا گیا۔
بابا جی سراپا محبت تھے۔ مجھے ان کی صحبت میں پانچ سال گذارنے کا اتفاق ہوا‘ یہی پانچ سال میری زندگی کا حاصل ہیں۔ اِن پانچ سالوں میں مجھے زندگی کی بہت سی مشکل گتھیوں کی سمجھ آئی۔ مثلاً ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ ’’باباجی! میں نے کئی گاڑی والوں کو بھی بہت بے چین دیکھا ہے‘تھوڑی سی ٹریفک بلاک ہوجائے تو غصے میں آجاتے ہیں‘ اِدھر اُدھر سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اِیسے لوگوں کی زندگی کیسے آسان ہوسکتی ہے؟‘‘۔ بابا جی نے ایک گہری سانس لی‘ پاس پڑا ہوا پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا اور پھر ایسا جواب دیا کہ میں عش عش کر اٹھا‘ کہنے لگے’’اِن سب کو چاہیے کہ آٹو گیئر گاڑیاں خریدلیں‘‘۔
لوگوں کے کام آنا بھی بابا جی پر ختم تھا۔جو بھی سائل اُن کے پاس آیا ‘ خالی ہاتھ نہیں گیا ۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں ایک لاچار انسان بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا’’بابا جی!میری زندگی میں کوئی آسودگی نہیں میں چاہتا ہوں کہ میری بھی جھولی بھر جائے آپ ہی کچھ کیجئے‘‘۔ سبحان اللہ! یہ سنتے ہی بابا جی نے اسے تسلی دی اورفرمایا’’جھولی آگے کرو‘‘۔ سائل نے جھولی پھیلائی اور بابا جی نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر پاس پڑی ہوئی ڈسٹ بن اُس کی جھولی میں خالی کردی۔
بابا جی کی کرامات زبان زدِ عام تھیں۔ مثلاً اُن کے ہاں ایک ٹی وی تھالیکن کیبل نہیں لگی ہوئی تھی اس کے باوجود شیشہ پرنٹ آتا تھا۔ ایک دفعہ کسی نے پوچھ ہی لیا کہ بابا جی کیبل کے بغیر بھی آپ کے ٹی وی پر سارے چینل کیسے آجاتے ہیں؟ قربان جاؤں بابا جی پر۔۔۔ہمیشہ کی طرح مدھر مسکراہٹ لبوں پرآئی اور دھیرے سے فرمایا’’بیٹا! ڈِش کا رزلٹ ایسا ہی ہوتاہے‘‘۔
بابا جی کہتے تھے کہ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ میں نے فرمائش کی کہ بابا جی میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتا ہوں‘ انہوں نے مجھے دو کلولہسن چھیلنے کے لیے دے دیا۔ میں نے بے بسی سے کہا’’بابا جی میں نے بڑا کام کرنے کا کہا تھا اور آپ نے مجھے لہسن چھیلنے پر لگا دیا ہے؟‘‘ بابا جی نے بڑے پیار سے سارا لہسن میرے سامنے سے اٹھا لیا اورمیرا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے جہاں بڑا سا فریج رکھا تھا۔ مجھے فریج کے سامنے کیا اور فرمایا’’اس کا کمپریسر ٹھیک کردو۔۔۔ایڈا توں اشفاق احمد‘‘۔
میں نے کئی دفعہ بابا جی سے پوچھا کہ کیاوجہ ہے کہ بابے ہمیشہ عقل کی بات کرتے ہیں؟ جواب ملا ’’کیونکہ اُن کے پاس زندگی بھر کا تجربہ ہوتاہے ‘‘۔ میں نے بے چین ہوکر پوچھا’’تو پھر اپنے تجربے کی بنیاد پر مجھے بتائیے کہ مجھے بھوک کیوں نہیں لگتی‘ کھانا سامنے رکھا ہوتا ہے لیکن کھانے کو دل نہیں کرتا‘ میں کیا کروں؟ ‘‘بابا جی نے کچھ لمحے میری بات پر غور کیا پھراوپر دیکھا ۔ کافی دیر تک اُن کی یہی حالت رہی‘ پھر انہوں نے اطمینان سے چہرہ نیچے کیا اور پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے’’توں اپنا کھانا مینوں دے جایا کر‘‘۔
