آرنلڈ جوزف ٹائن بی برطانوی مؤرخ اور فلسفی سیاحت کیلئےایتھنز گیا۔ سامان ہوٹل میں رکھ کر ٹیکسی پکڑی۔جب شہر کی حد ختم ہوگئی اور مضافاتی پہاڑی سلسلہ میں جنگل میں میلوں پیدل چلتا رہا۔ اچانک بہت زیادہ پیاس بھڑک اٹھی۔ پانی کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ خوشی کی انتہا نہ رہی جب پانی کا چشمہ نظر آیا۔ اور جب پانی پی رہا تھا۔ دور کھڑا یونانی شخص دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ پانی پینے کے تھوڑی دیر بعد پیٹ میں درد شروع ہو گیا تو ٹائن بی ایتھنز میں اپنے ہوٹل میں پہنچا لیکن درد مزید بڑھ گیا۔ جلدی سے واپسی کی فلائٹ پکڑی۔ لندن پہنچتے ہی ہسپتال میں گیا۔ وہاں ہسٹری پوچھی گئی۔ کچھ ٹیسٹ کیے گئے تو ڈاکٹرز نے کہا کہ زہریلا پانی پینے سے آنتوں میں زخم ہو گئے ہیں۔ ٹائن بی کو سمجھ آ گیا کہ یونانی شخص کیوں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
بیماری کی شدت دن بدن بڑھتی گئی اور ٹائن بی سوکھ کر کانٹا ہو گیا ۔۔۔۔ کچھ عرصے بعد دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔ ٹائن بی کہتا ہےکہ مجھ سمیت میرے یونیورسٹی فیلو فوجی بھرتی کیلئے لائن میں کھڑے کر لیے گئے لیکن مجھے میڈیکل ان فٹ قرار دے دیا گیا۔ جب تک جنگ جاری رہی، ٹائن بی مسلسل بیمار رہا اورسوچتا رہتا کہ میری زندگی کا بھی کوئی مقصد ہے۔ عالمی جنگ ختم ہو گئی۔ ٹائن بی بھی تندرست ہو گیا۔ ٹائن بی کےکلاس فیلو جنگ میں گئے واپس نہ آئے اور جو واپس آئے کسی کا بازو اور کسی کی ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں۔حیرت ہےکہ ٹائن بی نے چودہ جلدوں پر مشتمل تاریخ لکھ کرحیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا۔ اور جب لکھنے کا اپنا کام مکمل کرلیا تو آرنلڈ جوزف ٹائن بی کو سمجھ آیا کہ میری بیماری میں زندگی چھپی ہوئی تھی، میں نے یہ کام کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے روز نامہ جنگ میں غالباً 2013 میں کالم لکھا تھا۔اللّٰہ بھلا کرے ڈاکٹر صاحب کا، جنہوں نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2008 میں ہم تین دوست ، ناصر اقبال صاحب اور طالب حسین صاحب تھوڑے عرصے بعد پروفیسر ڈاکٹر حمید انجم کے پاس گئے ڈاکٹر صاحب نے تینوں کو ایک پرابلم بتائی ۔ اور ایک جیسا نسخہ تجویز کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب حسین صاحب نے دوا نہ خریدی اور نہ کھائی۔ چھ مہینے بعد طالب حسین صاحب دوائی کھائے بغیر تندرست ہوگئے۔ میں اور ناصر اقبال صاحب نے دوا کھانا شروع کر دی اور ساڑھےچار سال بعد ، 13اگست 2013 کو ناصر اقبال صاحب سے کہا کہ میرے خیال میں اب دوا مار رہی ہے۔ جب مرنا ہی ہے تو دوا کھائے بغیر مرنا چاہتا ہوں میں نے دوائی کھانا ترک کر دی ہےآپ بھی چھوڑ دیں۔ ناصر اقبال صاحب نے کہا کہ دوائی کے بغیر میرا گزارا نہیں ، میں خاموش ہو گیا۔21 دسمبر 2014 کے دن ناصر اقبال صاحب کی وفات ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2020 – 4 -27 کے دن بھی زندہ ہوں اور یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔1977 سے یونانی طب ، 1999 سے ہومیو اور 2001 سے قانون مفرد اعضاء پڑھ رہا تھا۔ 2013 کے بعد مجھے اب پتا چلا ہے کہ طب ، ہومیو اور قانون مفرد اعضاء سمجھ آنا شروع ہوئے ہیں اور اب تقریباً دو سال سے اپنے مشاہدات اور تجربات لکھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2000 ء سےخواب میں ایک شخص دکھایا جا رہا تھا کہ اس سے تکلیف پہنچے گی۔ اپریل2017 میں اسی شخص کی وجہ سے پارکنسن کا اٹیک ہوا۔خواب کی تفصیلات میں جائے بغیر سب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے الفاظ سے بہت سارے لوگوں کو تندرست کر سکتے ہیں۔ اپنے چھوٹے سے ذاتی مفاد کی خاطر کسی دوسرے کا بڑا نقصان کرنے سے بچیں ۔۔۔۔۔۔۔