اپنی شاندار کارکردگی اور ناقابل فراموش عوامی خدمات کے باعث بابائے کراچی کا خطاب پانے والے جمشید نسروانجی کی تمام تر زندگی بلا رنگ و نسل اور مذہب انسانیت کی خدمت کرتے گزری ہے ۔ ان کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے پہلے میئر کا اعزاز حاصل رہا ہے جبکہ میئر بننے سے قبل وہ 1922 سے 1932 تک 10 سال متواتر کراچی میونسپلٹی کے صدر رہ چکے تھے نومبر 1933 کو کراچی کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دے دیا گیا جس کے وہ پہلے میئر منتخب ہو گئے ۔ جمشید نسروانجی صاحب پارسی مذہب کے تھے لیکن انہوں نے زندگی بھر بغیر کسی مذہبی سوچ کے انسانیت کی خدمت کی ۔ وہ رستم جی مہتا کے فرزند تھے جو کہ 7 جنوری 1886 میں پیدا ہوئے ۔ وہ سندھ لجلسلیٹو اسمبلی کے بھی رکن منتخب ہوئے تھے۔ جمشید نسروانجی صاحب ماہر مالیات کے علاوہ ٹیکس، کرنسی، ریلوے بورڈ، پورٹ ٹرسٹ، کو آپریٹو سوسائٹی اور زرعی امور کے بھی ماہر تھے ۔ جمشید نسروانجی جب 1922 میں پہلی بار بلدیہ کراچی کے صدر منتخب ہوئے تو اس وقت کراچی ایک پسماندہ شہر تھا ۔ کسی بھی قسم کی سہولت نہیں تھی ۔ شہر میں صرف 2 عوامی پارک تھے ایک برنس گارڈن اور دوسرا گورنمنٹ گارڈن ۔نہ کوئی فٹ پاتھ تھا نہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی تھی نہ کوئی میٹرنٹی ہوم تھا نہ کوئی لائبریری تھی نہ کوئی بہتر تعلیم ادارہ تھا نہ کوئی بہتر سڑک تھی ۔ لیاری میں کوئی ایک اسکول بھی نہیں تھا ۔
جمشید نسروانجی نے کراچی کی سربراہی سنبھالتے ہی شہر کی ترقی اور شہریوں کی خدمت کےلئے عملی اقدامات شروع کر دیئے ۔ بہترین تارکول کی حامل لمبی سڑکیں بنوا دیں، لائبریریاں قائم کر دیں، 10 عوامی پارک بنوا دیے، فٹ پاتھ قائم کر دیا ۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے واٹر سپلائی کی منصوبہ قائم کر دیا بچوں کے لئے الگ سے ایک پارک اور بڑوں کے لیئے ورزش کے لیے بھی ایک پارک تعمیر کیا ۔ کراچی میں آباد مسلمان صرف مزدور طبقہ تھے تعلیم سے محروم تھے ان کے بچوں کے لیے لیاری میں 10 اسکول قائم کئے اور مفت میں تعلیم فراہم کی ۔ انہوں نے شہر کے تمام علاقوں میں خواتین کے لئے میٹرنٹی ہوم قائم کر دیئے ۔ ماما پارسی اسکول، این جے وی، میٹرو پول ہوٹل،سوبھراج ہسپتال، میونسپل میوزیم، میونسپل کارپوریشن بلڈنگ ،کم آمدن والے ملازمین کے لیے مکانات تعمیر کیئے جن کو بعد میں ان کی یادگار کے طور پر جمشید کوارٹرز کا نام دیا گیا ۔ صفائی ستھرائی کا بہترین نظام قائم کیا ۔ جمشید نسروانجی صاحب کے بہترین انتظامات کے باعث کراچی کو نہ صرف ہندوستان بلکہ مشرق کا سب سے خوب صورت شہر قرار دے دیا گیا تھا ۔ جمشید کی کوشش سے ہی برٹس گورنمنٹ نے دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام سکھر بیراج تعمیر کیا ۔ وہ دن رات محنت میں مصروف رہتے بہت کم آرام کرتے تھے لکڑی کی چوکی پر بغیر گدے کے سوتے تھے تاکہ غریبوں کا احساس قائم رہے ۔