میں نے زندگی میں بابا جی جیسا درویش انسان نہیں دیکھا۔ بس میٹھا بہت شوق سے کھاتے تھے۔ عقیدت مند اُن کے لیے روزانہ کیک اور مٹھائی کے ڈبے لاتے لیکن بابا جی اُنہیں سختی سے منع کردیتے کہ کوئی ڈبہ نہ کھولا جائے۔ مجھے پتا تھا کہ بابا جی یہ سارے ڈبے بعد میں غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں تاکہ مساکین بھی اس نعمت کا لطف اٹھا سکیں ۔تاہم یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہ آسکی کہ بابا جی ڈبہ کھولنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے۔ ایک دن ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا اور جواب سن کر میرے دل میں بابا جی کا احترام اور بھی بڑھ گیا۔ فرمایا’’پُتر ڈبہ کھلا ہوا ہو تو دوکاندار واپس نہیں لیتے‘‘۔
بابا جی کودُنیاوی مال سے سخت نفرت تھی۔کہتے تھے’’ مال کو آگ بھی لگ سکتی ہے‘ دیمک بھی چاٹ سکتی ہے‘ ڈاکا بھی پڑ سکتا ہے۔۔۔ایسی چیزوں سے دور رہو اورسُکھی ہونا چاہتے ہو تو صرف پلاٹوں میں انویسٹ کرو۔میں صدقے اپنے بابا جی کے‘ اتنی گہری بات کرتے تھے کہ دودن بعد سمجھ آتی تھی اور دل احترام کے جذبات سے بھر جاتا تھا۔ ایک دن مجھے بطور خاص بلا کر لوہے کی ایک موٹی سی مڑی ہوئی تار تھمائی اور کہنے لگے’’ہماری طرف سے تحفہ سمجھ کے لے جاؤ‘‘۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ لوہے کی تار میرے کس کام کی ۔باباجی سے پوچھنا چاہا تو انہوں نے کچھ بولنے سے منع فرمایا’’پندرہ تاریخ کے بعد تمہیں اِس کی افادیت سمجھ میں آجائے گی۔‘‘ میں نے عقیدت سے لوہے کی تار رکھ تو لی لیکن سارا رستہ سوچتا آیا کہ آخر پندرہ تاریخ کے بعد یہ میرے کس کام آئے گی۔پھر میں بے چینی سے پندرہ تاریخ کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی پندرہ تاریخ آئی‘ مجھے فوراً اِس تار کی منطق سمجھ میں آگئی‘ پچیس ہزار بجلی کا بل میرے سامنے تھا۔میں نے فوری طور پرتار کا بوسہ لیا اور محلے کے الیکٹریشن کو بلوا کر بابا جی کا یہ تحفہ دکھایا۔ اُس نے تعریف کی اور انتہائی مہارت سے اس تحفے کا کنکشن میرے گھر سے جوڑ دیا۔الحمدللہ اب بے شک میں تین اے سی چلاؤں ‘ بابا جی کے تحفے کی وجہ سے میرا بل پانچ ہزار سے اوپر نہیں جاتا۔
بابا جی جانوروں سے بھی بہت پیار کرتے تھے ۔جب سلمان خان کو ہرن کیس میں پکڑا گیا تو میں نے بابا جی سے پوچھا کہ کیا سلمان خان کو سزا ہوجائے گی؟ بابا جی نے زندگی میں پہلی بار غصہ فرمایا اورگرج کر بولے’’یہ تو ہمیں نہیں پتا کہ اُسے سزا ہوگی یا نہیں‘ لیکن ہماری خواہش ہے کہ اُسے سخت سے سخت سزا ہو‘‘۔میں نے وجہ پوچھی تو ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے ہوئے فرمایا’’جو انسان جنگل میں سونالی باندرے‘ تبو اور نیلم کے ہوتے ہوئے بھی شکار کے لیے ہرن کا انتخاب کرے اُسے سرعام پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔
بابا جی کے ایک عقیدت مند ‘ میرے پیر بھائی قمر بخاری بھی بابا جی کے قہر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ بابا جی فحاشی کے خلاف انتہائی غضب میں آئے ہوئے تھے۔ فرمایا’’انتہائی بدترین دور آگیا ہے‘ لوگ عورتوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگے ہیں‘ اِن بدبختوں کا بس نہیں چلتا کہ راہ چلتی عورت کو کچا چبا جائیں۔۔۔سن لو مسلمانو! یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ ایک امریکی سائنسدان نے بتائی ہے کہ جو لوگ غیر عورتوں کو گھورگھور کر دیکھتے ہیں اُن کی یاداشت کم ہوجاتی ہے‘ کچھ دیر پہلے کی باتیں بھی بھولنے لگتی ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بابا جی کو بے اختیار کھانسی آگئی‘ فوراً پانی پیش کیا گیا۔ سانس بحال ہوئی تو عقیدت مندوں کی طرف دیکھ کر بولے’’ ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟۔۔۔‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