باب العلم کا فقیر
میں اکثر دوستوں کے ساتھ اور تقریبات میں اظہارِخیال کرتے ہوئے اپنا ہی ایک جملہ باربار دہراتا ہوں کہ تمہیں خوشیاں تخلیق کرنی چاہئیں۔ خوشیاں تلاش کرنے سے خوشی تخلیق کرنا زیادہ ممکن اور زیادہ اطمینان بخش احساس ہے۔ اور خوشی بڑی چھوٹی نہیں ہوتی، یہ بھی زندگی کے فلسفے کا اظہار ہوتی ہے۔ کچھ لوگ بڑی بڑی مادی خوشیاں تلاش کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں اور کچھ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیاں تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ذاتی خوشیاں تلاش کرتے ہیں، کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو اجتماعی خوشی تخلیق کرنے کی جستجو میں ہوتے ہیں۔ اُن کی خوشی دوسروں کو خوش دیکھ کر یا خوش کرکے کشید ہوتی ہے۔ میرے نزدیک دوسرے کو خوش کرکے اس کی خوشی میں اپنی خوشی پانا سب سے بڑی خوشی ہے۔ صوفیائے کرام کے ہاں سب سے بڑا عمل لنگر کا تھا، جہاں وہ ہر کسی کے لیے بلاتفریق ذات و مذہب کھانے کا اہتمام کرتے، ذات پات اُن کے ہاں کھانے کے دسترخوان پر ازخود ٹوٹ جاتی۔ لنگر میں جب سب ذات پات کے لوگ ایک جگہ بیٹھ کر کھانا تناول کرتے اور بھوکوں کے چہرے جب پیٹ بھرنے کے عمل سے گزرتے تو صوفی کے لیے یہ بہت بڑی خوشی ہوتی۔ خدا کا دوست، درویش یہ خوشی تخلیق کرکے کس قدر خوش ہوتا ہوگا، اس کا اندازہ کوئی ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جو دوسروں کے لیے خوشیاں تلاش کرے۔ ایک ظالم وجابر شخص دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوشی محسوس کرتا ہے، اسی طرح خدا کا دوست، خلق خدا کے لیے خوشی تخلیق کرکے خوشی محسوس کرتا ہے۔ پاکستانی سماج انہی لوگوں سے زندہ ہے جو دوسروں کے لیے خوشیاں تخلیق کررہے ہیں۔ غربت اور استحصال تلے دبے اس سماج میں کئی لوگ ہیں جو اپنے اپنے تئیں اپنے اپنے شعبے میں دوسروں کے لیے خوشیاں برپا کرنے میں کوشاں ہیں۔ اُن میں پاکستان کے لاتعدادسماجی کاموں میں مصروف، خوشیوں کے تخلیق کار ہیں۔ میرے نزدیک انقلاب ذرّے سے ، ریزے سے جنم لیتا ہے،جو ذرّے جتنے عمل پر یقین نہیں رکھتا، وہ عظیم انقلاب برپا نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں سماجی جدوجہد کے لاتعداد معروف نام ہیں لیکن اس کے ساتھ ہر خطے، علاقے، شہر، گائوں اور محلوں میں بھی خلق خدا کے خدمت گار سرگرمِ عمل ہیں جن کا نام یوں نہیں لیا جاتا جیسے معروف ترین سماجی کارکنوں کا، اور ایسے لوگ ہرجگہ موجود ہیں۔ انہی میں خلق خدا کاایک خدمت گار زاہد کاظمی ہے۔ خدا کا یہ بندہ میرے لیے ایک وقت تک میری سمجھ سے بالاتر تھا کہ یہ ہر وقت کتابوں کی تلاش میں در در حاضر ہوتا ، اور اس طرح اس درویش صفت، اپنی ذات کی نفی کرنے والے نے ہری پور اور اس کے ایک گائوں میں لوگوں کے در پر بھیک مانگ کر تیس ہزار سے زائد کتابوں کا ذخیرہ اکٹھا کرلیا۔ باب العلم لائبریری، پاکستان میں چھوٹے انقلاب برپا کرنے کی ایک داستان ہے۔ میرے لیے زاہدکاظمی اس لیے ایک سوال تھا کہ اس کے معمولاتِ زندگی عام لوگوں سے مختلف لگے، اسی لیے ایسا شخص مشکوک بھی لگتا ہے۔ زاہد کاظمی دن اور رات خلقِ خدا کے لیے علم کا باب بنانے میں سرگرداں ہیں۔ جب میں نے اس کے اندر جھانکا اور اسے پوری طرح جانا تو خدا کے اس پُراسرار بندے کو مکمل طور پر جاننے کا موقع مل گیا۔ ہری پور کے ایک گائوں بریلہ میں نویں جماعت سے یہ سماج میں خوشیاں تخلیق کرنے کے عمل سے منسلک ہوگیا۔ پہلا شخص جس نے اسے متاثر کیا، وہ عمر اصغر خان مرحوم اور اُن کی سماجی تنظیم سنگی تھی۔ ’’سنگی‘‘ پاکستان میں سماجی کاموں میں اسی علاقے میں اپنی خدمت کے حوالے سے معروف ہوئی۔ زاہد کاظمی کے اندر کا درویش، مخلوقِ خدا کی خدمت سے نکھرتا گیا۔ ادبی حلقوں اور ادیبوں کے ہاں اکثر پایا جانے لگا۔ در در کتابوں کی بھیک مانگتا، انتظار حسین، اشفاق احمد، آغا ناصر، پروفیسر فتح محمد ملک، حارث خلیق، وجاہت مسعود، انور وقار عظیم اور جبار مرزا جیسے علم کے دولت کدوں پرحاضری دیتے، زاہد کاظمی نے ہری پور شہر اور اس کے قریب ایک پسماندہ گائوں میں لاجواب کتابوں کا ذخیرہ اکٹھا کرکے یہ ثابت کردیا کہ سب کچھ ممکن ہے، اور انقلاب ذرّے سے جنم لیتا ہے۔ بڑے بول، بڑے دعوے، بڑے خطابات، بڑے لیکچرز، دھواں دھار تقاریر اور تلقین کرنے والے انقلاب کا چورن بیچتے ہیں۔ انقلاب وہ ہے جو اپنے گھر میں برپا کیا جائے۔ باب العلم لائبریری ذرّے سے آفتاب بنانے، انقلاب برپا کرنے کا نام ہے۔ علاقے بھر کے لوگ باب العلم لائبریری کی کتابوں کو مفت حاصل کرتے ہیں۔ بوڑھے، جوان اور بچے، سبھی اس عمل میں مستفید ہورہے ہیں۔
زاہد کاظمی کتابوں کا فقیر تو تھا ہی، گزشتہ برس جب اس نے مجھے فون پر بڑی انکساری اور عاجزی سے ایک نئی خوشی تخلیق کرنے کا بتایا تو میں چونک گیا۔ آہ، کاظمی راز پا گیا ہے کہ قومیں اور سماج صرف تعلیم سے بدلتے ہیں۔ کاظمی نے کہا، فرخ صاحب میں نے اپنے گائوں بریلہ ضلع ہری پور خیبر پختونخوا میں گلیوں میں رُلنے والے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دینے کا آغاز کردیا ہے۔
زاہد کاظمی نے ’’باب العلم‘‘ کے نام سے گلیوں میں رُلنے والے بچوں اور بچیوں کے لیے اس خوشی کی تخلیق، چھوٹی خوشی تخلیق کرنے کے فلسفے سے شروع کی ہے۔ زاہد کاظمی نے اپنی آبائی زمین پر سکول بنانے کا منصوبہ بنایا۔ ایک روز وہ اٹھا اور ان فرشتوں کے والدین سے رابطہ کیا جن کی ماہانہ آمدن زیادہ سے زیادہ دس ہزار ہے اور وہ اپنے بچوں کو تعلیم تو دینے سے قاصر ہیں ہی، تین وقت کی خوراک بھی پوری طرح مہیا نہیں کر پاتے۔ بریلہ گائوں میں باب العلم لائبریری کے بعد گلیوں کے بچوں کے لیے ’’باب العلم سکول‘‘ اس انقلاب کا پیش خیمہ ہے جو میرے وطن میں پھیلے ایسے کئی دیگر لوگ برپا کررہے ہیں۔ بریلہ گائوں کے ’’باب العلم سکول‘‘ میں اس وقت 62 بچے اور بچیاں، علم کے اس فقیر کی جدوجہد سے تعلیمی سفر میں داخل ہوچکے ہیں۔ تعلیم، کتابیں، کاپیاں، یونیفارم اور خوراک فراہم کرنا خدا کے اس درویش کا سب سے بڑا خواب ہے۔ جس طرح زاہد کاظمی شہرشہر ادیبوں اور علم دوست لوگوں کے ہاں کتابوں کے لیے خیرات مانگتا پایا جاتا تھا، اب وہ ہر گھر اور دوست کے ہاں بریلہ کے باب العلم سکول میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھتا ہے۔ زاہد کاظمی کا کہنا ہے کہ ایک بچے کا کُل سالانہ خرچ تیس ہزار روپے ہے۔ وہ ان 62بچوں سے اس سکول کو بڑھاتے جانے کا انقلاب برپا کرنے کے درپے ہے اور اس کے لیے ہر در پر دستک دے رہا ہے۔ پاکستان کو جس قدر تعلیم کی ضرورت ہے، اس کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے جو تعلیم کی طاقت سے واقف ہے۔ کوئی بھی سماج تعلیم کے بغیر طاقتور نہیں ہوسکتا۔ زاہد کاظمی نے ’’باب العلم سکول‘‘ کے لیے ملک بھر میں گلیوں میں رُلنے والے بچوں بچیوں کی تعلیم کی خاطر زکوٰۃ اور خیرات کی اپیل کی ہے۔ عطیات کے لیے اکائونٹ کی تفصیل:
Account No. 01987901131703
HBL، شیراں والا گیٹ برانچ، مین بازار، ہری پور
ڈاک کا پتہ: باب العلم سکول، سٹریٹ نمبر 3، نور کالونی پوسٹ آفس، t&tکالونی، ہری پور، خیبر پختونخوا
باب العلم سکول کے لیے مزید تفصیلات درج ذیل نمبروں پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہیں: 0300-5091908/ 0334-5958597 ۔ زاہد کاظمی کے لیے مجھے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ جبار مرزا جیسا شخص جب کسی کا دوست ہوتا ہے تو کچھ خاص بات ضرور ہوتی ہے ایسے شخص میں۔