(Last Updated On: )
۲۸؍مارچ ۱۸۹۸ء بروز پیر کی طلوع صبح بے حد نمناک تھی۔ فضا میں اُداسی اور ماحول میں اضطرابی کیفیت تھی۔ سبھی کے دل انجان اُلجھن اور پریشانی کی وجہ سے تیزی سے دھڑک رہے تھے۔ نماز فجر کے بعد جسے بھی یہ اندوہناک اطلاع ملی کہ رات تقریباً دس بجے سید والا گہر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے، وہ نواب محمد اسماعیل خاں (رئیس دتاولی، علی گڑھ) کی کوٹھی ’’دارالانس‘‘ کی طرف تیز قدموں سے چلتا ہوا نظر آیا۔ ’’دارالانس‘‘ جو محبت کے گھر کے نام سے مشہور ہوا، اُس کے بائیں جانب پان والی کوٹھی اور داہنی طرف برگد ہاؤس تھا۔ سرسید اپنی علالت کی وجہ سے کئی دنوں سے اپنے دوست نواب محمداسماعیل خاںکے یہاں قیام پذیر تھے۔ کبھی بھی کسی پر بوجھ نہ بننے والا بے حد فعال اور متحرک یہ شخص بے شمار خوابوں کو سجائے ہوئے ۲۷؍مارچ کو اپنے مالکِ حقیقی سے جاملا۔ شاید یہ عرضداشت لے کر میں آخر وقت تک بنی نوع انسان کے لیے عملی جدوجہد اور تعلیم کی سرفرازی سے غافل نہیں رہا لہٰذا اب میرے چمن کی شادابی اور آبیاری میں کبھی کوئی خلل نہ آنے پائے۔
’’دارالانس‘‘ سے ’’سمیع منزل‘‘ اور ’’سرسید ہاؤس‘‘ تک ہی نہیں بلکہ کیمپس سے باہر بھی ایک ہلچل سی برپا تھی۔ مصلح قوم کے انتقال کی خبر سُن کر سبھی بے چین ہو اُٹھے تھے۔ جزوی گِلے شکوے فی الحال فراموش کردیے گئے۔ فکر تھی تو یہ کہ اِس ناقابلِ تلافی نقصان کی بھرپائی کیسے ہو، خلا کو کس طرح پُر کیاجاسکتا ہے اور آئندہ کے لیے کیالائحۂ عمل تیار کیا جائے؟
موت یقینی ہے، برحق ہے لیکن سرسید کی وفات پوری قوم کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا۔ ہر فرد وسوسے اور صدمے میں مبتلا تھا کہ کل کیا ہوگا؟سرسید کی علالت سے پہلے چند اختلافات سامنے آچکے تھے مثلاً کالج کے پرنسپل کے اختیارات، انگریزوں کا انتظامیہ میں عمل دخل، سید محمود کی سکریٹری شپ اور غبن نے کشمکش کی صورت پیدا کردی تھی مگر مقناطیسی کشش رکھنے والی شخصیت کے سانحہ ارتحال پر مخالفین بھی سکتے میں تھے ۔ لہٰذا وہ تمام اختلافات جو افواہ کی طرح گشت کررہے تھے اُنھیں در کنار کرتے ہوئے سب نے یکسوئی سے اِس پر توجہ دی کہ خونِ جگر سے سینچا گیا ادارہ کہیں تباہ نہ ہوجائے۔
لوگ تدفین کی تیاری میں تھے لیکن ذہن دُور بہت دُور ملک وملت کامنظر وپس منظر تلاش کررہا تھا۔ اکثر ذہنوں میں ماضی کاوہ منظر نامہ پوری طرح اُبھرچکا تھا جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہادر شاہ ظفر کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا تھا مگر نہ جانے کیوں قدموں میں ارتعاش پیدا ہوگیا، جمی جمائی بساط پلٹ گئی۔ ملک میں برپاشورش کے بعد سرسید احمد خاں سب سے زیادہ فکر مند نظر آرہے تھے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سب کچھ اُن کی مرضی اور منشا کے خلاف ہوا ہے۔ ایسے تذبذب بھرے ماحول میں انھوں نے وفاداری کے صلے میں مجوزہ انعامات کو ٹھکرادیا کیوں کہ اُن کے اندر ایک بے چینی، خلش اور افسردگی سی گھرکرگئی تھی جو اُنھیں تناؤ میں مبتلا کرتے ہوئے کچھ کرنے پر اُکسارہی تھی۔ بجنور، میرٹھ، دہلی، بریلی، علی گڑھ، مرادآباد کے قرب وجوار میں ہونے والی نا انصافیوں پر تلملا کر انھوں نے جو کچھ صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا اُس نے دونوں فریقوں کی آنکھیں کھول دیں۔ اِسی لیے اُن کا جہاں بھی تبادلہ ہوا وہاں کے لوگ اُن کے افکار ونظریات سے جُڑتے گئے اور وہ عملی جدوجہد کے نئے نئے خاکے تیار کرتے رہے۔
