فیض صاحب بڑے شاعر ہونے کے ساتھ بڑے انسان بھی تھے۔ مخالفین نے بے شمار اعتراضات کیلئے پینترے بدل بدل کر حملے کئے جو دائیں طرف تھے انہوں نے بے دین کے الزامات لگائے۔ جو بائیں طرف تھے وہ الگ ناخوش تھے۔ سازشی سے لے کر وطن دشمن تک ہر خطاب سے نوازا گیا لیکن فیض صاحب کی شائستگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی ردعمل نہ ظاہر کیا۔ کبھی کسی کے خلاف بات کی نہ بیان دیا۔ نہ ہی وضاحت کے چکر میں پڑے سنا تو مسکرا دیے۔ اس لحاظ سے وہ مظلوم تھے۔ مظلوم اس لحاظ سے بھی تھے کہ کیا پسماندگان اور کیا دوسرے، ان کی شاعری کو ایک خاص فلسفے سے وابستہ کر کے ان پر ایک چھاپ لگا دی گئی اور پھر فوائد اکٹھے کئے گئے لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔
مولانا مودودی دوسرے مظلوم تھے جن پر اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ روایتی علما کو اعتراض تھا کہ وہ کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل نہیں۔ بائیں سمت والے کہتے تھے کہ امریکہ سے حساب کتاب ہے۔ انتہائی دائیں طرف والے تجدید اورتجدد کا الزام لگاتے تھے۔ لیکن مولانا کسی الزام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ علمی حوالے سے بھی ایک ہی بار وضاحت کرتے۔ زیادہ بہتان لگے تو اتنا کہا کہ کچھ لوگ اپنے سارے نماز روزے اور نیک اعمال آخرت میں میری (یعنی مودودی صاحب) کی طرف منتقل کرا دینا چاہتے ہیں۔
تیسرے مظلوم وزیراعظم میاں نوازشریف ہیں۔ حریف اعتراضات بھی کررہے ہیں۔ الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ کبھی رخ بدل کر حملے کررہے ہیں کبھی ہتھیار بدل کر۔ لیکن وزیراعظم ہیں کہ صبر کا پیکر بنے بیٹھے ہیں۔ اعتراض سنتے ہیں اور معترض کو دعا دیتے ہیں۔ الزامات لگتے ہیں تو مسکرا دیتے ہیں۔ تردید نہ تصدیق!
لیکن یہاں مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے،حالات نے مختلف روپ دھار لیا ہے، کردار مختلف ہیں، فیض صاحب کو ؎
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
والا رویہ راس آسکتا تھا اس لئے کہ وہ سیاست دان نہیں تھے۔ ابوالاعلیٰ مودودی سب کچھ سن کر منہ دوسری طرف کرسکتے تھے کہ سیاست میں تو تھے، وزیراعظم نہیں تھے۔ میاں نوازشریف سیاست دان بھی ہیں، پارٹی کے سربراہ بھی ہیں، پارٹی بھی وہ جس کی نسبت قائداعظم سے ہے اور قیام پاکستان سے اور پھر سربراہ حکومت کی حیثیت سے وزارت عظمیٰ کی عالی مرتبت مسند پر بھی فائز ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں معاملہ خاموشی نیم رضا والا ہو جائے۔
وزیراعظم پر اعتراضات اور الزامات تین حوالوں سے کئے جارہے ہیں۔ اول یہ کہ ان کا طرز حکومت قبائلی ہے۔ اس طرز حکومت میں خاندان قبیلہ ذات برادری پر تکیہ کیا جاتا ہے۔ معترضین کہتے ہیں کہ کاروبار مملکت کسی قانون کسی دستور کسی قاعدے ضابطے کے مطابق نہیں بلکہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کے تحت چلایا جارہا ہے۔ وزیراعظم کا برادر زادہ جس اسمبلی کا رکن ہے وہ وفاق میں واقع ہے لیکن وہ صوبے کے امور پر مامور ہے۔ کسی صوبائی وزیر کا نام پیش منظر پر آتا ہی نہیں! کچن کیبنٹ یعنی بااثر اور فیصلے صادر کرنے کرانے والا حلقہ، ایک خاص جغرافیائی پٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ پٹی فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے ا ور رائے ونڈ لاہور اور گوجرانوالہ کے نواح سے ہوتی ہوئی سیالکوٹ پہنچتی ہے اور وہاں ختم ہو جاتی ہے۔ ارباب قضا و قدر جتنے بھی ہیں کیا عابد شیر علی، کیا ڈار صاحب کیا گروہ خواجگان، سب اسی پٹی کے چشم و چراغ ہیں۔ ایک استثنیٰ چودھری نثار علی ہیں جو کبھی ناراض اور کبھی راضی اور اکثر راضی بہ رضا ہیں۔ خدمات ان کی پارٹی کے حوالے سے مسلمہ ہیں۔ لیکن پٹی اور برادری کے حوالے سے میرؔ بھی خاموش نہیں اور اکثر اپنا مشہور مصرع پڑھتے ہیں ؎
مگر ایک میرؔ شکستہ پا ترے باغ تازہ میں خار تھا
