آج غلطی سے میری چار سالہ بیٹی ( اذما صابر قاسمی) نے whatsup voice msg میرے بجائے میرے ایک مخلص قریبی رہنما دوست ( اطہر درانی صاحب کو کیا ۔۔۔ بابا مجھے Baloons غبارے دلا دو۔
اذما قاسمی کی اس فرمائش کو اس دنیا کی ہر پیاری بیٹی کے نام کرتا ہوں۔۔
کہ میری بیٹی کی غلطی نے اس باپ کو کس طرح سچ کا راستہ دکھایا ۔ اللہ پاک مجھے اس قابل بنایے کہ مرتے دم تک میں اپنی بیٹی کے لیے اسکی "دنیا" بنا رہوں اور اسکے معصوم ذہن نے مجھے" میرا ہیرو"کے خطاب نوازا ہے اور اسکے کچھ الفاظ جن کا بوجھ ایک باپ کی کمر سے بہت زیادہ بھاری ہے۔۔۔ جیسے میں نے کہا آؤ بیٹا آج میں تمھیں فرشتوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔ کہنے لگی بابا میں نے فرشتے دیکھے ہیں میں نے حیرت سے پوچھا تو بتاؤ دکھتے کیسے ہیں۔ ۔۔؟ جھٹ سے میرے گالوں کو اپنے معصوم ہاتوں سے پیار کرتے بولی آپ ہو نہ فرشتہ بلکل ایسے ہی دکھتے ہیں۔ ایک دن شرارت کر رہی تھی اور مجھے اندیشہ ہوا گر کر چوٹ نہ کھا لے۔۔ کہنے لگی بابا میری فکر نہ کیا کریں میں تو کبھی زندگی میں آپ کو بھی گرنے نہیں دوں گی۔۔۔
چار سال کی بچی چالیس سال کے باپ کو بہت کچھ سکھا گئی روزانہ میرا تدریسی عمل آگے کی طرف جاری ہے معاشیات کے ڈگری میرے کام نہ آئی جب میں نے اس بچی کا توکل دیکھا اور بارہا آزمایا بھی ۔ غریبوں کی امداد کے نت نئے طریقے سکھائے اور ضرورت مندوں کو حقیر نہ سمجھوں تو اس نے انہیں "اللہ بابا " کے نام سے پکارنا سکھایا۔ اور اس طرح اس نے اپنے بابا کی ذات کو اللہ بابا سے اللہ تبارک و تعالیٰ تک کب کیسے جوڑا میں شاید اس کرامات کو سمجھنے سے قاصر ہوں ۔
میری بیٹی نے مجھے اللہ سے وفاداری اللہ سے سب کچھ ہونے کا درس اور ایک اللہ پر بھروسہ و یقیں کی وہ تعلیم اور تربیت دی ہے کہ آج تک اسکول یونیورسٹی یا دعوت تبلیغ جیسی تحریک مجھ میں یہ یقیں پیدا نہ کر سکی ۔
آج بر ملا یہ اقرار کرنے کو دل چاہتا ہے کہ میرے رب العالمین نے بیٹی کی پیدائش پر اسکے والد کے لیے پیغام دیا کہ بیٹی جا آج سے میں تیرے باپ کے ساتھ ہوں ۔ میں نے رب کاساتھ بیٹی کی صورت میں میرے گھر میں میرے ہاتھ کی کمائی سے روکھی سوکھی پہ گزارہ کرتے اور شکر ادا کرتے دیکھا اور جب کوئی نئی خواہش جاگی یا ضرورت سامنے آئی تو نماز اور درود کے ساتھ رب کو اپنا رازدار اور مالک بنانے کا وظیفہ ( فارمولہ) استعمال کرنا اور رب کو منوانا سکھایا ۔ ہونٹوں پہ مسکان اور باپ کو زندگی جینے کا ایک خوبصورت پاکیزہ راستہ دکھایا جو دراصل زندگی نہیں حیاتی سنوارنے کا عظیم تحفہ ہے۔ اور زندگی نے ایک دن بہت جلد فنا ہونا ہے پر حیاتی کبھی نہ ختم ہونے کا نام ہے یوں کہ لیں رب العزت کی ایک صفت حیاتی ہے۔ اللہ نے سب کو پیدا کیا ہے آسمان درخت آم اور آئسکریم ٹافیاں اونٹ بکرے گاڑی گھر پیسے چیزیں کیک اور غبارے بھی ۔ پہلے میں ان باتوں پر ہنستا تھا مگر جب عقل نے کام کرنا شروع کیا تو سمجھ آئی دنیا میں صرف دریافت ہوتی ہے ایجاد تو صرف خالق کائنات کرتا ہے۔ کائنات کے کسی بھی چیز پر غور کریں تو وہ ایک سے زائد اجزاء کا مرکب ہے ہم انسان و جن اجزاء کو غیر دانستہ ملاپ کے ذریعے وجود میں آنے والی بظاہر اک نہی مادہ چیز کو Creation تخلیق یا ایجاد کا نام دے بیٹھے ہیں ۔ یہ ہماری اخلاقی پستی کی طرف واضع اشارہ ہے۔ خیر اس بابت سیر حاصل گفتگو درکار ہے بصورت دیگر کئی فتوے یا تنگ نظری جیسے الفاظ میرے نام کے ساتھ ایسے جڑ جاہیں گے گویا تمغہ امتیاز صدر محترم نے نوازا ہو ۔ اگر آپ دوستوں کو اللہ تعالیٰ فرصت کے حسین لمحات نوازے تو اس بارے میں غور ضرور کیجیے ویسے آج کل کے مجموعی حالات ناصرف ملکی بلکہ بالعموم دنیا بھر میں جو درپیش ہیں کبھی بھی کوئی بھی شخص اچانک سے فراغت کے لمحات سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اب یہ لمحات کتنے دیرپا ثابت ہو سکتے ہیں یہ تو ان کارناموں پر منحصر ہے جو آپ ذاتی طور پر پرانے پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں چھوڑ آئیں ہیں۔ چند اشخاص اپنی زندگی کے یہ بہترین اور نایاب لمحات چاہیے اڈیالہ میں گزار رہیں ہوں یا کسی ایسی اور پرفضا مقام پر وہ چاہئیں تو تسخیر کائنات کر سکتے ہیں انکے پاس بظاہر بہت وقت ہاتھ لگا ہے جیسے تبدیلی سے پہلے بہت کچھ انکے ہاتھ لگا تھا۔
میں اپنے پیارے ملک پاکستان کا واحد غیر سیاسی شخص ہوں اور مجھے سیاسیات کا علم نہیں ہاں ڈگری ضرور لی ہے وہ بھی اصلی ہے اور بلوچستان سے ۔ بس قومی تقاضہ ہے بات کوئی بھی ہو کتنی ہی اہم یا مذہبی مسئلے پر کیوں نہ ہو پر بات میں سیاست ہونی چاہیے ورنہ تحریر نہ تو کوئی پڑھے گا اور نہ ہی پیغام کو کوئی آگے فارورڈ کرے گا۔
اب آپ خود ہی انصاف سے کام لیجیے
( مہربانی فرما کر مولانا صاحب والی نقطہ چین نظر سے جملہ پر غور نہ کیجیے ورنہ مغالطے میں آپ لفظ انصاف کو تحریک بنا کر مجھ پر خان کے حامی کا لیبل لگا بیٹھے گے۔ امید ہر درگزر کر دیا جاؤں گا کہ پچھلی سطر میں بہت دوراندیشی اور کہنہ مشک ہونے کا ثبوت دیا ہیکہ مولانہ کے نام کے ساتھ چین کا نام بھی جوڑ دیا اور چین تو اس وقت سب سے بڑی ڈھال ہے اور اس سے متعلق حدیث بھی منسوب ہے کہ آخری وقت میں چین کام آئے گا۔ ) دوستو عقل مند انسان کی پہچان اتنی ہے کہ اگر اس سے غلطی سرزد ہو بھی جائے تو حکمت سے کام لے جیسے میں کر رہا ہوں اب کم از کم کسی لیبل فتوے سے پہلے ایک بار صفائی کا موقع ضرور ملے گا۔
بات میری بیٹی کی ہو رہی تھی اور ان غباروں کی جو مجھے ہر صورت واپسی پر گھر لے جانے ہیں اور میں نے غیر سیاسی بچے کی فرمائش پر اتنی ساری سیاسی چپاتیاں لگا دیں اور نجانے کس کس غبارے کی ہوا کا اخراج اپنے سر لے بیھٹا۔
کہاں معصوم آزما قاسمی کی پیاری باتیں چھوڑ کر میں نے آپ کا وقت ملکی صورتحال پر صرف کیا اب سونے کا آج کا بہاؤ٫ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں٫ پیٹرول اور ڈیزل کے نرخ ۔( آپ کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی ہے کہ آپ الفاظ و ادائیگی بلکل صحیح کر رہے ہیں پر لفظ کو بلا وجہ جوڑنے کی کوشش کر رہےہیں) ملک کو درپیش توانائی کابحران جیسے مودی کو دماغی بحران کا سامنا ہے جیسے مسائل لے بیٹھا ۔
کہاں بچی کی فرمائش اور کہاں تبدیلی٫ کی آزمائش۔ ویسے ردیف قافیے کی ہم آہنگی کی طرح اس فرمائش اور آزمائش کا گہرہ تعلق ہے میں بھی ذاتی طور پر متاثرین تبدیلی میں سے ایک ہوں حالات پر قابو نہ رکھ سکے تو سوچا الفاظوں سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔ سیانے بول گئے تھے جب کچھ کام نہ آئے تو ہنر کام آتا ہے حضرتِ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول ہنر کی عزت میں اضافے کا یقیناً باعث ہے ۔