برصغیر کے تاریخی منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو سرسید احمد خاں نے ’’تاریخ سرکشی بجنور‘‘ اور’’اسباب بغاوتِ ہند‘‘ کے ذریعے سیاسی اور سماجی افکار ونظریات کی کشاکش کے مابین مفاہمت کے امکانی جتن کیے۔ بد دلی، بیزاری، بے اعتمادی و شبہات کو رفع کرتے ہوئے گفت وشنید کے دروازے وا کیے۔ عملی جدوجہد کے لیے ’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ قائم کی اور پھر افادی اور خصوصاً غیر افسانوی ادب کے فروغ کے لیے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے جرأت مندانہ اظہار کا اعلان نامہ پیش کیا جو نہ صرف محمڈن سوشل ریفارمر کی حیثیت سے علی گڑھ تحریک کا ترجمان بنا بلکہ یہ مجلہ:
۱۔ بُغض وعناد، نفرت وحقارت کو ختم کرنے کا ایک وسیلہ ثابت ہوا۔
۲۔ جلد ہی یہ جریدہ قلم کے آزادانہ استعمال اور نڈر ہوکر حقائق کو پیش کرنے کانمونہ قرار پایا۔
۳۔ اس میں نو آبادیاتی نظام کی خوبیاںہی نہیں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی موثر کہانیاں بھی ہیں، ایسی کہانیاں جو مشرق کی بازیافت کرتی ہیں۔
۴۔ یہ مجلہ شکوہ وشکایت ہی نہیں، حق تلفیوں اور نا انصافیوں کا بھی بے باکانہ اظہار کرتاہے۔
۵۔ برمحل اظہار کے ساتھ طرف داری اور غلط فہمی کو واضح کرنے کاوسیلہ بنتاہے۔
۶۔ جدید علوم وفنون سے واقف کراتے ہوئے قدیم تہذیب وتمدن کانگہبان بن کر اُبھرتاہے۔
۷۔ فلسفہ، منطق، سائنس اور روزگار کی زبان کا علمبردار ثابت ہوتاہے۔
۸۔ ہندوستانیوں کے بدلتے ہوئے خیالات اور دلی جذبات کی منھ بولتی ہوئی تصویر قرار پاتاہے۔
۹۔ تغیر وتبدل کے ساتھ افہام وتفہیم کے ذریعے باہمی تعلقات کو مربوط ومستحکم بنانے کا موثر حربہ ثابت ہوتاہے۔
۱۰۔ نثری پیراہن کی شناخت اور اُس کے مختلف رنگوں کامحافظ ثابت ہوتاہے۔
اتنے وسیع کینوس کو سمیٹنے والے مجلے سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے، تمام تر توجہ کے ساتھ سرسید احمد خاں نے جس درس گاہ کی بنیاد رکھی تھی اور تیئس سال تک خونِ جگر سے جس کی آبیاری کی تھی، اُن کی آنکھ بند ہوتے ہی اُس پر گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی دیکھ سبھی تلملا اُٹھتے ہیں۔ یہ محمڈن سوشل ریفارمر اور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج دونوں سے قلبی لگاؤ کا مظہر ہے۔ اسی لیے غم زدہ ماحول میں سب کچھ ساکت وجامد محسوس ہوتاہے۔ تلاوتِ کلام پاک، دُعائیہ کلمات کے ساتھ ساتھ تعزیتی قرار دادیں پاس ہوتی ہیں۔ اخبار ورسائل اپنے اپنے انداز سے جوکچھ رقم کرتے ہیں، اُن سے ہزارہاصفحات بھرے پڑے ہیں۔
(ii)
