“ارے شمشو تو نے کہا تھا کہ جمعے کو تیرے پاس بہت گاہک ہوتے ہیں، تو ہفتے کو بچے کا بال کاٹ دے گا”
“ کاٹ دیا ہوں مولی ساب ، انگریزی بال کاٹ دیا ہوں”
“ ہاآآآ، کیا کہا؟ انگریزی بال کاٹ دیا۔۔ارے کہیں بچہ ضائع تو نہیں ہوگیا۔۔ میں اس انگریز کی حجامت سے بہت ڈرتا ہوں۔”
خواجہ معین الدین کے لازوال ڈرامے “ تعلیم بالغان “ کے یہ مکالمے ، بلکہ یوں کہئیے سارے ہی مکالمے آج بھی یوں ہی معنی خیز اور تروتازہ ہیں جیسے آج سے ساٹھ سال پہلے تھے جب یہ ڈرامہ پہلی بار کھیلا گیا تھا۔۔
اس ڈرامے پر تو بہت ساری باتیں ہوسکتی ہیں اور زندگی رہی تو کبھی اس پر بھی بات ہوگی۔ مجھے تو ان مکالموں میں “ انگریزی بال” کاٹنے نے الجھایا ہوا ہے۔ اس ڈرامے سے ہی پتہ چلا کہ جو بال ہم ترشواتے ہیں وہ انگریزی طرز کے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے شاید سر “ گھٹوایا” جاتا تھا۔ اب اس گھٹانے کے کیا معنی ہی خدا ہی جانے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سر منڈانے سے ذرا مختلف ہوتا ہوگا۔ سر منڈانا شاید استرے سے ہوتا ہوگا اور سر گھٹوانا قینچی یا مشین سے ہوتا ہوگا جس میں سر پر بہت ہی چھوٹے چھوٹے بال رہ جاتے ہوں گے۔ سر منڈوانے کا مطلب تو شاید گنجا کرنا ہوتا ہے۔ ہماری بمبئیا زبان میں اسے “ ٹکلا” کرنا کہتے ہیں جو گنجے سے زیادہ پرلطف اور معنی خیز ہے۔
اچھی طرح یاد ہے کہ جب اسکول جانا شروع کیا تو ماں میرے سر پر بہت سارا ( کھوپرے کا) تیل چپیڑ کر میری مانگ نکال کر پیشانی پر ایک لٹ چاند کی طرح لہرا کر کہتی تھی “ میرا دلیپ تیار ہوگیا”۔ میں نہیں جانتا تھا کہ دلیپ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اداکار دلیپ کمار اس طرح بال بنایا کرتے تھے یا شاید کسی فلم میں ان کے اس طرح کے بال بنے ہوئے تھے۔
بچپن میں بال شاید نرم تھے، مجھے ٹھیک سے نہیں یاد کیونکہ میرے بال میں نہیں، ماں بناتی تھی۔ ذرا سا بڑا ہوا تو چھوٹے چچا مجھے بال کٹوانے لے جانے لگے۔ حجام کی دکان میں ایک فریم میں بہت سارے سروں کی تصویر ہوتی تھی۔ ان میں ایک تصویر کے نیچے لکھا ہوتا تھا “ ہیرو کٹ” اور تصویر والے کے سر کے سامنے کے بال اٹھے ہوئے اور لہریے دار ہوتے تھے۔ میں نے شاید پہلے بھی بتایا تھا کہ اس زمانے میں بروک بانڈ چائے کے ڈبوں میں مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں کی پاسپورٹ سائز تصویریں نکلتی تھیں۔ تصویر کی پشت پر اس کھلاڑی کے کارنامے اور حالات لکھے ہوتے تھے۔
ایسی ہی ایک تصویر ایک بہت خوبصورت کھلاڑی کی تھی، جو شاید ان میں سب سے زیادہ خوبرو تھا۔ اس تصویر کے پیچھے لکھا تھا “ اوول کے ہیرو فضل محمود”۔ اس میں ان کے بال ویسے ہی تھے جیسے حجام کی دکان پر “ ہیرو کٹ” والی تصویر میں تھے۔ میری خواہش ہوتی کہ نائی میرے بال “ ہیرو” جیسے تراشے ، لیکن میرے چچا اسے “ کرو کٹ “ ( Crew Cut) بنانے کے لیے کہتے۔
