پاکستان میں ناھلی سے قبل ایک نااھلی
گلگت بلتستان میں بھی؛
بابا جان کی کہانی، حقائق کی زبانی
بابا جان اس وقت گاھکوچ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رھے ہیں۔ ان کی گلگت بلتستان سپریم کورٹ میں اپنی اوربارہ دیگر کارکنوں کی عمر قید کی سزا کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن کی سماعت کی تاریخ ایک بار پھر نکلنے والی ہے،
بابا جان کوانسداد دھشت گردی کی عدالت نے انکی غیر حاضری میں عمر قید کی سزا کے بعد ھائی کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ضمانت جب منسوخ کر دی تو وہ ستمبر 2014 میں اسلام آباد میں عوامی ورکرز پارٹی کی پہلی کانگرس میں شرکت کے لئے پہنچے ہی تھے، کانگرس میں شرکت کرنے کی بجائے وہ واپس گلگت بلتستان گئے اور اپنی گرفتاری پیش کر دی۔ کانگرس کے فوری بعد انکی رھائی کے لئے اسلام آباد میں AWP کے سینکڑوں کارکنوں نے زبردست ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔
اس سزا کے خلاف گلگت بلتستان ھائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ ان کے وکلاء میں امجد حسین، صدر پیپلز پارٹی گلگت بلتستان، احسان علی، صدر سپریم کورٹ باراسوسی ایشن اورنزیر حسین شامل تھے۔
بابا جان نے جنوری 2010 میں لینڈ سلائڈنگ کے باعث ھنزا دریا کا عطا اباد کے قریب راستہ رکنے پر بننے والی نئی جھیل سے متاثرا دیہاتوں کے عوام کے لئے ایک مہم چلائی تھی اور اس سے قبل جھیل بننے پر انہوں نے حکومت کو فوری اقدامات کرنے پر زور دیا تھا۔ انہوں نے اسلام اباد، لاھور اور کراچی میں پریس کانفرنسیں کر کے عطا آباد جھیل کو ایک قومی ایشو بنا دیا تھا۔
گیارہ اگست2011 کو علی آباد میں پولیس نے فائرنگ کر کے شیر اللہ بیگ اور اسکے بیٹے شیر افضل کو عطا اباد جھیل متاثرین کو معاوضہ کے ایشو پر ایک مظاہرہ کے دوران شہید کر دیا۔ اس واقعہ کے خلاف شدید آحتجاج ہوا۔ بابا جان اس تحریک کے راھنما تھے۔ مطالبہ تھا کہ متعلقہ ڈی ایس پی بابر علی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔ چار دنوں کے مسلسل احتجاج کے بعد انتظامیہ اس پولیس آفیسر کے خلاف ایک ایف ائی آر لے کر آئی تو احتجاج ختم ہو گیا۔ یہ ایف ائی آر بعد میں جعلی نکلی۔ مگر پھر سو سے زیادہ افرادباباجان سمیت کے خلاف انسداد دھشتگردی کی دفعات سمیت مختلف مقدمات درج کر لئے گئے۔
بابا جان نے دسمبر 2011 میں کچھ دیرانڈر گراؤنڈ رہ کر گرفتاری ایک عدالت کے سامنے پیش کر دی۔ جیل میں ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔ اسی دوران انسداد دھشت گردی عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنادی- ستمبر 2012 میں انہیں ھائی کورٹ نے ضمانت پر رھا کر دیا گیا۔ ان کے لئے پہلی دفعہ دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے۔ پاکستان میں بھی زبردست مظاھرے کئے گئے۔ دو سال بعد ضمانت کی منسوخی کے بعد وہ ستمبر 2014 میں دوبارہ جیل میں ڈال دئیے گئے اور اب تک وہ جیل میں ہیں۔
بابا جان ایک محنت کش گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ عوام کی خدمت میں دن رات صرف کرتا تھا۔ اس نے اس علاقے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے مقامی دھاتوں کو نکالنے کے خلاف کامیاب مہم بھی چلائی۔ وہ گلگت بلتستان کے "چے گویرا"بھی کہلائے جاتے ہیں۔
جب 15 جون 2015 کو گلگت بلتستان کی اسمبلی کے عام انتخابات ہوئے تو بابا جان عوامی ورکرزپارٹی کے امیدوار کے طور پر جیل سے انتخاب لڑ رھے تھے۔ اس سیٹ پرمسلم لیگ ن کے میرغظنفر علی 8062 ووٹ لے کر کامیاب ھو گئے جبکہ بابا جان نے 4597 ووٹ سے دوسری پوزیشن لے کر سب کو حیران کر دیا۔ ان کی حمائیت میں جو ریلیاں نکلیں ان میں ھزاروں نوجوانوں نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی تیسرے اور تحریک انصاف چوتھے نمبر پر رھیں۔ بابا جان کے کاغزات نامزدگی اس لئے مان لئے گئے کہ وہ ایک انڈر ٹرایل قیدی تھا۔
دریں اثنا بابا جان کی عمر قید والے مقدمہ میں گلگت بلتستان ھائی کورٹ نے سزا ختم کر دی اور اس مقدمہ میں انہیں باعزت بری کرنے کا حکم جاری کیا۔ لیکن دوسرے مقدمات میں انہیں ابھی قانونی جدوجہد کرنی تھی اس لئے وہ رھا نہ ہو سکے۔