یوں تو ہنر کی اہمیت کا زمانہ اسکول سے قائل تھے پر طبیعتا کاہل قسم کا Capricorn واقع ہوا ہوں لے دے کہ ایک ہی ہنر خود میں پایا جسکا برملا اعتراف کلاس ششم بی میں کر چکا تھا آپ کی نذر کرتا ہوں
تمام ہنر بھول چکا ہوں صابر
بس اک شاعری کمال باقی رہا
پر یہ کمال میرا ذاتی تھا اور صرف خاندانی سیاست کی نذر ہوا اس وجہ سے میرا کمال ٹریفک جام نہ کر سکا۔ بلوچستان آج کمالات کی سرزمیں بنکر ابھری ہے گو کے اسکے پیچھے بھی خاندانی سیاست عمل پیرا ہے۔ پوری دنیا کی نظر بلوچستان پر ہے اور ملکی سلامتی کے وسیع تر مفادات کو باکمال طریقے سے کمال کرنے والوں نے سیاسی تو سیاسی فطری عمل میں بھی کمال کی مداخلت کر کے سائنسدانوں, علماء سمیت سرداروں اور قبیلوں کو کمال عبرت میں ڈال دیا کہ نظام جام کر کے گنتی کے دنوں میں کنواروں کو بھی ملک کے سب سے بڑے بچے کا "باپ" بنا ڈالا۔۔۔
لفظ باپ جو فخر اور انجانی خوشی کا باعث ہوا کرتا تھا خان کی تبدیلی کے بعد کم از کم میرے لیے تو قارون کے عظیم خزانے کی ماند ہے جو میرے کندھوں پر لدا ہے اور میں آہستہ آہستہ اس بوجھ کو کندھوں پہ لادے انجانے منزل کا راہی بنا بیٹھا ہوں ویسے یہ مثال زرداروں اور شریف لوگوں پہ اپلائی ہوتی ہے۔ باپ پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ازل سے یہی دستور بھی ہے اور دین اسلام بھی اسی کا درس دیتا ہے ۔۔۔
اتنی دیر اگر میں دماغ کو پریڈ پہ لگاتا تو گھر بیٹھے غباروں کا انتظام ممکن تھا۔ خیر مجھے خالی ہاتھ گھر نہیں جانا ورنہ اپنی پیاری بیٹی کو منہ دکھانے لایق نہ رہونگا ۔۔۔۔۔ بس میرے پیارے ساتھیوں آپ بھی غبارے جمع کریں اور وقت نکال کر ان میں یقین کے ساتھ خلوص کی ہوا بھریں اور ہر رنگ کے ہر سایز کے غبارے بھر بھر کر غیبی پیٹی ( صندوق ) میں بھرتے جائیں یقین جانیں یہی تابوت سکینہ ہے جسے یہود قیامت سے پہلے تلاش کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے رب نے اسے ہمارے ہاتھوں میں تھما کر بھیجا ہے ۔
وہ وقت انتہائی قریب ہے جب آپکی اذما غباروں کی فرمائش کرے گی اور ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی کاہلی کی بدولت کوئی ہنر بھی نہ سیکھ پاہے اور ہر طرف تبدیلی کی ایسی ہوا چلی کہ آپ سب کچھ کر کے بھی خالی ہاتھ ہوں اور اپنی بیٹی کی فرمائش اور تبدیلی کی آزمائش میں چکرا کر وہ بازی بھی ہار جائیں جسکی خاطر اس حقیر اور مختصر سی دنیا میں عظیم الشان رب نے عظیم الشان امت میں عظیم الشان کام دے کر اپنا عظیم ناہب مقرر کیا اور دنیا ودین کا علم ہم پر کھول دیا گیا اور رہی بات ہنر کی تو اصل ہنر میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیں وراثت میں سونپ دیا گیا ہے۔ میرے آقا نے دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا اس ہنر سے جو اس امت کی شان پہچان بھی ہے اور سلامتی پاکستان کی ضامن ہے میرے آقا رحمتہ اللعالمین کا عظیم معجزہ "حسن اخلاق" بس دلوں کو جیتنا ہے قوموں کو فتح کرنا ہے حتیٰ کہ مکاں لامکان ہر میدان ہر جنگ ہر مرض کی واحد دوا یہی ہے اگر دوا کام نہ آئے تو مقدار بڑھائیں اور اگر پھر بھی کام نہ آئے تو سمجھ لیں آپ نے اور بھی غبارے پھلانے ہیں آپ معالج بننے کی ایکٹنگ کر رہے ہیں حالانکہ مرض آپ کی ذات میں باقی ہے ۔
نوٹ: اس دوا کو ہر امیتی کی پہنچ میں رکھا گیا ہے۔
۔ ۔۔
#دعا کریں میں اپنی بیٹی کا ہمیشہ ہیرو رہوں کیوں کہ بیٹی رب کی پرچھائی ہے۔ اور میں رب کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