بات یہ تھی کہ ہمارے خاندان میں سب کے بال بہت سخت اور گھنے ہوتے ہیں۔ ہم میں بہت کم کوئی “ ٹکلا” ہوتا ہے۔ لیکن ہیرو بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ہمارے بال مکرانیوں اور حبشیوں جیسے سخت اور گھنگریالے ہوتے ہیں۔ صبح نہا دھو کر جو ایک بار بن گئے تو پھر چاہے آندھی آئے یا طوفان، ہمارے بالوں کا، بال بھی باکا ، نہیں ہوتا۔ وہ ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں جیسے صبح بنے تھے۔ چچا اسی لیے میرے بال ،کروکٹ ، بنواتے تھے کہ چھوٹے بال رہیں اور سلیقے سے رہیں۔
جب ذرا سی خودمختاری ملی یعنی خود جاکر بال کٹوانے کے قابل ہوئے تو کوشش کرتے کہ ذرا بڑے بال ہوں اور تھوڑے بہت “ ہیروکٹ” بال بنائیں اور اس کوشش میں بال ترشوانے کا پروگرام موخر کرتے رہتے لیکن اللہ بخشے ابا مرحوم سخت ناراضگی کا اظہار کرتے اور اگر بال کم چھوٹے کروائے تو ابا کہتے کے بال ابھی تک کیوں نہیں کٹوائے ؟
ہیرو بننے کا یہ سفر دلیپ سے شروع ہوا تھا جس میں ایک اہم پڑاؤ لڑکپن میں آیا جب یکے بعد دیگرے “ ہیرا اور پتھر” “ارمان”، “احسان” اور “ دوراہا” یعنی وحید مراد کی فلموں نے دھوم مچانا شروع کیا اور جس لڑکے کو دیکھو بال آدھی پیشانی پر گرائے “ وحید مراد” بنا پھرتا تھا۔ میرے سخت بال وحید مراد بننے میں مانع تھے لیکن ہمت نہ ہاری اور زر کثیر خرچ کرکے برل کریم کی شیشی خریدی۔ یہ پیمبری کے زمانے تھے۔ خوشبودار صابن کے نام پر “ لائف بوائے” مل جاتا تو غنیمت تھا۔ کبھی کبھار “ لکس” “ پام روز” یا ریکسونا نصیب ہوجاتے، لیکن شیمپیو یا کنڈیشنر نام کی چیز کا نہ ان دنوں رواج تھا نہ ہم جیسے چھوٹے غریب محلوں میں رہنے والے ایسی کسی چیز سے واقف تھے ( ویسے آپس کی بات ہے، بچپن میں شیمپو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج تک سر پر سارے بال سلامت ہیں۔الحمدللّٰہ)
وحید مراد بننے کے لیے نہانے سے ایک گھنٹے پہلے سر میں خوب تیل لگاتے کہ بال نرم پڑ جائیں۔نہانے کے بعد بہت ساری “ برل کریم “ چپڑ کر ، بالوں کو پیشانی پر کنگھی کرکے،رومال سے سختی سے باندھ دیتے۔ اس ساری مشقت کے نتیجے میں پچاس فیصد مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے کہ بال تو تھوڑے بہت وحید مراد جیسے بن جاتے لیکن شکل وہی کی وہی رہتی، جیسی تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہم مرد اپنے بالوں کے لیے بڑے متفکر رہتے ہیں لیکن ہمارے علاوہ کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں۔ ہم خود ہی آئینے میں صورت دیکھ کر ، حسب موقع، خوش، ناخوش، متفکر اورمایوس ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ آج تک کسی نے مردوں کے بالوں کے بارے میں کوئی ایک شعر بھی کہا ہو۔
یہ تو خواتین کے بال ہیں جن پر اردو شاعری بھری پڑی ہے۔ لیکن اگر عورتوں کی زلف و کاکل، چشم و ابرو اور لب و رخسار نہ ہوتے تو یقین مانئیے اردو شاعری بڑی ہی فاسقانہ ہوتی کہ پھر سوائے کمر ، سینہ اور ان کے متعلقات و مشمولات کے کسی اور چیز پر شاعری نہ ہوتی۔
