مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں۔
ایک باپ اپنی اولاد سے جس قدر اخوت کا برتاؤ رکھتا ہے اس سے لفظوں کی تسبیح میں پرونا الموسٹ مشکل سمجھا جائے تو بھی اس احساس کا ادراک لگ بھگ مشکل ہوگا۔ دنیا کا ہر باپ اپنی اولاد میں تقسیم ہوکر قسطوں میں بٹتا اور ترتیب کے مدارج طے کرتا وحشتوں کے سارے دروازے کھولتا خود جس قدم پر گرتا ہے اولاد کے لئے ان مراحل کو آسانیوں میں دیکھنا کا خواہاں ہوتا ہے ۔ ایک باپ اپنی محبت کے لئے اظہار کی دولت سے محروم ہی نہیں بالکل اپاہج ہوتا ہے ۔ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا نرم رویہ کہیں اس کی اولاد کے مستقبل میں ان کی آسائشوں کی راہیں ہموار کرتے کرتے انہیں بگاڑ کے دہانے پر لے جاکر نہ پہنچا دے ۔ باپ اس بات سے بھی خائف رہتا ہے بلکہ اس بمبار کی اہمیت کومان کر چلتا ہے کہ اس کی کوئی سختی اولاد کی تربیت میں ان کی کمزوری نہ بن جائے ۔ اپنے کردار میں باپ ایک شخص سمجھا جانا چاہیے جو زندگی بھر سارے مصائب کا بوجھ ڈھوتا سہتا اور اف تک کہنے کی جرآت سے بھی محروم اپنی آخری سانسں کے ساتھ الفاظ کی بالکل اختتامی شکل میں بھی کسی اولاد کا نام پکارتا ہے وہ جس سرمایے کے ساتھ جن حالات میں خود پلا بڑھا وہ سب بھول بھلا کر صرف ایک باپ بننے میں کوشاں رہتا ہے ۔ ایسے بھلے انسان کے لئے پھر کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ اولاد کے تئیں اس کی محبت کے زاویے طے کیے جائیں ۔ وہ کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ ماں کی عظمت اس کی رفعت و سربلندی کے درجات تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ پاتا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ باپ کے قد اس کے ایثار اور خاموش محبت کا کوئی پیرامیٹر ہو ہی نہیں سکتا ۔ جہاں والدین میں ماں کے درجات کی تحدید نہیں وہیں اولاد کے لئے باپ وہ سرمایہ ہے جس کی سانسوں کا قرض ادا کرنے کی گستاخی کا مرتکب ، نہ کہ صرف بے وفا اور نہ محروم سمجھا جانا چاہیے بلکہ ایسے ہر ایک فرد پر خود احتسابی کا عمل اس کے حلال ہونے کی صورت میں فرض سمجھا جانا چاہیے۔
زندگی کی خوشیاں اور محرومیاں بڑھانے والے تحرکات میں اولاد اگر والد کا سرمایہ ہوجاتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اولاد ان کی ایسی زندگی میں صرف محرومیوں کے در واہ کرتے ہیں ۔ در اصل یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس کی فلسفیانہ گھتیاں نفسیاتی تفصیل کے رہین منت ہیں ۔ ایک باپ ہمیشہ اپنی اولاد میں تقسیم ہونا چاہتا ہے وہ اپنی بیٹی بیٹا کو اکیلا کسی بھی مشکل میں دیکھنا ہی نہیں چاہتا ۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ زندگی کا بوجھ اٹھانے کی عادت سے نابلد یہ معصوم اگر کسی نا مانوس فضا میں ہلکان ہوگئے تو مجھ میں موجود وہ خیال رکھنے والا، پیرادار، ہمیشہ ٹوکنے والا انسان کہیں مر جائے گا جبکہ لڑکپن پار کر کے جوانی کی طرف قدم رکھنے والی اولاد سمجھتی ہے کہ ان کا باپ ان سے آزادی و خودمختاری کا سودا کر رہا ہے ۔ ہر دو جانب ایک نئی کیفیت کا ٹکراؤ والد کو مایوسی اور اولاد کو بغاوت کی ترغیب دلاتا ہے ۔ آج کا سماج اس بنیادی ترین مسئلے کا شکار ہے جس میں فرد کی آزادی کے کھوکھلے نعروں نے اجتماعیت کے انتظام کو درہم کر دیا ہے۔ ورنہ جو باپ اپنی بیٹے کو اپنے ہی کندھوں پر اٹھا کر دنیا کو دیکھنے کی جرآت عطا کرتا تھا اور ہزارہا لغو سوالات کا بالترتیب جواب مہیا کرتا تھا وہ کیونکر اپنی اولاد کی آزادی کا سوداگر بننا چاہے گا ۔