تجہیز وتکفین کے بعد علی گڑھ کے قرب وجوار سے باہر دیکھیں تو بھوپال میں نواب شاہجہاں بیگم نے زبردست رنج وغم کااظہار کیا، اُن کی جوان بیٹی سلطان جہاں بیگم نے اپنے محل میں تلاوت قرآن کا معقول انتظام کیا۔ یہی حال حیدرآباد اور دیگر چھوٹی بڑی ریاستوں میں رہا۔ عوامی سطح پر دیکھیں انجمن رفیق الاسلام امرتسر، انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور، انجمن اسلام لدھیانہ اور انجمن حمایت الاسلام گوجرانوالہ نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ متعدد قرار دایں پیش کیں۔ ’پیسہ‘ اخبار لاہور اور ’سراج الاخبار‘ جہلم نے کئی دنوں تک تعزیتی جلسوں کی رودادیں پیش کیں۔ غلام جیلانی اور پیر بخش نے راولپنڈی میں جلسے کیے۔ نور احمد نور نے انبالہ اور میر حسین علی نے کوئٹہ میں زبردست سوگ منایا۔ سردار محمد خان، شیخ عطاء اللہ اورمیاں جلال الدین نے گجرات میں، خان بہادر محمدبرکت علی، مولوی محمد شاہین اور سردار علی خاں نے لاہور میں سرسید کی وفات پر تقاریر کیں۔ حاجی عبدالرحمن، امیر علی شاہ، مولوی عمر الدین وغیرہ نے دھرم شالہ ضلع کانگڑہ میں تعزیتی جلسے کیے۔ قاضی تصدق حسین، شیخ مختار احمد اور ظہور الحسین قادری نے بٹالہ میں، اسی طرح پیر زادہ احمد حسن، امام بخش،بابو سنت سنگھ، لالہ بھوانی داس نے ڈیرہ غازی خان میں سوگ منایا۔ ڈاکٹر ہری چند، لالہ سیتا رام، محمد عثمان، احتشام الدین وغیرہ نے سر سہ ضلع حصار میں تعزیتی جلسے کیے۔ دیوان فتح چند، پنڈت مہاراج کشن، سردار اودھم سنگھ، شیخ اصغر علی، غلام احمد وغیرہ نے سیالکوٹ میں مختلف تجاویز پیش کیں۔ گجرات کے امام الدین ’’چودھویں صدی‘‘ کے ۱۵؍اپریل (۱۸۹۸ء) کے شمارہ میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ جن کااسم بامسمیٰ تہذیب الاخلاق تھا، کیاسنہری جلدوں میں اپنا جلوہ نہیں دکھارہا ہے‘‘۔
’’چودھویں صدی‘‘ کے یکم اپریل (۱۸۹۸ء) کے اداریہ میں ’’ہائے سید ہائے قوم‘‘ کے عنوان سے رقت آمیز تحریردرج ہے:
’’سید احمد خاں نہیں مرے ہیں، ہماری بدنصیب اور بدبخت قوم مرگئی ہے۔ دنیا پر تاریکی چھاگئی ہے یا آنکھوں میںاندھیراآگیا ہے۔ دنیا موجودہوگی مگر ہم کو تاریکی کے سوائے کچھ نظر نہیں آتاہے۔ آنکھیں کھول کر جس شخص کو ایک ہی اپنی قوم کے درد کا کشتہ دیکھا تھا۔ جب اس نے آنکھیں بند کرلیں تو اے آنکھو اب تم بھی بند ہوجاؤ۔ اے قوم جب تیرا مسیحا ہی مرگیا ہے تو تو کیوں زندہ ہے۔ اے بدنصیب قوم تیرا کیاحال ہوگا۔ اے قوم تجھ پر مصیبت کی گھٹائیں ٹوٹ پڑی ہیں۔ اے قوم تیرے خرمن حیات کو غم کی بجلی نے جلا کیوں نہیں دیاہے۔ اے قوم تیرا عاشق زار کہاں گیا۔ اے قوم تیرا فدائی اور کشتہ کدھر چل بسا۔ اے مرجانے والے تجھے کیا کہہ کے روئیں کب تک روئیں اور کیسے روئیں۔ اے قوم کے سید تو نے اپنی قوم کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا۔ تیری قوم یہ صدمہ کیوں کر اٹھاسکے گی۔ ہائے بتا تو جاتا کہ کدھر چلا ہے اورکیوں چلاہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون
آج اس سے زیادہ نہیں لکھاجاسکتا۔‘‘
دھرم شالہ ضلع کانگڑہ کے عبدالرحمن لکھتے ہیں:
’’صاحبان آپ نے سناہوگا کہ سرسید احمد خان بہادر بانی مدرسۃالعلوم علی گڑھ کاانتقال ۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء بروز یکشنبہ ہوگیا۔ یہ واقعہ ہرچند کوئی نیاواقعہ نہیں ہے جس پر حیرانی اور تعجب کااظہار ہو۔ یہ موت دنیا میں پہلی موت نہیں ہے کہ جس پر گریباں صبر چاک کیاجائے۔ بلکہ ہم نے آج تک کبھی یہ نہیں سنا اور نہ کسی تاریخ سے ایسا پتا لگاکہ فلاں عالم وفاضل یا فلاں عابد وزاہد ڈاکٹر یا فلاسفر اپنے علم وفضل یا زہد و اتقاء یا حکمت وفلاسفی کے ذریعہ اپنی مقررہ حیات سے ایک منٹ کیا ایک سیکنڈ بھی زیادہ زندہ نہیں رہ سکا ہو اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا جب کہ خداوند تعالیٰ کاارشاد ہوگا ہے:
اذا جاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون
اور یہی ایک ایسا کٹھن وقت ہے کہ جس میں بڑے بڑے عقلا زمانہ کی کچھ پیش نہیں گئی اور نہایت بے چارگی کی حالت میں داعی اجل کو لبیک کہہ کرچل دئیے۔ پس جب کہ بقا سوائے ذات باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں تو اسے زیادہ اور کیا کہا جائے کہ فرش زمین پر سینکڑوں آئے چلے گئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون
لیکن ہم کو آج جس بات کاصدمہ اور ایسا صدمہ ہے کہ جس نے قوم کی کمر توڑ دی ہے وہ یہ ہے کہ قوم کی ایک زبردست طاقت کاایک بڑا معاون۔ قوم کامدبر، قوم کا جانثار اور قوم کا ایک طبیب حاذق جس کی امداد کی قوم کو ابھی بہت زیادہ ضرورت تھی جہاں سے گزر گیا اور قوم کو بے سپر چھوڑ گیا۔ یہی رونا ہے جس کوآج تمام ہندوستان کے مسلمان رو رہے ہیں اورروتے رہیں گے‘‘۔
مولانا شبلی نعمانی سرسید کی سیاسی بلاغت پر فرماتے ہیں:
کوئی پوچھے تومیں کہہ دوں گا ہزاروں میں یہ بات
روشِ سید مرحوم خوشامد تو نہ تھی
ہاں مگر یہ ہے کہ تحریک سیاسی کے خلاف
ان کی جو بات تھی آورد تھی، آمد تو نہ تھی
سید اکبر حسین الٰہ آبادی وفات سرسید پر اظہار خیال کرتے ہیں:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتاتھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جوچاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبرؔ
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
بہادر بخت لُدھیانوی کایہ طویل مرثیہ زبان زد خاص وعام تھا:
یہ لکھنا چاہیے سید کے سنگ مرقد پر
درود احمد مختار و آل احمد پر
خدا کا فضل برستا نہ کیسے سید پر
کہ ہے خدا کا سلام اُن کے جدّ امجد پر
سنا ہے ہم نے کہ نعمت ہے دردِ ہمدردی
یہ درد ختم ہوا آکے سید احمد پر
جو حصہ بانٹا گیا اب بہ شبلیؔ و محمود
نواب محسن الملک و نذیر احمد پر
بنائے چند ہیں اشعار ذکر سید میں
سنائے دیتا ہوں رحمت ہو روح سید پر
آنریبل سید احمد خاں جورحلت پاگئے
غنچہ دل سب مسلمانوں کے بس مُرجھاگئے
الفراق اے ہوش، دل قابو میں اب اپنا نہیں
الوداع اے صبر ، غم سے ہم بہت گھبراگئے
بعد احمد یہ بھی احمد ایک تھا ہمدردِ قوم
جس کے مرنے سے ہجومِ غم دلوں پر چھا گئے
قوم میں وہ روح پھونکی قومِ مردہ جی اٹھی
ہم پہ مرکر زندہ کرنا وہ ہمیں سکھلاگئے