عمائدین، مشیران کرام اور حلقہ بگوش جتنے بھی ہیں کم و بیش ایک ہی برادری سے ہیں اور ایک ہی شہر سے ہیں۔ کوئی وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھا بیوروکریسی کے انجر پنجر ہلا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاملات عدالتوں میں جارہے ہیں اور کوئی سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کا چیئرمین بنایا جارہا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ ایک گیس کمپنی کی ایڈوائزری کونسل کا پہلے ہی چیئرمین ہے۔
حافظ نے کہا تھا؎
چو با حبیب نشینی و بادہ پیمائی
بہ یاد دار محبان باد پیما را
یعنی جب دوست کے ساتھ بیٹھ کر خوش وقتی کررہے ہو تو ان محبت کرنے والوں کو نہ بھولو جو آوارہ پھر رہے ہیں۔ بعض تو یہاں ’’محبان‘‘ کے بجائے ’’حریفان باد پیما‘‘ لکھتے ہیں۔ اب یہ جو بادپیمائی ہے، ہوا کو ماپنا یعنی مسافرت جس میں غریب الوطنی کا ذائقہ بھی ہوتا ہے، تو فیضی نے ماں کا مرثیہ کہا تو بادپیمائی کے حوالے سے ایسا شعر کہا کہ دل چھلنی کردیتا ہے مگر اس کے بیان کا یہ موقع نہیں! یہاں تو ذکر اس الزام کا ہے کہ وزیراعظم جب بھی امور مملکت کے حوالے سے بیرون ملک تشریف لے جاتے ہیں تو پیش منظر پر ہمیشہ ان کے بھائی چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ حریفوں کا اعتراض یہ ہے کہ چین جانا ہو یا ترکی یا سابق آقائوں کے حضور انگلش چینل کے اس پار، سندھ کے وزیراعلیٰ نظر آتے ہیں نہ بلوچستان کے نہ کے پی کے، ٹی وی پر ایک معروف دانش ور نے کہ بین الاقوامی امور پر نظر گہری رکھتے ہیں یہ تک کہا کہ وزرائے خارجہ (وزیر خارجہ نہیں) ہمارے تین ہیں اور نمایاں ان میں ایک وزیراعلیٰ ہیں اس اعتراض کو کمال تب حاصل ہوا جب افغانستان کے نئے صدر تشریف لائےاور ان سے معاملات طے صوبائی حاکم اعلی نے کئے۔ یہاں تک بھی گوارا ہوتا مگر جب ایک صوبائی حکمران نے یہ اعلان کیا کہ ’’پنجاب اور کابل کے درمیان تجارت سروسز تعلیم صحت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کی گنجائش موجود ہے‘‘ اور پھر افغان صدر نے وزیراعلیٰ کو کابل کے دورے کی دعوت دی (جو دینا ہی تھی کہ وہی جلوہ فرما تھے) جو قبول کر لی گئی اور اعلان ہوا کہ جلد پنجاب سے تجارتی وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کریں گے، تو بین الاقوامی امور اور علاقائی تعلقات کے ماہرین انگشت بدنداں رہ گئے اور یہ تو کل کی خبر ہے کہ آپ قطر میں بیک وقت وزیر خارجہ اور وزیر توانائی کی حیثیت سے دیکھے گئے ہیں۔ متعلقہ وفاقی وزارتوں کا کوئی سیکرٹری یا اہلکار دور و نزدیک نہیں دکھائی دیا۔
دوسرا اعتراض جسے سن سن کر وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے ساتھ ساتھ عوام کے کان بھی پک گئے ہیں، لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے ضمن میں ہے۔ اس حوالے سے کچھ وڈیو مناظر عام ہیں جن میں کچھ تقریریں ہیں ان میں برسراقتدار آکر لوٹی ہوئی دولت دساور سے واپس لانے کے عہدوپیمان ہیں اور کچھ دھمکیاں ہیں جن میں گھسیٹنے کے فعل کو مستقبل کے حوالے سے خوب خوب استعمال کیا گیا ہے۔ رہا تیسرا اعتراض تو وہ اثاثے ظاہر کرنے کے بارے میں ہیں۔
لڑکی نے صبح اٹھ کر ماںکو بتایا کہ وہ آج سکول نہیں جائے گی۔ اس لئے کہ اساتذہ اور شاگرد سب اس سے خائف ہیں، اور وہ بور ہوتی ہے۔ ماں نے کہا تجھے جانا ہوگا۔ لڑکی نے کہا اچھا تین وجوہ بیان کرو کہ مجھے کیوں جانا ہوگا۔ ماں نے کہا اول کہ غیر حاضری بری بات ہے۔ دوم کہ پڑھائی کا نقصان ہوگا اور سوم کہ تم ہیڈمسٹریس ہو۔ فیض صاحب اور مولانا مودودی تو خاموش رہ کر گزارہ کر گئے کہ وزیراعظم نہیں تھے اور کبھی حکومت میں رہے بھی نہیں تھے۔ وزیراعظم تو وزیراعظم ہیں۔
انہیں چاہئے کہ ان الزامات اور اعتراضات کے غبارے سے ہوا نکال دیں۔ قوم کو اصل حقیقت بتا دیں کہ خواجہ سندھ سے ہوتے ہیں اور ڈار بلوچستان سے۔ عابد شیر علی سرحد سے ہیں۔ رہے برادر اور برادر زادہ تو یہ بتانے میں کیا مضائقہ ہے کہ میں ایک کو صوبے اور دوسرےکو وفاق کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے منع کرتا ہوں لیکن وہ مانتے ہی نہیں! اورہاں وہ وڈیوز جعلی بھی تو ہوسکتی ہیں۔ دعویٰ کرنے میں کیا حرج ہے! بہرطور جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں، آگ لگانے والے معترضین کو جواب ضرور دیں کہ بقول فراز
منتظر کب سے تحیرّ ہے تری تقریر کا
بات کر! تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