علم وکتاب واٹس اپ گروپ پر علامہ شبلی کے سلسلے میں شیخ محمد اکرام کے تعصب کی بحث آئی تھی، اس کے تناظر میں یہ تحریر ہے (ع۔م۔م )
اس میں شک نہیں کہ شیخ محمد اکرام نے اس سلسے کی تصنیف میں بڑی محنت کی ہے، اور کتاب کا معیار تحقیق بھی کافی بلند ہے، یہ اور بات ہے کہ ان کی بعض تحقیقات سے ہمیں اختلاف ہے، مثلا دین الہی کے سلسلے میں انہوں نے جو بحث کی ہے ، اس سے کئی ایک چیزیں جنہیں ہم مسلمہ حقیقت کی حیثیت سے مانتے آرہے ہیں، ان کی حیثیت مشکوک ہوجاتی ہے، لیکن جس طرح ہر محقق اور مصنف اپنی معاشرت اور ماحول کا اسیر ہوتا ہے، شیخ اکرام پر بھی اس کی اثرات محسوس کئے جاسکتےہیں، لیکن دنیا میں ایسے کم ہی مصنف اور محقق ہیں جن کی سب باتیں قبول کی جاتی ہوں۔ ہماری رائے ہے کہ ایک پڑھے لکھے قاری کو خالی الذہن ہوکر کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے، کتاب پڑھنے سے پہلے کوئی رائے قائم کرکے کوئی کتاب پڑھنے سے اس کے بارے میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے، کتاب یا مصنف کے سلسلے میں کوئی رائے قائم کرکے کتاب پڑھنا ہمیں ذاتی طور پر پسند نہیں ہے۔
جہاں تک علامہ شبلی کے سلسلے میں شیخ محمد اکرام نے جو لکھا ہے، تو اس سلسلے میں چند باتیں ذہن میں رہنی چاہئے۔
۔ پڑوس والوں نے علامہ اقبال کی طرح سرسید احمد خان کو اپنا لیا ہے، شاید زبان سے وہ یہ بات نہ کہتے ہوں،لیکن ان کے رویوں سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں شخصیات ۱۹۴۰ء کے بعد کی مسلم لیگ کے کارکنان یا قائدین رہے ہوں، کرنسی نوٹ پر سرسید کا نام جس طرح شامل کیا گیا ہے، اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے، ان رویوں سے حاصل تو کچھ نہیں ہوتا، لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ، ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے، اوردو ایک بی جے پی سرکاروالی ریاستوں میں علامہ اقبال کے نا م سے موسوم بہت بڑا ادبی ایوارڈ اب تک دیا جاتا رہا ہے، یہ روئے ان دونوں شخصیات سے وابستہ اداروں کو متنازع فیہ بنادیتے ہیں۔ اور ان شخصیات کو مطعون بنانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح کی محبت وعقیدت کو نادان کی دوستی ہی کہا جاسکتا ہے۔
تقسیم ہند کے قریبی دنوں مسلم لیگ کی فکر کے حامل دانشوروں میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوا جس نے سرسید کی عقیدت میں تمام حدود پار کئے، سرسید کے افکار وخیالات پر کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کی، اور جس نے بھی کوئی تنقید کی اس کا علمی رد کرنے کے بجائے اس کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس کردار کشی کے علامہ شبلی ؒسب سے زیادہ شکار رہے ، اور بد قسمتی سے اس معرکہ میں وہ دانشور شریک رہے جن کا ایک علمی مقام اور درجہ سمجھا جاتا ہے، اور جو پڑوسی ملک کو منتقل ہوئے۔
سرسید کی محبت میں اس کردار کشی کا آغاز علامہ سید سلیمان ندوی کی حیات شبلی کی اشاعت کے بعد ہوا، اور اس کے سرخیل محمد امین زبیری مرحوم تھے جو علامہ شبلی کے محسن دوستوں میں سے بھی تھے،ریاست بھوپال سے سیرت النبی ﷺ کی اولین اشاعت کے لئے مالی تعاون دلانے میں آپ کا بڑا ہاتھ تھا، وہ دارالمصنفین کے ابتدائی ممبران میں تھے، ساتھ ہی وہ سرسید کے اندھے عاشق ، اور علی گڑھ تحریک کی شخصیات کے سوانح نویس تھے ، معلوم نہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے بھوپال منتقلی کے بعد ان میں کیوں دوریاں پیدا ہوئیں کہ انہوں نے اپنا غصہ علامہ شبلیؒ پر نکال دیا۔
یہ درست ہے کہ زبیری صاحب نے ۱۹۲۵ء میں خطوط شبلی بنام عطیہ بیگم صاحب فیضی و زہرا بیگم صاحب فیضی کاپہلا ایڈیشن بھوپال سے شائع کیا تھا ، پھر اس کا دوسرا ایڈیشن دس سال بعد ۱۹۳۵ء میں تاج کمپنی لاہور سے، لیکن جب یہ خطوط شائع ہوئے تھے تو اس وقت انہیں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، نہ انہیں شبلی کی کردار کشی کے لئے کسی نے استعمال کیا تھا، یہاں تک کہ ابتدا میں نیاز فتحپوری جیسے نقاد نے بھی انہیں زیادہ در خور اعتنا ء نہیں سمجھا تھا،اس وقت ایک بڑے حلقہ نے مولوی عبد الحق بابائے اردو کے اس پر مقدمہ کو بھی معاندانہ نہیں سمجھا، بلکہ اسے ایک ادبی تنقید کے زمرے میں ڈال دیا۔