کرگئے خوش وہ بزرگانِ سلف کی روح کو
اہلِ ہمت اُن کے استقلال سے تھراگئے
قومی قومی کاسبق ایسا دیا ہر ایک کو
بن کے سرسید علی گڑھ سے ہزاروں آگئے
کرگئے ہیں وہ ادا سب دردِ ہمدردی کاحق
فرض ہے جس کو رسولِ ہاشمی فرماگئے
باتوںباتوں فائدہ پہنچاگئے وہ خلق کو
ہاتھوں ہاتھوں کالجِ قومی کو وہ بنواگئے
بات کیا باقی ہے جو سیکھی نہ اُن سے قوم نے
دل میں گھسنا حاکموں کے وہ ہمیں بتلاگئے
ناتواں تھی قوم پر ہمت بندھا کر وہ اسے
رفتہ رفتہ منزلِ مقصود تک پہنچاگئے
انگریزی گر نہ پڑھتی ٹھوٹھ رہ جاتی یہ قوم
حق تو یہ ہے وہ جہالت کا ورق الٹاگئے
مرثیہ قومی وہ پڑھ کر ہم پہ روتے تھے مگر
اب ہمیں رلوا کے اپنے مرثیے پڑھوا گئے
عمر میں ہشتاد سالہ عزم میں تھے نوجواں
یہ ضعیفی اورجوانی کاسماں دکھلاگئے
غیر قوموں نے بھی ہمت کاسبق ان سے لیا
پانے والے پیرِ مردِ دہر سے کچھ پاگئے
تاکہ ہمت کو نہ ہاریں قوم کے یہ نوجواں
باتیں حکمت کی جو سمجھانی تھیں وہ سمجھاگئے
نوجوانو بوڑھے سید کے قدم پر تم چلو
بیج وہ تو بو گیا اب فصل کے دن آگئے
مرثیہ سمجھو اسے نوحہ گنو یا سوزِ دل
بخت چند اشعار لے کر ہم بھی پڑھنے آگئے
انگریزی میں پائنیر الٰہ آباد، سِول اینڈ ملٹِری گزٹ لاہور، انگلش مین کلکتہ، کالج میگزین علی گڑھ اور لندن ٹائمز نے موثر اداریے لکھے، مضامین شائع کیے۔ ان میں لکھنے والوں کی طویل فہرست ہے جن کے کارناموں کو لوگ عام طور پر فراموش کرچکے ہیں۔ نئی نسل کے قارئین کی سہولت کے پیش نظر محض چند اہم دانش وروں کامختصر تعارف پیش خدمت ہے جنھوں نے سرسید کی وفات پر اظہارِ خیال کیا:
۱۔ محترمہ جیسوبیک (Mrs. Jesso Back)، جناب تھیوڈروبیک(Theodoreo Beck)، ایم۔اے۔او۔ کالج کے پرنسپل (دوم) کی بیگم تھیں۔ یہ دوسری مغربی خاتون تھیں جنھوں نے کالج میں قیام کیا اور سرسید سے بے حد متاثر ہوئیں۔
۲۔ جناب ایل۔اے۔ ایس پورٹر (L.A.S. Porter) میرٹھ کے مجسٹریٹ اور کلکٹر تھے۔ وہ انڈین سِول سروسیز کے معروف رُکن تھے جو منتظمِ اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ بعد ازاں شمال مغربی صوبے اور اودھ (اترپردیش) کے لیفٹیننٹ گورنر ہوئے۔ انھوں نے ۲؍اپریل کو کنڈولینس میٹنگ میں پُرمغز خطاب کیا اورہندوستانیوں کو اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کی۔
۳۔ جناب لارڈرے(Lord Reay) بامبے صدر کے گورنر رہے لندن اسکول بورڈ کے چیرمین بھی رہے جو بعد میں ترقی کرکے رائل ایشیاٹک سوسائٹی، لندن کے نام سے مقبول ہوا۔
۴۔ جسٹس پرمود چندر بنرجی(Justice Pramod Chander Bannerji) الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج تھے۔ وہ دوسرے ہندوستانی تھے جن کا الٰہ آباد ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے تقرر ہواتھا۔انھوں نے چیف جسٹس کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ۱۹۱۷ء میں وہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی مقرر ہوئے۔ انھوں نے سرسید کی وفات پر اپنے دُکھ درد کا تفصیلی اظہار کیا۔
۵۔ سرسُندر لال (Sir Sundar Lal) الٰہ آباد ہائی کورٹ کے معروف وکیل تھے۔ انھوں نے وہاں جج کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جن کا ۱۹۰۶ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ بی ۔ایچ۔یو۔ سوسائٹی کے اعزازی سکریٹری بھی تھے اور بنارس ہندو یونیورسٹی کی تعمیر کی وکالت کی ۔ وہ یونیورسٹی کی تکمیل کے بعد وہاں کے پہلے وائس چانسلر بنے۔ انھوں نے بھی انگریزی میں صمیم قلب سے رنج وغم کا تفصیلی اظہار کیا۔
۶۔ جسٹس سیدامیر علی (Justice Syed Ameer Ali)کا انڈین سوسائٹی کی ترقی اور فروغ دینے والوں میں شمار ہوتاہے۔ انھوں نے سینٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی بنیادوں کو استوار کیا۔ وہ مشہور وکیل، جج، قانون داں اور معروف تاریخ داں تھے جن میں فیصلہ کرنے اور تجزیے کی اعلیٰ صلاحیت تھی۔ سید محمود کے بعد ہندوستان میں یہ دوسرے مسلمان جج تھے۔ چودہ سال تک اِس عہدے پر رہنے کی بعد وہ انگلستان چلے گئے۔ انھوں نے سرسید احمد خاں کی موت کو زبردست قومی نقصان قرار دیا تھا۔
۷۔ سررامیشور سنگھ (Sir Rameshwar Singh) دربھنگہ کے مہاراجہ اور گورنر بنگال کے ایگزیکٹیو کونسل کے ممبر تھے۔ وہ ہندو یونیورسٹی سوسائٹی کی کمیٹی کے صدر بھی تھے بعد ازاں انھوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی کی تعمیر و تشکیل میں بھی اہم کردار اداکیا۔
۸۔ جناب ارتھراسٹریچی (Arthur Strachey) سرجان اسٹریچی کے بیٹے تھے۔ شمال مغربی صوبے کے لیفٹیننٹ گورنر، ایم۔اے۔او۔ کالج کے وزیٹر اور بمبئی ہائی کورٹ کے جج تھے۔ وہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔ سرسید سے بے حد متاثر تھے اُن کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور اُن کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے قوم کو تسلی دی۔
مذکورہ شخصیات کے تاثرات جو ہماری اکادمیوں اور لائبریریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں، اُن کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ نہ صرف باشعور ہندوستانیوں نے بلکہ انگریزوں نے بھی سرسید کی علمی اور عملی جدوجہد کو تسلیم کرلیا تھا۔ مرحوم کے مخلصانہ اور منصفانہ عمل نے کسی حد تک غیر مسلموں کے دلوں کو بھی جیت لیا تھا اس کا برمحل اور تفصیلی اظہار ملک اور بیرون ملک کی زبانوں میں پیش کی گئیں قرار دادوں سے ہوجاتاہے۔
(iii)
ملک وقوم کے بہی خواہوں اور دانش وروں کے لیے یہ عظیم سانحہ تھا۔ سید والا گُہر کی رحلت ایم۔اے۔او۔ کالج کی ترقی اور فروغ کے عمل میں بڑی رُکاوٹ بن سکتی تھی لیکن رفقائے سرسید اور بہی خواہانِ ملک وملت نے اپنی تمام تکالیف ، دشواریوں اور پریشانیوں کے باوجود سرسید کے نصب العین کو تقویت بخشتے ہوئے جاری وساری رکھااور کالج کو مستحکم کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کردیں۔
اپنے رہنماکے فوت ہوجانے کے بعد حقائق اورصورتِ حال پر نظر رکھنے والے پُرخلوص حضرات نے باوجود تمام دشواریوں کے ناگزیر حالات سے نکلنے کے لیے فضا کو ہموار کیا۔ معاشی اور ذہنی پریشانیوں کے باوجود عملی جدوجہد کو جاری رکھا۔ کالج کو مستحکم کرنے اور منزل پالینے کے حصول میں اپنی تمام قوت صرف کی چنانچہ وہ علی گڑھ تحریک جوجدید علوم وفنون کے حصول اور تہذیب وتربیت کے فروغ کے لیے وجود میں آئی تھی منزل مقصود کی جانب گامزن ہوگئی اور اُس نے ۱۹۲۰ء میں مسلم یونیورسٹی کادرجہ حاصل کرلیا۔ پھر عزت ووقار، تحفظ وشناخت اور مقام ومرتبہ کی تگ ودو کے ساتھ سرسید کاقائم کردہ ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتار ہا۔
وقت کے ساتھ قدریں بدلی ہیں۔ ہم آپ بھی بدلے ہیں لیکن یہ سب اُسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، اُنھیں بزرگوں کے ہم جانشین ہیں پھر قول وفعل اور فکر وعمل میں اتنا تضاد کیوں؟ سو ڈیڑھ سو برس میں ہی ہمارے مزاج، عادات واطوار اتنے کیوں بدلے ہوئے نظر آتے ہیں؟ غور کریں توآج بھی ہم سب کے دلوں میں وہی جذبۂ خلوص، وہی احساسِ عظمتِ رفتہ اور وہی سعادت مندی موجود ہے، رگوں میں وہی خون دوڑ رہا ہے۔ قرب وجوار کی تکلیف دہ صورتِ حال پر اب بھی بے قرار ہوجاتے ہیں تو کیاغوروفکر کے اب اُتنے مواقع میسر نہیں یا ہم اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ اُن پر بہت دیر تک توجہ نہیں دے پاتے ہیں۔ یا پھر ہم پر ہمارے اپنے مفاد اِس حد تک غالب آچکے ہیں کہ فلاح وبہبود سے جلد مبرا ہوجاتے ہیں۔ غفلت اور بے پروائی کو درگزر کرتے ہوئے اُس جذبۂ خلوص کو اُبھارنے اور صحیح سمت موڑنے کی ضرورت ہے۔ سوتے خشک نہیں ہوئے ہیں اُنھیں کُریدنے، اُجاگر کرنے کے لیے نیک نیتی اور خلوص لازم ہے جو مصلحت یامفاد کی بنا پر پسِ پشت چلے گئے ہیں۔
ماضی بعید ہی نہیں ماضی قریب میں بھی ہمارے بزرگوں کی کامیابی کاراز بے لوث خدمت، خلوص اور عملی ہمدردی میں پوشیدہ تھا۔ اپنی تمام نجی مصروفیات کے باوجود وہ طلبہ کی تدریس، تعلیم اور تربیت کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔ کالج اور بورڈنگ ہاؤس کے شب وروز کے مشاغل میں شرکت کرتے تھے۔ انھوں نے طلبہ کی بہبودی کو اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا اور ہر مشکل میں اُن کی معاونت ، رہنمائی اور امداد کیاکرتے تھے اسی لیے اُن کی خدمات کا اثر غیر معمولی طور پر بہت زیادہ تھا۔ طلبہ اُن کو اپنا مُربی اور محسن خیال کرتے تھے اور از خود اُن کا احترام کرتے تھے۔ بلاشبہ ماضی کے مقابلہ میں طلبہ کی تعداد آج بہت بڑھ گئی ہے لیکن اسٹاف میں بھی تو اضافہ ہوا ہے اور سہولتیں بھی ہمیں بہت میسّر ہیں پھر کیاوجہ ہے کہ ہم سے صبروسکون، امن وبھائی چارہ دُور ہے اور ہم شاید اپنے ہی بنائے ہوئے خول میں سمٹتے چلے جارہے ہیں جس میں ممکن ہے ہمارے لیے کچھ عافیت ہو لیکن دوسروں کی قدرومنزلت نہیں۔
عالمی سطح پر طاقت اور افضلیت کے مظاہرے کی جو جنگ جاری ہے وہ لاشعوری طور پر مذہبی رنگ اختیار کرتی جارہی ہے جسے سمجھنے، سمجھانے اور اُس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی سرسید تحریک معاون ہوسکتی ہے کیوں کہ یہ تحریک نفاق نہیں ، اتفاق اور اتحاد کی بات کرتی ہے۔ یہ شدت پسندی نہیں، تحمل اور ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ احساس دلاتی ہے کہ مذہبی بالادستی طاقت کے بل پر نہیں، دلوں کو جیتنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے پیش نظر فنا نہیں بقا ہے، نفرت نہیں محبت ہے، بُغض نہیں مساوات ہے، تشدد نہیں عدم تشدد ہے، یہ جنگ نہیں امن کے راستے کاتعین کرتی ہے۔ اِس نے سرحدوں پر خارزاروں کی حد بندی نہیں، نفرت کی دیوار کو منہدم کرنے کی تلقین کی ہے۔ اِس تحریک نے بتایا ہے کہ نئی نسل کامستقبل کیسے سنواراجاسکتا ہے۔ اسی لیے یہ تحریک دنیا کے سامنے ایک نمونہ بن کر اُبھری ہے۔
(iv)
سرسید احمد خاں کی رحلت کے بعد ان گنت دشواریوں کے ہوتے ہوئے ہمارے بزرگوں نے اپنے رہبر اور مصلح قوم کے خوابوں کی تعبیر کے لیے طرح طرح کے جتن کیے۔ وہ جن ناگزیر حالات سے نبردآزما ہوئے تھے، کم وبیش آج ہم بھی اُن ہی حالات سے دوچار ہیں۔ ہمیں بھی اُسی طرح کے چیلنجز کاسامنا ہے بلکہ ہم اُن کے مقابل کمزور ہیں کیوں کہ ہم صوبائی، علاقائی، لسانی، مسلکی اختلافات کاشکار ہیں۔ جب یہ مان لیا گیا کہ عصر حاضر میں مسائل ومصائب کی نوعیتیں بدلی ہوئی ہیں تو پھر اُن کے تدارک کے لیے ہمیں سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس نکتہ پر خاص توجہ دینی ہوگی کہ ۱۸۵۷ء کی حشر سامانیوں، اندرونی خلفشار اور صدمے سے اُبھرنے کے لیے رفقائے سرسید نے کئی منصوبے تیار کیے تھے۔ محض کاغذ یا ذہن پر ہی نہیں بلکہ یکسوئی سے اُن نقوش پر دل جمعی سے کام کیا، کامیابی نے اُن کے قدم چُومے۔ ہمیں بھی فضا اور ماحول کو اپنے مطابق ڈھالنے کے لیے مختلف وسائل میسّر ہیں۔ ہم آپ چاہیں توآج بھی رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ بنیادی رول ادا کرسکتا ہے کیوں کہ یہ رسالہ اپنے قیام کے وقت سے لے کر آج تک نئی نسل کے اندر علمی اور سائنسی ذہن کو فروغ دینے اور سماجی بیداری پیدا کرنے میں معاون رہا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ کل اِس کی بات آسانی سے دلوں اور گھروں تک پہنچ جاتی تھی کیوں کہ اردو کادائرہ بہت وسیع تھا مگر اب وہ دائرہ سمٹ کر بے حد محدود ہوگیاہے۔ لہٰذا یہ دوہری محنت کا وقت ہے۔ اردو کے حلقے کو وسیع ہی نہیں اُسے اس جانب راغب بھی کرنا ہے اور پھر اُن تک موثر انداز میں رفقائے سرسید کی بات بھی پہنچانی ہے۔ کام مشکل ہے ناممکن نہیں، توجہ طلب یہ نُکتہ ہے کہ ابتدائی دور میں سرسید کے خوابوں کی تعبیریعنی کالج کی تعمیر و ترقی کی طرف کس طرح ہمدردانِ ملت کو راغب کیاگیا، پھر سرسید کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا اُسے پُر کرنے میں کیا لائحۂ عمل اختیار کیا گیا۔ اِس عندیہ کو اُجاگر کرنے کے لیے سرسید کی وفات پر تعزیتی قراردادوں کے ساتھ معروف اسکالر ز اور دانش ورانِ ادب کے قلم سے معرضِ وجود میں آنے والی تحریروں نے کس طرح کا بُنیادی کردار ادا کیا اور اُسے عصر حاضر سے جوڑتے ہوئے ہمیں موجودہ منظر نامے کو بڑی یکسوئی سے اُجاگر کرنا ہوگا۔ اس توقع کے ساتھ کہ موجودہ تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی مسائل کا حل علی گڑھ تحریک ہی سے ممکن ہے کیوں کہ اِس کا نظام تعلیم مثبت فکر میں ممدومعاون رہا ہے۔
٭٭٭