گو ایودھیا میں رام مندر کے مقام پر بھومی پوجا کی تقریب کا اہتمام بظاہر رام جنم بھومی ٹرسٹ نے کیا تھا مگر وزیر اعظم نریندر مودی نے جب اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر کی موجودگی میں سنگِ بنیاد رکھا تو یہ تقریب سرکاری نوع کی تقریب بن گئی۔
یوں 5 اگست ہندتوا کے سیاسی منصوبے میں ایک اہم سنگِ میل بن گیا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لئے لوگوں کی حمایت حاصل کرنا تا کہ ایک ہندو اکثریتی ریاست تعمیر کی جا سکے، ہندتوا کی ایک مرکزی حکمت عملی تھی۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کے لئے رام مندر کی تعمیر ’قومی غیرت‘ کا مسئلہ تھا جس کے ذریعے وہ تاریخ میں ہندووں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا مداوا کرنا چاہتے تھے۔ رام ان کے لئے محض ایک مذہبی علامت نہیں بلکہ ایک قومی علامت ہے۔
ایل کے ایڈوانی کی صدارت میں بی جے پی نے 1989ء میں پالم پور قرار داد منظور کی تھی۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنایا جائے۔ ہندتوا نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر لوگوں کو متحرک کرنے کے لئے جو سفر شروع کیا اس کا نقطہ آغاز ایڈوانی کی رتھ یاترا تھی۔
اس رتھ یاترا کے نتیجے میں جو فرقہ وارانہ تشدد ہوا اس نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی جبکہ بابری مسجد گرا دی گئی اور اس وا قعے نے مزید فرقہ وارانہ تشدد کو جنم دیا۔ ان سب واقعات کے بعد مزید یہ کوشش کی گئی کہ مندر کی تعمیر کے لئے عدالتی جواز مہیا کیا جائے۔
2019ء میں جب بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آئی، سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے مقدمے کی کاروائی تیز کر دی۔ روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہونے لگی اور پھر عدالت نے حکومت کی مرضی کا فیصلہ دے دیا۔ عدالت نے بابری مسجد کے گرائے جانے کو ’قانون کی شدید خلاف ورزی‘ قرار دیا مگر ساتھ ہی اڑھائی ایکڑ اراضی مندر بنانے کے لئے مدعی کے حوالے کر دی۔
مندر کی تعمیر ہندووں کی اس اکثریت کی نظر میں ایک اچھا قدم ہو گا جو بھگوان رام کو مقدم سمجھتے ہیں مگر اس سارے واقعہ کا ایک تاریک پہلو بھی ہے…بھارتی جمہوریہ کا کردار بدل رہا ہے۔ ’جمہوریہ‘ (جس کا مطلب ہے لوگوں کی حکومت نہ کہ بادشاہت)کی اصطلاح کا مطلب اب یہ نہیں ہو گا کہ وہ سیکولر بھی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، مثال کے طور پر، اپنا جواز اسلامی آئیڈیالوجی کے ذریعے مہیا کرتی ہے۔ اسرائیلی ریاست یہودی ریاست بننے کی خواہاں ہے جس کے نتیجے میں اس کی عرب آبادی دوسرے درجے کی شہری بن کر رہ جاتی ہے۔
بھارت میں رام مندر کی تعمیر اس ملک کو ہندو اکثریتی ریاست بنانے کا منصوبہ تھا، اسے زبردست کامیابی ملی ہے۔ جن لوگوں نے بابری مسجد کو گرا کر آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیریں، انہیں کوئی سزا نہیں ملی۔
ایودھیا میں مودی نے اپنی تقریر میں رام کی شبیہہ کو ملی غیرت اور قومی اتحاد کے ساتھ جوڑ دیا۔ مودی نے رام مندر کو قومی جذبات کی علامت قرار دے دیا۔ رام مندر تحریک نے جو پر تشدد اور تفرقہ انگیز رنگ اختیار کیا اس کے پس منظر میں بھائی چارے کی بات کرنا منافقت کے سوا کچھ نہیں۔
مودی نے اپنی تقریر میں ریاست، سیاست اور مذہب کو یکجا کر دیا۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے گجرات میں سومناتھ مندر کی تعمیر پر جو نقطہ نظر پیش کیا وہ مودی سے کتنا مختلف تھا۔ انہوں نے نہ صرف مندر کی تعمیر کے لئے ریاستی فنڈز مہیا نہیں کئے بلکہ صدر راجندر پرشاد نے جب مندر کا افتتاح کیا تو نہرو نے صدر سے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔
نہرو کا اصول واضح اور کھرا تھا: ایک سیکولر ریاست کسی عبادت گاہ کی نہ تو سرپرستی کر سکتی ہے نہ اس کی تعمیر پر پیسے خرچ کر سکتی ہے۔
یہ نسلی و مذہبی قوم پرستی جو مذہبی و لسانی بنیادوں پر لوگوں کو متحرک کر رہی ہے، اس اینٹی کلونیل اور غیر فرقہ وارانہ قوم پرستی سے مختلف ہے جو ہماری جدوجہد آزادی کا خاصہ تھی، جس کے نتیجے میں ہندوستان کو آزادی ملی۔