لیکن جب علامہ سید سلیمان ندوی کی ″حیا ت شبلی ۱۹۴۳″ء میں شائع ہوئی تو امین زبیری نے شبلی کی کردار کشی کی ایک مہم شروع کردی، پہلے ان کی کتاب ″تبصرہ حیات شبلی ( یعنی) مولانا شبلی کی زندگی کا رنگین پہلو″۱۹۴۶ء میں آئی۔ پھر ″ذکر شبلی ″ آئی۔ اس کے بعد کئی ایک کتابیں اسی حلقہ سے آئیں۔ اور پھر ایسا طوفان بد تمیزی شروع ہوا، کہ سنجیدہ قاریوں کے سر شرم سے جھک گئے، انہی دنوں شیخ اکرام کی ″شبلی نامہ ″شائع ہوئی جو زبیری مرحوم کی تحریروں سے پوری طور پر متاثر تھی۔ یہ کتاب شبلی کی کردار کشی کا مرقع تھی۔
کافی عرصہ بعد شبلی کے دفاع میں ماہنامہ جامعہ دہلی کے مدیر عبد اللطیف اعظمی نے ″مولانا شبلی کے منتقد اور معتقدـ″ کے عنوان سے قلم اٹھایا، اور پھر مایہ ناز ادیب ونقاد ڈاکٹر ابن فرید نے ″شبلی چوں بہ خلوت می رود″ لکھ کر ان ناقدین کی بولتی بند کردی، اور آخر میں سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ″شبلی ، معاندانہ تنقید کی روشنی میں″ انجمن ترقی اردو دہلی سے شائع ہوئی، ابھی قریب میں ڈاکٹڑ شمس بدایونی کی تحقیق سے ″خطوط شبلی بنام خواتین فیضی″ کا نیا ایڈیشن شائع ہوا ہے، جو اس سلسلے میں کافی معلومات فراہم کرتا ہے۔
شبلی کے ناقدین میں سے ڈاکٹر وحید قریشی سابق ڈائرکٹر اقبال اکیڈمی نے اپنی کتاب ″شبلی کی حیات معاشقہ″ کو اپنے لئے عار سمجھ کرمرنے سے پہلے اپنی تصانیف سے خارج کردیا ، اور شیخ محمد اکرام نے اپنی کتاب پر نظر ثانی کرکے اس کے دوسرے ایڈیشن″یادگار شبلی″ کے ذریعہ سجدہ سہو کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کتاب میں مصنف نے شبلی سے ہمدردی کے پردے میں علامہ سید سلیمان ندوی ؒکے مقام ومرتبہ کو نیچا کرکے ان پراپنا نزلہ اتارنے کی کوشش کی ہے، ہماری رائے میں یہ علامہ مرحوم کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ باوجود اس کے ہماری رائے میں ″یادگار شبلیـ″ علامہ شبلی پر لکھی گئی ایک دلچسپ کتاب ہے، شبلی سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے، کیونکہ اس میں شبلی کے چند ایک ایسے گوشے نمایاں کئے گئے ہیں، جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتے، جہاں ″شبلی نامہ″ سے عقیدت کم ہوجاتی ہے، اس کتاب کو پڑھنے سے علامہ کے سلسلے میں کئی ایک جگہ پر ہمدردی کے جذبات ابھرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ″یادگار شبلی″ کے بعد علی گڑھ نے شبلی کو اپنا لیا ہے، اب دارالمصنفین سے وابستہ دانشوروں میں زیادہ تر علی گڑھی نظر آتے ہیں، چند سال قبل دارالمصنفین کے قیام کے سوسال پر صدی جشن دھوم دھام سے منایا گیا تھا، اس وقت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزند ڈاکٹر سید سلمان ندوی دامت برکاتھم بھی موجود تھے، اورآپ کے ساتھ ہمارا بھی حضرت مولانا تقی الدین مظاہری ندوی دامت برکاتھم کے مدرسے میں قیام تھا، ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ بہت رنجیدہ ہیں، کیونکہ آپ کا بچپن دارالمصنفین اعظم گڑھ کے درودیوار کے سایہ میں گذرا تھا، انہیں یہاں پر گذری بچپن کی یادیں ایک ایک کرکے یاد آرہی تھیں، ان کا احساس تھا کہ اس تاریخی موقعہ پر علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو پس پشت ڈال کر آپ کے نام کو یہاں پر فراموش کیا جارہا ہے، حالانکہ علامہ شبلیؒ کے خواب ( دار المصنفین ) کو تعبیر علامہ سید سلیمان ندویؒ اور آپ کے ساتھیوں نے دی تھی، اس کے لئے آپ پونہ کالج کی نوکری چھوڑ کرآئے تھے، جہاں آپ کی زندگی خوشحالی سے گذر رہی تھی، جہاں آپ کی تنخواہ بھی بہت تھی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...