زلفیں، سینہ، ناف، کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور ( جاں نثار اختر)
محبوب کی زلفوں نے جو تباہی اردو شاعری میں مچا رکھی ہے اگر وہ نہ ہوتی تو شاید آدھے شاعر، شاعری ہی نہ کرتے کہ جتنی تشبیہات بالوں کی دی جاتی ہیں شائد ہی جسم کے کسی اور عضو کی دی جاتی ہوں۔ کوئی اسے شام، رات اور اندھیروں سے ملاتا ہے تو کسی کو یہ کوڑیالے، یعنی سانپ نظر آتے ہیں۔
ذرا ان کی شوخی تو دیکھنا لئے زلف خم شدہ ہاتھ میں
میرے پاس آئے دبے دبے، مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
کسی کو یہ شب دیجور نظر آتی ہے تو کسی کو ڈھلتی شام
صبحدم زلفیں نہ یوں بکھرائیے
لوگ دھوکا کھا رہے ہیں شام کا
یا
کبھی کھولے، تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے
زندگی شام ہے اور شام ڈھلی جائے ہے
لیکن یہ سہولت صرف مشرقی شاعری کو حاصل ہے۔ گوروں کی عورتوں کے بال یا تو مردوں کی طرح تراشیدہ ہوتے ہیں یا ہیٹ اور اسکارف میں بند۔ اللہ جانے کیسے یہ گورے اپنی معشوقاؤں کے بال سنوارتے ہونگے، کیسے وہ زلفوں سے پانی جھٹکتی ہوں گی، کون دیکھتا ہوگا کہ بال کمر تک پہنچ رہے ہیں۔کیسے وہ بال بکھراتی ہوں گی اور کیسے محبوب ان کے بالوں کو چھیڑتا ہوگا۔
ہاتھ ٹوٹیں، میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی
آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی ، میں نہ تھا ( مومن)
لیکن ایسے بھی ہیں جنہیں بالوں سے زیادہ کسی اور چیز کی فکر ہوتی ہے۔ شاعروں کی نظریں بھی کہاں کہاں ہوتی ہیں۔ ترا درد، درد تنہا، مرا غم، غم زمانہ۔ خواجہ آتش کو ساری فکر کمر کی ہے۔
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو، کچھ انہیں کم کیجئیے
گورے کبھی محبوبہ کے بال سنوارتے نظر نہیں آتے۔ان کے مشاغل اور طرح کے ہوتے ہیں ۔ ہمارے شاعر البتہ کسی اور ہی چکر میں رہتے ہیں۔
یہ کھلے کھلے سے گیسو، انہیں لاکھ تو سنوارے
مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
کوئی دنیا کے مسائل کو ان بالوں سے زیادہ پیچیدہ سمجھ کر ہتھیار ڈال دیتا ہے کہ
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے۔ ( مجاز)
بالوں کی بات نکلی تو زلف یار کی طرح بکھرتی ہی چلی گئی۔ بات کچھ خاص اور مشہور بالوں اور ان کے اسٹائل کی کرنی تھی۔کچھ مردانہ اور کچھ زنانہ۔وہ زلفیں جنہوں نے ایک عالم کو اپنا اسیر بنا رکھا تھا۔
دلیپ کمار کے بالوں کی ہم ںے بات کی۔ شاید ان کے بالوں کا انداز کبھی مقبول رہا ہو لیکن ان دنوں میں ہمیں ان باتوں کا ہوش کہاں تھا۔ نہ فلمیں دیکھتے تھے نہ کوئی فلمی معلومات تھیں۔
ادھر ہوش آنا شروع ہوا، ادھر ہندوستانی فلمیں آنا بند ہوگئیں لیکن خدا بڑا مسبب الاسباب ہے زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ ہم نے وحید مراد کو دریافت کرلیا۔اب ہمیں دلیپ کمار یا ان کی زلفوں سے کوئی مطلب نہیں رہا تھا۔
