(Last Updated On: )
سرگودھا سے ایک محترم میرے دوست ہیں ۔ ذاتی کاروبار ہے اُنکا ۔ عُمر میں مُجھ سے آٹھ نو سال بڑے ہونگے ۔
بہت سال پہلے اُن کے گھر گیا ۔ تَب اُن کے پہلی تا دسویں کلاس میں پڑہنے والے پانچ بچے تھے ۔ اُس دن ہم دونوں کو اکٹھے کہیں جانا تھا تو بولے کہ غفور یار تھوڑی دیر بعد چلتے ہیں ۔ بچوں کو صبح سکول جانا ہے تو میں اُن کے کپڑے ، جوتے تیار کر لوں ۔
وہ مُحترم اندر گئے ، کپڑوں کی گٹھڑی اور اِستری اٹھا لائے اور ڈرائنگ روم میں ہی بچوں کے کپڑے استری کرنے شروع کر دئیے ۔ جیسے جیسے وہ استری کے لئے کپڑا اُٹھاتے ساتھ مُجھے بتاتے کہ یہ قمیض میری بڑی بیٹی کی ہے ، یہ پینٹ میرے چھوٹے بیٹے کی ہے ۔ چھوٹی بچی کی فراک اُٹھائی تو فراک کو سینے سے چمٹایا اور چُوم چاٹ کر بولے ۔ یہ میری نَنھی مُنی ، چھوٹی بیٹی کی فراک ہے ۔
سارے کپڑے اِستری کر کہ اُنہوں نے بڑے پیار سے ہینگرز میں فِٹ کر کے لٹکا دئیے اور پھر بچوں کے جُوتے اُٹھا لائے ۔ پالش بُرش لیا اور جوتے چمکانے شروع کر دئیے ۔ جب نرسری والی بچی کا جوتا پالش کرنے لگے تو جوتا چوم لیا ۔ بولے کہ یہ چھوٹا سا ، کیوٹ سا جوتا ، میری جان ، میری چھوٹی والی نَنھی شہزادی کا ہے ۔
میں نے کہا کہ بچوں کے یہ سب کام بھابھی کیوں نہیں کرتیں تو بولے کے اُن کی صحت کافی خراب ہے ، میں نے کہا کہ تو بچے خود کر لیا کریں ۔ بولے کہ بچے تو کہتے ہیں کہ ابو اپنا کام ہم خود کرینگے ، پر میں کرنے نہیں دیتا ۔ میں نہیں چاہتا کہ جوتے پالش کرتے میرے بچوں کے ہاتھ کالے ہوں اور دوسرا میری صحت ٹھیک نہیں رہتی ۔ آج ہوں ، کل کا کیا اعتبار ۔ بچے یاد تو کرینگے کہ ابو ہوتے تھے تو ہمارے سارے کام خود بخود ہی ہو جایا کرتے تھے ۔
اِسی دوران پتا چلا کہ اُنہوں نے بڑا بیٹا بیاہ کر علیحدہ کر دیا ، ابھی شادی لائق چار بچے اُن کے پاس ہیں ، دونوں بچیاں ٹیچنگ ٹائپ کچھ کرتیں جب کے دونوں بیٹے بزنس سنبھالتے ۔
چند سال پہلے اُن کی بیگم صاحبہ فوت ہوئیں ۔ اِسکے کُچھ ماہ بعد دوست کو فالج ہوا تو ڈاکٹرز نے خون رواں رکھنے کے لئے سٹنٹ ڈال دئیے اور اب قدرے مشکل سے ہی سہی ، لیکن چلتے پھرتے ہیں ۔
چند دن پہلے اُنہیں میرا پتا چلا کہ سرگودھا سے گزر رہا ہوں تو فون آیا کہ غفور بھائی میرے ہاں سے ہو کر جانا ۔ طیفے کے چاول چھولے کھانے چلیں گے ۔ یہ طیفے والے چاول چھولے ہم تب سے کھاتے ہیں جب شاید دو روپے کی پلیٹ ہوتی تھی ۔ میں نے کہا کہ یار ، میرے پاس وقت کم ہے ۔ تُم تیار ہو کر باہر نکلو تو میں دس منٹ میں آ رہا ہوں ۔
اُن کے دروازے پر پہنچا ۔ بڑے تَپاک سے گلے لگا کر ملے ، لیکن دوست کی حالت دیکھ کر پتا نہیں کیا ہوا ، بس دل سے ایک چینخ سی نکلتی محسوس ہوئی ۔
داغوں بھری سفید قمیض جسکے گلے یا بازو پر کہیں بھی بٹن نا تھے ۔ عجیب طرح کی نیلی پیلی رَنگت اُڑی شلوار ۔ قمیض شلوار دونوں ہی اَن دھلے اور بغیر استری کے ۔ یوں گُھچڑ مُچڑ جیسے اَبھی گھڑے سے نِکال کر پہنے ہوں ۔ پیروں میں جوتوں کے نام پر جو کُچھ پہنا ہوا چاہے تو اُنہیں جوتے کہہ لیں اور چاہے نا کہیں ۔ ؟
دوست ساتھ بیٹھ کر چنے چاول کھاتے میں سوچ رہا تھا کہ ایسے اَن دُھلے اور پھٹے پُرانے کپڑے پہنے ہوئے یہ وہ ہی کروڑ پتی باپ ہے جو بیٹی کے جوتے پالش کرتے جوتوں کو چُوم چُوم کر بتاتا تھا کہ یہ میری جان ، میری ننھی شہزادی کے جوتے ہیں اور جو بچوں کے کپڑے ایک بار پریس کرتے دو بار سینے سے لگاتا اور چار بار چُومتا تھا۔