پھر یہ ہوا کہ جیتنے والے میر غضنفر جو والئی ھنزا بھی تھا کو 20 نومبر 2015 کو انتخابات کے پانچ ماہ بعد گلگت بلتستان کا گورنر بنا دیا گیا اور یہ سیٹ خالی ہوگئی اور جنوری 2016 میں آس سیٹ پر ضمنی انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ بابا جان نے دوبارہ جیل سے انتخاب کڑنے کا اعلان کر دیا، انکے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کیا گیا جسے ابتدائی طور پر منظور کر لیا گیا مگر اپیل پر ان کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے گئے۔ اس تاریخ کو انتخاب زیادہ سردی اور برف باری کے بہانے ملتوی کیا گیا۔ اصل وجہ بابا جان کی اس دوران غیر معمولی مقبولیت تھی۔
دوبارہ ان انتخابات کو 25 مئی 2106 کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔ بابا جان اس وقت ایک ایسا ورکنگ کلاس ھیرو بن کر ابھرا کہ اس کی حمائیت میں تاریخ کے سب سے بڑے جلوس نکلے۔ بچہ بچہ کہ رھا تھا "تیری جان میری جان بابا جان بابا جان" انتخاب سےتین روز قبل اس انتخاب کو ملتوی کر دیا گیا۔
اب حکمرانوں کے لئے انتخاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ بابا جان کو انتخاب لڑنے کے لئے نااھل قرار دیا جائے۔ چنانچہ ھائی کورٹ کی جانب سے بابا جان کو بری کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ جلدی جلدی اس کو سنا گیا اور بابا جان اور 12 دیگر کو عمر قید کی سزا بحال کر دی گئی۔
پھر پانچ ستمبر 2016 انتخاب کرایا گیا اور گورنر میر غضنفر نے اپنے بیٹے سلیم غضنفر کو اس سیٹ سے جتوا لیا جسمیں بابا جان انتخاب میں حصہ نہ لے سکے تھے۔ وہ صرف 4679 ووٹ لے کر کامیاب ھوئے۔ جو اس سے قبل بابا جان کو ملنےوالے ووٹوں سے سو سے کم ہی زیادہ تھے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے کسی کال کے بغیر اس ڈھونگ کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ میر غظنفر کی بیوی بھی پارلیمنٹ کی ممبر ہے۔ بیٹا بھی اور خود گورنر۔
اس سے قبل سولہ اگست 2016 کو عاصمہ جہانگیر نے گلگت بلتستان کے تین روزہ دورے کے دوران یہاں کے انصاف سسٹم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور انہوں نے بابا جان سے جیل میں ملاقات بھی کی۔
مئی 2017 کو بابا جان کی رھائی کے لئے ایک عالمی
پٹیشن کا آغاز کیاگیا اس پر کئی ممالک کےپارلیمنٹیرینز اور عالمی شہرت یافتہ ریڈیکل شخصیات نے دستخط کر کے بابا جان کی رھائی کا مطالبہ کیا۔ بابا جان بلا شک وشبہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ عالمی شہرت پانے والا سیاسی قیدی بن گیا۔
پچیس مئی 2017 کو بابا جان کی سزا کے خلاف ریویو پٹیشن کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اسے کچھ دلائل کے بعد ملتوی کیا گیا۔
سولہ اگست 2017 کو دوبارہ اس اپیل کی سماعت ہوئی جسے کچھ دلائل سننے کے بعد مزید سماعت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔
ھمارا مطالبہ ہے کہ عطا اباد جھیل کے واقعہ پر احتجاج کے دوران دو باپ بیٹے کے پولیس ھاتھوں قتل کے بعد بننے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ پبلک کی جائے۔ اس پولیس افیسر کو گرفتار کیا جائے جس نے دو افراد کو سر عام قتل کیا۔ بابا جان اور انکے تمام ساتھیوں کے خلاف مقدمات میں مسلم لیگی حکومت عدالتوں میں پیروی کرنے کی بجائے انکی بے گناھی ڈیکلئر کرے-
یہ کب ھوا گلگت کی پوری تاریخ میں کہ آپ مظاھرہ کریں اور عدالت اپ کو عمر قید کی سزا سنا دے۔ بابا جان کوانتخاب میں تو ھرا نہیں سکتے تھے لہزا انہیں سزا سنا کر نااھل قرار دے دیا گیا۔
مقبول لوگوں کو عدالتوں کے زریعے ناھل قرار دینے کی جو رسم اب پاکستان میں شروع ہوئی ہے اس کا آغاز اسی پارٹی کے دور میں ان کی گلگت بلتستان میں حکومت نےعدالتوں کے زریعے کیا۔
ہم نے اس وقت بھی اس قسم کے طریقہ کار کی مخالفت کی تھی اور اب بھی مسلم لیگ کے راھنما میاں نواز شریف کی عدالتوں کے زریعے نااھلی کی مخالفت کی ہے۔ ہم مسلم لیگ کو طعنے دینے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ائیےاس قسم کے سیاسی حربوں کی مخالفت کریں انتخابات ہی وہ واحد طریقہ کار ہے جس کے زریعے کسی حلقے کی نمائندگی کی جا سکتی ہے۔
اوچھےہتھکنڈوں سے انتخابات جیتنے کے طریقہ کار ترک کئے جائیں۔ گلگت بلتستان میں مسلم لیگی حکومت ہے وہ بابا جان اور انکے ساتھیوں کے خلاف جاری دیگر مقدمات کو واپس لے کر اپنی سیای غلطیوں کا کسی حد تک مداوا کر سکتی ہے۔
Written by Farooq Tariq
Spokesperson
Awami Workers Party
03008411945
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“