میرا اپنا خیال ہے کہ فیشن اور اسٹائل ہالی ووڈ سے چل کر ہندوستان آتا تھا اور وہاں سے ہم درآمد کرلیتے تھے۔ یاد پڑتا ہے صدر میں ایک ہئیر کٹنگ سیلون تھا( اس سیلون نے بھی ایک زمانے تک پریشان کئے رکھا۔ ہم اردو میڈیم لوگ سری لنکا جس کا پرانا نام سیلون تھا، اور حجام کی دکان کے تعلق پر سوچ سوچ کر پریشاں ہوتے رہے، تاآنکہ انگریزی میں دونوں طرح کے سیلون کی املا سمجھنے کے قابل ہوئے) ۔ اس سیلون میں ایک بڑے سے فریم میں اس زمانے کے اداکاروں کلارک گیبل، پال نیو مین، راک ہڈسن اور گریگوری پیک اور گلوکار ایلوس پریسلے کی تصویریں ہوتیں۔ ویسے تو دوسرے مردانہ حجاموں کے ہاں بھی تصویریں لگی ہوتیں لیکن یہ تصویریں نیلو، مسرت نذیر، حسنہ، رخسانہ اور صبیحہ وغیرہ کی ہوتی تھیں جن کا بظاہر کوئی خاص مقصد نظر نہیں آتا تھا سوائے اس کے کہ دوران حجامت گاہک کا دل لگا رہے۔
یہ تو بہت بعد میں علم ہوا کہ بہت سے ہندوستانی ہیرو بھی بالی ووڈ والوں کے بالوں اور لباس کی نقل کیا کرتے تھے۔ دیوآنند اکثر گریگوری پیک کے انداز میں بال بناتے اور شمی کپور کو ایلوس پریسلے کا اسٹائل اپناتے دیکھا حالانکہ وہ خود بہت وجیہہ اور خوبرو تھے۔بہرحال یہ دونوں ہیرو خواتین میں بہت مقبول تھے۔ رہے راج کپور تو نظریں ان کی مونچھوں سے اوپر نہ اٹھ پاتیں کہ ان دنوں وہ بھی ایک منفرد انداز رکھتے تھے۔
ہمارے پاکستان میں ان دنوں سنتوش، درپن، حبیب اور کمال وغیرہ کا شہرہ تھا ۔ کمال بھی راج کپور کا انداز اپنانے کی کوشش کرتے۔ لیکن یہ اداکار عوام میں اس درجے مقبول نہ تھے جس طرح بعد میں وحید مراد، محمد علی اور ندیم ہوئے۔ وحید مراد نے نوجوان نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ لڑکیاں ان پر صدقے واری جاتیں۔ ندیم بھی مقبول رہے لیکن ان کے بالوں کا کوئی خاص انداز نہ تھا ( شروع کی فلموں میں انہیں دلیپ کمار جیسا بنایا جاتا تھا) ۔ رہے محمد علی تو ان کے بال ایسے ہی تھے جیسے اپنے میاں صاحبان کے ہیں یعنی وہ بھی (شاید) مصنوعی بال لگاتے تھے۔ ایک اور اداکار رحمان بھی بہت مشہور تھے جن کا بالوں کا انداز یکسر مختلف تھا لیکن دیکھنے والوں کی نظریں ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں کھو جاتی تھیں۔ کالج میں آئے تو “ بیٹلز “ Beatles” نے اپنے گانوں اور بالوں کی دھوم مچا رکھی تھی۔ کچھ دنوں بعد ہپیز Hippies کے لمبے، گھنے اور میلے کچیلے بالوں نے ان کی جگہ لے لی۔
مردوں کے بالوں کے انداز میں بہت زیادہ تنوع نہیں تھا۔ دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں مانگ نکال لی یا بالوں کو پیچھے کی جانب کنگھی کردیا۔ اسی ، نوے کی دہائی میں امیتابھ بچن کا اسٹائل بھی بہت مقبول تھا جس میں بالوں کو پیچھے کی جانب کنگھی کرکے درمیان میں عورتوں جیسی مانگ نکال دی جاتی تھی۔