جمشید نسروانجی کو علم و ادب سے بہت دلچسپی تھی وہ اخبارات اور رسائل میں کالم بھی لکھتے تھے اور کراچی کے شہری نظام کے متعلق " کراچی میونسپلٹی " کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ۔ مطالعے کے بھی شوقین تھے ۔ اس سب کے باوجود جمشید نسروانجی شادی نہیں کر سکے اور تنہا زندگی گزار دی ۔ ان کے شادی نہ ہونے کی کہانی بھی عجیب ہے ۔ وہ ایسی لڑکیوں سے شادی کرنا چاہتے تھے جن کی غربت اور مناسب شکل و صورت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ان سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے لیکن جب جمشید ایسی لڑکیوں کے والدین کو رشتے کے لیے پیغام بھیجتے تھے تو ان کے والدین یہ کہہ کر رشتے سے انکار کرتے تھے کہ جمشید صاحب بھگوان کے اوتار ہیں اور وہ اونچے مقام و مرتبے کے مالک ہیں ۔ ایک بار ایک خاتون اپنی حاملہ بیٹی کا حمل ساقط کرانے کے لیے جمشید کے پاس آئی کہ وہ ان کی مدد کرے ۔ حمل ساقط کرانے کی وجہ ان کے پیٹ میں ناجائز بچہ تھا جمشید نے لڑکی کی ماں کو پیش کش کی کہ وہ بچے کو ضائع نہ کرائے میں اس لڑکی کو اپنی بیوی بنانے اور اس بچے کا باپ بننے کے لیئے بھی تیار ہوں لیکن بات وہی ہوئی کہ خاتون نے کہا کہ آپ بھگوان کے اوتار ہیں آپ سے ہم کیسے رشتہ کر سکتے ہیں ۔ جمشید نسروانجی صاحب سے کسی قریبی دوست نے سوال کیا کہ کیا آپ کو کبھی کسی لڑکی سے محبت نہیں ہوئی کہ جس سے آپ شادی کرتے جمشید نے کہا کہ بالکل ایک لڑکی سے جوانی میں محبت ہوئی مگر میں نے شرم اور حیا کی وجہ سے ان کے والدین کو رشتے کے لیے پیغام نہیں بھیجا ۔ جس کی وجہ سے ہماری شادی نہیں ہو سکی ۔ لڑکی کی شادی کے بعد ان کے والدین کے گھر جانے کا اتفاق ہوا اور وہ لڑکی بھی اس وقت اپنے والدین کے گھر میں موجود تھی ۔ لڑکی کی ماں نے جمشید نسروانجی صاحب سے کہا کہ میں آپ کو اپنا بیٹا سمجھتی ہوں آپ کو اگر کوئی لڑکی پسند ہے تو بتائیں میں آپ کی طرف سے اس کے والدین کے پاس رشتے کا پیغام لے کر جائوں ۔ جمشید نے کہا کہ مجھے صرف آپ کی بیٹی سے محبت ہوئی تھی اور اب بھی ہے بلکہ زندگی بھر رہے گی مگر میں نے شرم کی وجہ سے آپ لوگوں سے رشتے کی بات نہیں کی تھی یہ بات سنتے ہی وہ لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔ جمشید ماں سے لڑکی کے رونے کی وجہ پوچھا تو خاتون نے بتایا کہ ہماری بیٹی کو بھی آپ سے بیحد محبت تھی مگر ہم نے آپ سے رشتے کی بات اس لیئے نہیں کی تھی کہ آپ اونچے مقام و مرتبے کے مالک اور بھگوان کے اوتار ہیں ۔ جمشید نسروانجی صاحب کا 8 اگست 1952 میں انتقال ہوا ۔ ان کی موت کا دکھ کراچی شہر کے تمام شہریوں کو ہوا ان کی میت کا آخری دیدار کرنے کے لئے پورا شہر امڈ آیا تھا جن میں مرد و خواتین سبھی شامل تھے ۔ عوام سے ان کی محبت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ برٹش گورنمنٹ نے ان کو ان کی شاندار کارکردگی کی بنیاد پر نائٹ ہڈ کا خطاب دینا چاہا لیکن جمشید نے یہ خطاب لینے سے اس لیئے انکار کر دیا کہ اس خطاب کی وجہ سے عوام الناس مجھ سے خود کو دور اور الگ محسوس کریں گے جبکہ میں عوام کا غلام ہوں اور اس لیئے میں یہ خطاب قبول نہیں کر سکتا ۔