بدلے کی سیاست کرنے والی اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی کوتاہ نظر قوم پرستی کتنی ہی مطلق العنان حکومتوں کا خاصہ ہے۔
مودی کے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے سے دو ہفتے قبل 24 جولائی کو ترک صدر رجب طیب اردگان نے استنبول کے آیا صوفیہ میں نماز جمعہ کی امامت کی۔ یہ تاریخی عمارت چھٹی صدی عیسوی میں بازنطینی شہنشاہ جسٹینین نے بطور گرجا گھر قسطنطنیہ (استنبول) میں تعمیر کرائی۔ 1453ء میں جب عثمانی خلافت کی بنیاد پڑی تو چھ سو سال بعد اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ جب کمال اتا ترک نے زوال پزیر عثمانی خلافت کا خاتمہ کر کے سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی تو 1934ء میں 1500 سال پرانی اس عمارت کو میوزیم میں بدل دیا گیا۔ گذشتہ ماہ تک فن تعمیر کا یہ شہکار ایک میوزیم تھا۔
ترکی کی حکمران جماعت اے کے پی کا مطالبہ تھا کہ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنایا جائے۔ ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت، کونسل آف اسٹیٹ، نے بات مان لی اور متفقہ فیصلے میں کہا کہ 1934ء میں کابینہ نے غیرقانونی فیصلہ دیاتھا۔ جوں ہی عدالت کا فیصلہ آیا، صدر اردگان نے اسی روز میوزیم کو مسجد کا درجہ دے دیا۔ مودی کی طرح اردگان کے لئے بھی یہ اقدام قومی غیرت کا تقاضا تھا۔
اسرائیل جہاں مودی کے نظریاتی بھائی نیتن یاہو کی لسانی و قوم پرست حکومت ہے…وہاں حرم شریف کے نیچے کئی سالوں سے کھدائی ہو رہی ہے جس کا مقصد یہودیوں کا وہ پہلا معبد تلاش کرنا ہے جو حضرت عیسیٰ سے بھی کئی سو سال پہلے تعمیر ہو اتھا۔
مسجد الاقصیٰ جسے مسلمان مکہ اور مدینہ کے بعد سب سے محترم سمجھتے ہیں، یہاں واقع ہے۔ یہودی انتہا پسند عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسجد الاقصیٰ کو گرا کر اس کی جگہ یہودی معبد تعمیر کیا جائے۔ حرم شریف یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے مقدس جگہ ہے۔ اس مسئلے پر یہودی انتہا پسند لوگو کی حمایت حاصل کرنے کے لئے عرصے سے شور مچا رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد، ہندتوا چین سے بیٹھ جائے گی۔ ان لوگوں کا خیال سراسر غلط ہے۔ ہندتوا حکمرانوں کی سیاست کا تقاضہ ہے کہ فرقہ وارایت کی آگ بھڑکتی رہے تا کہ اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط رہے۔
1992ء کے ایکٹ برائے عبادت گاہ (Places of Worship Act of 1992) میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ 15 اگست 1947ء کو جس عبادت گاہ کو جو درجہ حاصل تھا، اسی سٹیٹس کو برقرا ر رکھا جائے گا۔ ایودھیا میں اس قانون کا اطلاق اس لئے نہیں ہو سکا کہ یہ تنازعہ 1947ء سے پہلے سے چلا آ رہا تھا۔
آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کا اصل مطالبہ یہ تھا کہ نہ صرف بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جائے بلکہ کاشی اور مادھورا میں بھی مساجد کی جگہ مندر تعمیر کئے جائیں۔ 1992ء کا ایکٹ اس وقت بالکل بے معنی ثابت ہو گا جب ہندتوا والے ان تنازعات کو ہوا دیں گے۔
آخر میں ایودھیا میں بھومی پوجا کے لئے مقرر کی گئی تاریخ، یعنی 5 اگست، کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس دن ایک سال پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور دونوں حصوں کو مرکز کے تابع بنا دیا گیا۔ جو طاقتیں ہندوستان پر حکومت کر رہی ہیں، وہ انڈین یونین میں مسلم اکثریتی صوبہ برداشت نہیں کر سکتیں۔
کانگرس رہنما اور بعض دیگر سیکولر سیاست دان جو رام مندر کی تعمیر پر اب بی جے پی کے ساتھ مل کر خوشیاں منانے میں شریک ہو گئے ہیں اور رام پر ایمان لے آئے ہیں، ان کے لئے 5 اگست ایک وارننگ ہے۔ اگر ان لوگوں نے موقع پرستی نہ چھوڑی تو یاد رہے ان کی موقع پرستی محض ہندو راشٹر کے قیام کی راہ ہموار کرے گی۔
یہ آرٹیکل جدوجہد ویب سائٹ کے اس صفحہ سے لیا گیا ہے اور پرکاش کرت کے اس آرٹیکل کے مترجم فاروق سلہریا ہیں۔
“