جنگ پبلشر لاہور کے ادھورے اور ملازمین کی وجہ سے بدنما دفتر میں میرا اکثر آنا جانا ہوتا تھا۔ کئی بار وہاں ایک اُڑے سفید بالوں، سانولی رنگت والا، دھوئیں کے مرغولے اُڑاتا ہوا غریبانہ اور درویش سا شخص بیٹھا ہوتا جس کی ایک ابرو تلے یا ناک کی ایک سائیڈ پر موٹا سا موہکا بھی تھا جسے دیکھ کر ہی الجھن ہوتی تھی۔ اُسے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ بہت عرصے سے خاموش ہے۔ پتا چلا کہ وہ وہاں پر اپنی خاموشی بیان اور ریکارڈ کروانے آتا ہے۔ جنگ پبلشر اُس کی آپ بیتی یا کوئی اور کتاب چھاپ رہا تھا۔
(جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، ایک دو بار وہ دھوتی اور سفید کرتے میں بھی تھا)۔ مجھے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ غلام احمد عرف احمد راہی ہے۔
جدید پنجابی شاعری پر اثرات مرتب کرنے والا یہ شاعری امرتسری تھا۔ اُس نے 1942ء میں میٹرک کیا اور ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیا۔ طلبا تحریکوں میں حصہ لینے کی وجہ سے تعلیم چھوڑ دی۔
شاعری شروع کی اور اپنے ماموں صادق امرتسری سے اصلاح لیتا رہا۔ امرتسر میں ہی اس نے سعادت حسن منٹو، سیف الدین سیف اور اے حمید کی صحبت اختیار کی اور 1947ء میں اردو شاعری کی ابتدا کی۔ سیف الدین سیف سے متاثر تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین امرتسر کا سیکرٹری بھی بنا۔
تقسیم ہند کے بعد لاہور آ گیا اور ادبی جریدے ’سویرا‘ کی ادارت کی۔ اس کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’ترنجن‘‘ (52ء) بہت مقبول ہوا جسے پنجابی ادب میں ایک کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس وقت تک پنجابی کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ نازک احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے پنجابی موزوں زبان نہیں ہے،
لیکن احمد راہی ’’ترنجن‘‘ کے ذریعے اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس مجموعے کا فلیپ سعادت حسن منٹو نے پنجابی میں لکھا۔
یہ پاکستان میں پنجابی زبان میں شائع ہونے والی اولین کتابوں میں سے ایک تھی۔ احمد راہی نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز پنجابی فلم ’’بیلی‘‘ سے کیا جو تقسیم کے وقت فسادات پر مبنی تھی۔ اس کی کہانی سعادت حسن منٹو نے لکھی جبکہ ہدایت کار مسعود پرویز تھا۔ اس نے مسعود پرویز اور خواجہ خورشید انور کی مشہور پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کے لیے گیت لکھے۔ اس نے 75 سے زائد فلموں کے لیے مکالمے اور متعد کے لیے گیت بھی لکھے۔
پنجابی فلموں میں اس کا کردار وہی ہے جو اردو و ہندی فلموں میں ساحر لدھیانوی اور قتیل شفائی کا۔ لیکن ہمارا معاشرہ مسخرے شاعروں کی تاجپوشی کی راہ پر چل چکا تھا۔ لہٰذا وہ سکون سے فوت ہو گیا۔ سوچتا ہوں کہ اگر اُس سے تھوڑی بہت بات کر لی ہوتی تو شاید زیادہ کچھ لکھ سکتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...