بہادر شاہ ظفر بھی بڑا عجیب ’’حکمران‘‘ تھا۔اس کی بے بسی آج بھی آنکھوں میں نمی اُتار دیتی ہے۔اس صاحبِ دل،اہل نظراور ادیب پرورانسان کو اپنے صاحبِ اقتدار ہونے کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔اس شہنشاہ کی بے توقیری اوربے بسی پر بے اختیار پیار آتا ہے اور دل میں ہمدردی کے بے پناہ جذبات جانے کہاں سے اُمڈ آتے ہیں ؟اسکی عبرت آموز زندگی اثر آفرین بھی ہے اور سبق آموز بھی ۔آج کے حکمران اگر اسکی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے تو دنیا کی بے توقیری اورتقدیر کے آگے انسانی بے بسی ان پر تفہیم کے کئی در وا کر دیتی۔لیکن فرمانِ جنابِ امیر کی روشنی میںیہ بات پھر کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ عبرت کے مقا مات جس قدر زیادہ ہیں عبرت حاصل کرنے والے اتنے ہی کم۔خیر ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا کہ وہ اختیار کھو بیٹھا ورنہ د رندگی کی تصویر میں اورنئے رنگ بھرتے ہوئے ظلم سے اپنادامن داغ دارہونے کبھی نہ بچا پاتا ۔اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس کے بیٹوں کے سر تھال میں رکھ کر اس کے’’ حضور‘‘پیش کر دیئے گئے تھے تو اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ اگریہی سب کچھ اس کے کسی بیٹے کے ہاتھوں ہوتا تو یہ اس سے کہیں بڑا انسانی المیہ ہوتا۔اوراس سوال کو ایک بار پھر سر اُٹھانے کا موقع ملتا ہے کہ آخر دنیا صاحبِ دل واہلِ نظر افراد پر پہاڑ بن کرکیوں ٹوٹتی اور انہیں بے دردی سے توڑ کر رکھ دیتی ہے؟آخرکیوں یہاں سچ کا گلہ دبا دیا جاتا ہے(اور گلہِ تک کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی)؟کیوںحساس دلوں پر نشتر چلا دیئے جاتے ہیں ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا ایک ہتھیار ہے اور کسی ’’دشمنِ جاں‘‘ کے ہاتھ میں ہے
آخری مغل فرمانرواایک با کمال شاعر بھی تھا ۔کہتے ہیں دنیا کا بہترین ادب پس ِزندان تخلیق ہوا ہے ۔اسکی دور ِاسیری کی یادگار شاعری واقعی شہکار کا درجہ رکھتی ہے۔بعض لوگ اسکے کلام کو ایک بڑے شاعر سے منسوب کرتے ہیں (لیکن راقم اس بد گمانی اور تاریخی مغالطہ کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی جرات کا حوصلہ نہیں رکھتا)۔وہ یہ تو کہہ گیا ہے ’’دو گززمیں بھی مل نہ سکی کوئے یار میں‘‘۔خداجانے وہ کون سی بات تھی جو وہ محفل کا رنگ ڈھنگ بدل جانے کے سبب کہہ نہیں پایا؟پر مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ کچھ نہ کہہ کر جو بات کہہ گیا ہے وہ یقینا اس بات سے کہیں بڑی ہے جو وہ کہنے میں ناکام رہا ۔اقبال نے بھی تو اسی دستورِ زباں بندی کا رونا رویا ہے۔تو کیا واقعی کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کا بیان کارِدارد بن جایا کرتاہے؟کم از کم عورتوں اور نئی نسل کیلئے یہ بات واقعی حیرت انگیز ہو گی اور ایسا ہونا بھی چاہئے کہ انکی زبان عرصہ ہوا میرٹھ کی قینچی کو مات دے چکی اوراب کوئی اور مقابل دو ر دور تک دکھائی نہیں دیتا ۔ مسئلہ یہ ہے ہمارے پاس اتنا وقت ہی کہاںکہ ہم کچھ سوچ کر لب کھول سکیں۔شعوری اورلاشعوری زندگی میںواضح ترین فرق یہ ہے کہ’’ بے دھیان ‘‘ گفتگو جھوٹ سے عاری ہوتی ہے اورتول کر کی گئی باتیں سچ سے خالی۔یہی وجہ ہے کہ پھر بات قسم ،قرآن اور حلف اُٹھانے پر بھی مشکوک ہی رہتی ہے اور’’ بنائے نہ بنے اور بجھائے نہ بجھے ‘‘کے مصداق سوائے بگاڑ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔کتنی عجیب بات ہے کہ دو برس میں بولنا سیکھ لینے والی زبانیں عموماً اپنی آخری جنبش تک اچھا بولنے سے محروم رہتی ہیں۔سچ ’’ جوہر ‘‘انسا نی کی عظمت کھلتی ہی تب ہے جب اسکی زبان کھلتی ہے ۔یہ باطنی رازدان، انسان کا باطن طشت از بام کر دیتا ہے ۔
آجکل صرف اپنی کہنے اور دوسروں کو’’ سنانے ‘‘بلکہ جتانے کی جو روش چل نکلی ہے اس نے’’ سماعتی آلودگی ‘‘ میں بے پناہ اضافہ کرکے دلوں میںدوری پہلے سے کہیں بڑھا دی ہے۔فقرے پر بندہ قربان کر دینے کی رو ش گویا ہماری سرشت میں در آئی ہے۔بولتے ہوئے عموماًہماری زبان کام اور کان صرف آرام کرتے ہیں(جبکہ دماغ غالباً سویا رہتا ہے)۔اورہم سرے سے بھول ہی جاتے ہیں کہ دوسرے بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں (اب اگر کوئی یہ نہ کہے تو اور کیا کہے’’ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے‘‘ ؟)۔اب میرا مسئلہ اورمیری الجھن بھی ملاحظہ ہو کہ میرا عموماً اس جانب دھیان ہی نہیںجاتاکہ دھیان سے کسی دوسرے کی بات سننا بھی تو میری ذمہ داری ہے۔ایسی کوئی نوبت آ بھی جائے تو میں جھٹ سے اسکی بات مکمل کر دیا کرتاہوں۔اور اس کوشش میں عموماًبات کرنے والے کامنہ دیکھنے والا ہوتا ہے اوروہ بیچارہ اپنا سا منہ لے کر میرا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے کہ اسکی بات کا حلیہ ہی بگڑ چکا ہوتا ہے۔
میں اچھا خاصا باتونی آدمی ہوں ۔اکثر زبان میں خارش کی شکایت رہتی ہے۔ لیکن کسی کوسراہناپڑجائے توعموماً میری زبان کو چپ سی لگ جاتی ہے ۔میں اکثر سوچتا ہوںکہ کسی کی تعریف کرتے ہوئے میری زبان میں گرہیں سی کیوں پڑ جاتی ہیں ؟(شایداس لئے کہ دوسرا اسے خوشامد نہ سمجھ لے)لیکن وہی میں ہوتا ہوں کہ اپنی مخصوص جلالی کیفیت میںمدِمقابل کو کیا کچھ نہیںکہتا ؟۔تب تو ایک پل کیلئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آتا کہ دوسرے میرے بارے میں کیا کیا نہیں سوچیں گے؟کبھی کسی کو اچھا کہہ دوںیا بھولے سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک مجھ سے’’سرزد‘‘ہو بھی جائے( اور میرے ان جذبات کا احترام نہ کیا جائے)تواپنے الفاظ ضائع ہونے کا احساس مجھ سے میرا قرار لوٹ لیا کرتا ہے اور بارہا اس درد کو زبان مل جاتی ہے اور میںکہے بنا رہ نہیں پاتا’’میں نے خوامخواہ اپنے قیمتی لفظ ضائع کر دیے ۔وہ اس قابل تھا ہی کب ؟جانے دوسروں کو پہچاننا مجھے کب آئے گا‘‘؟لیکن کسی کے ساتھ نفرت کا برتائو کرتا ہوں (اور وہ اس سلوک کا مستحق نہ ہو)تو شرمندگی سے بہر طوربچا رہتا ہوں۔اور کبھی ہو بھی جائے تو وہ احساسِ ندامت تصورسے نکل کر الفاظ کے روپ میں نہیں ڈھلتا ۔اور ’’بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی ‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہوں۔ اور وجہ ظاہر ہے اپنی ذات سے محبت آڑے آجا تی ہے۔اور جن سے ہمیں پیار ہوانکی غلطیوں سے صرفِ نظر عین تقاضائے محبت ہے ۔اور میں شاید خود پسندی میں انتہا پسندی کی حد تک مبتلا ہوں ۔اگر مجھے بہتر تعلقات استوار کرنے ہیں تو اپنے جیسا برتائو دوسروں سے بھی کرنا ہوگا اور میں چاہتے ہوئے بھی عموماًایسا نہیں کر پاتا ۔ندامت کے شدید احساس سے گھائل ہو کر بولنے کو مائل زبان جانے کیوں ’’حرکت‘‘پر قائل نہیں ہو پاتی ۔جبھی تولو گوں سے میرے رابطے اکثرکچھائو(پرکشش ) کی بجائے تنائو کا شکار رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتِحال اس وقت بھی درپیش ہوتی جب کوئی بامقصدبات کرنی پڑ جائے۔ تب بھی تویہی لگتا ہے جیسے ذہن نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہو۔اکثر خود کو سمجھاتا بھی ہوں کہ اپنی تمام تر خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ میں نے خود کو بھی تو’’قبول‘‘ (اور دوسروں نے مجھے )کرہی رکھا ہے تو دوسروں کو ’’برداشت‘‘ کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟آخروسیع القلبی اور اعلی ظرفی کی انسانی زندگی میں کوئی نہ کوئی اہمیت تو ضرور ہوتی ہے(مگر لگتا ہے یہ ساری نصیحتیںمیرے اندر ہلکے پھلکے ارتعاش سے بڑھ کر سونامی جیسا اثر پیدا کرنے میں اکثر ناکام رہتی ہیں۔۔۔ کہ نفس کو آزاد چھوڑ دیا جائے توپھر یہ درندہ اپنی ’’رضا ‘‘سے نہیں صرف’’ سزا ‘‘سے ٹھیک ہوتا ہے اور خود کو ایسی کوئی سزا دینا ،جو انسان کی بگڑی بنا دے اور اسکی اصلاح کر سکے، شاید دنیا کا مشکل ترین کام ہے)۔اور پیارے پڑ ھنے والے میرے حق میں دعاضرور کیجئے گا کہ میں اپنے پیارے دوست اور باکمال شاعرافتخارشاہد کی اس نصیحت پر کبھی عمل کرنے میں کامیاب ہو جائوں۔
جن لوگوں سے دل کا رشتہ ہوتا ہے
ان کی سب تقصیریںسہنی پڑتی ہیں
کچھ ہیروںکو رانجھے راس نہیں آتے
کچھ رانجھوں کو ہیریں سہنی پڑتی ہیں