یہ دراصل خواتین کی زلفیں ہیں جو موضوع سخن ہونی چاہئیں۔ عورتیں مختلف انداز سے بال بناتی آئی ہیں۔ زیادہ تر سادہ طریقے سے درمیان سے ایک سیدھی سی مانگ نکالتی تھیں ، تو کوئی محترمہ ایک چٹیا باندھتی تھیں۔ ہم نے بہت سی خواتین کو دو چٹیا بناتے بھی دیکھا خصوصا پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا طالبات کو اکثر دو چٹیوں میں دیکھا۔ بالوں کا جوڑا بنانا بھی عام ہے۔ مہاراشٹرا، گجرات، تامل ناڈ وغیرہ کی مہیلائیں اکثر ان میں گیندے کے پھول یا گجرے گوندھی ہوتی ہیں۔ ساٹھ اور ستر میں جب ٹیڈی لباس کا شہرہ تھا ان دنوں خواتین سر پر ٹوکرا سا بناتیں جسے “ بوفو” Bouffants کہتے تھے۔ لیکن یہ کوئی بہت زیادہ دلکش نظر نہیں آتا تھا۔
ہندوستانی فلموں میں سائرہ بانو، شرمیلا ٹیگور، وجینتی مالا اور آشا پاریکھ وغیرہ کے بالوں کو بہت پسند کیا جاتا تھا لیکن جو مقبولیت اور شہرت “ سادھنا” کے اسٹائل کے حصے میں آئی اس کاکوئی ثانی نہیں ۔ سادھنا اسٹائل نہ صرف ان کی ساتھی اداکارائیں اپناتی تھی ان بلکہ پاکستان میں بھی شمیم آرا اور زیبا ؤغیرہ نے چند فلموں میں اسی انداز کے بال بنائے۔ پرانی اداکاراؤں میں مدھوبالا جیسے بھی بال بنائیں ان کی خوبصورتی کے آگے ماند پڑجاتے تھے۔ مینا کماری اور نوتن اپنے سادہ گھریلو انداز کے بالوں سے ہی دیکھنے والوں کے دلوں میں گھر کر لیتی تھیں ۔ نرگس اپنے کٹے ہوئے مغربی انداز کے بالوں سے بھی جوان دلوں پر چھریاں چلاتیں ۔ اور ہمارے ہاں نئیر سلطانہ تھیں جن کے بال گھٹنوں تک آتے تھے۔ کم از کم ہم نے فلم “گھونگٹ” میں تو یہی دیکھا۔
ادھر مغرب میں بھی کچھ خواتین کی زلف گرہ گیر زیر بحث رہیں۔ مارلن منرو کے سنہری بال، جینالولو بریجیڈا، برشی باردو، راکیل ویلچ کے Bombshell اسٹائل نے دھوم مچائی تو ایلزیبتھ ٹیلر کی خوبصورت آنکھیں ہی بالوں سے پہلے اپنی جانب متوجہ کرتیں۔ ایک زمانے میں صدر کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کینیڈی اپنے مخصوص ہئیر اسٹائل کے باعث دیکھتے ہی پہچانی جاتیں اور پھر ہمارے زمانے میں لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والی “ شہزادی ڈیانا” کا دلفریب ہئیر اسٹائل آج بھی ان کے چاہنے والوں کی یادوں کو جگمگاتا ہے۔
حسینان عالم کے بال کھلے ہوں یا بندھے ہوئے، ہر حال میں غضب ڈھاتے ہیں۔ اور شاعر غریب تو ہوتے ہی ان گھٹاؤں کے رسیا۔
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئی
ان بکھری ہوئی الجھی ہوئی لٹوں کو سلجھانا میرے بس کی بات نہیں۔ یہ قصہ شروع تو کردیا لیکن زلفوں کی اس چھاؤں سے باہر آنا ممکن نہیں ۔ بس ایک دو شعر اور سن لیجئے ۔ پھر سلاما لیکم۔
شکر ہے باندھ لیا اپنے کھلے بالوں کو
اس نے شیرازۂ عالم کو بکھرنے نہ دیا۔ ( جلیل مانک پوری)
مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو
کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو
اللہ جانے یہ ،زلفوں کے بال ،کیا ہوتے ہیں لیکن یاد رہے یہ شعر مضطر خیر آبادی کا ہے جو جاں نثار اختر کے بھی باپ تھے، یعنی جاوید اختر کے دادا۔
****
تحریر: شکور پٹھان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...