ہم سال میں ایک بار فادر ڈے اور مدرز ڈے کا ڈھونگ تو رچاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر بھی خوب خوب پیش کرتے ہیں ۔ لیکن آج کا سچ یہ ہے کہ اولاد والدین کے حقوق ،انہی کے لئے مختص اخلاقی ذمہ داریوں اور احساسِ اخوت سے محروم ہوتی جارہے ہیں۔ ہم والدین کو بلا کسی شرط اور تحدید کے قبول کریں یہ ہماری مجبوری ہے لیکن ہم ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوں یہ فرض ہے ۔ ہم مجبوریاں تو بخوبی نبھا رہے ہیں لیکن فرائض سے کوسوں دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ مضمون باپ کی سربلندی کے مد نظر پیش کرنا صرف ایک تحریر نہیں بلکہ ہر نئے دور کی ضرورت ہوتا جارہا ہے ۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں کہ قدر و قیمت اور فضیلت و اہمیت کوئی کتابیں چیزیں نہیں بلکہ یہ ایسے احساسات ہیں جن کا فہم اور ادراک اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں پر ثبت کیا ہوتا ہے ۔ لیکن آج کے دور میں جہاں نیم عریاں فاحشہ، بد چلن ، انتظام و انصرام کی زندگی کی مخالفت میں بے شمار شر پسندانہ محاذ ان کی ٹولیاں اور گروہ بڑی ڈھٹائی سے پدرنہ سماج کی مخالفت میں مادرنہ نعرے چھوڑ رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ تاریخ کے کسی ایک لمحے میں بھی اس طرح کی تقسیم نہ تو قابلِ قدر تھی اور نہ ہی اس کے داد رس موجود تھے ایک فتنے کے سوا کیا ہوسکتا ہے ۔
باپ جس کرب سے زندگی کو جیتا ہے اس سے محسوس کرنا اگر اولاد کے لئے بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا تو فادر ڈے کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ بچہ جو اپنے والد کی تصویر کے ساتھ کیپشن میں ابا کو بس وجہ تخلیق جان کر سال بھر اس کی توہین و تضحیک کا سبب رہتا ہے، جان لیں کہ اپنے ہر نوالے میں باپ کے ماتھے سے گرنے والے پسینے کی بوند بوند کا مقروض ہے ۔ ہم ایسے سماج کی لعنت آمیز حرکت کو سراہنے کے در پہ ہیں جس نے انسانیت ،اخلاقیات اور انتظام سے خالی زندگی کو اپنے لئے آزادی خودمختاری اور سالمیت کا نام دے کر نہ جانے تاریخ کے کتنے ہی اوراق کی نافرمانیوں کا خون اپنے سر لیا ہے۔ زندگی جس کی تفصیل ماضی سے ہے اور ماضی کا سرمایہ حال کے مشاہدات سے مستقبل میں منصوبہ بندی کا وسیلہ بنتا ہے ۔ فادر ڈے کو انجوائے کرنا ایک بات ہے فیسبک وٹس ایپ پر کومنٹس اور لائق کی بھوک جس سے خود کو چاہنا یعنی نرگسیت کے شکار اپنا شعار سمجھتے ہیں دوسری بات ہے لیکن فیمنزم اور فحاشی کی رنڈ بازاری کو پرموٹ کرنا کسی صورت جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہم جس کا تخم ہیں، اس کی۔ جس نے اپنی زندگی کے ہر رنگ کو اولاد کی خوشیوں پر نچھاور کردیا اس کی، اس تیاگ کی جو بوند بوند پسینہ بیچ کر تن بدن ڈھانپنے سے پیٹ کی آگ بجھانے تک کا وسیلہ رہا اس داتا یعنی باپ کی قربانیوں کو اگر کسی نظریے ،دو چار اسکولوں میں حاصل کردہ جماعتوں کے اسناد یا سرکاری نوکری کے سٹیٹس کے زعم میں بھول چکے ہوں یا اس کے سامنے آداب و تسلیمات سے گریزاں ہوں توہمیں جان لینا چاہیے کہ اپنے مستقبل قریب میں ہی انسانیت نام کی یہ کانچ کی گڑیا ہمارے ہاتھوں سے پھسل کر چکنا چورہوجائے گی ۔ باپ تو چونکہ باپ ہوتا ہے اور بہ ہر حال باپ ہوتا ہے۔
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے