باپ کے نام سے پہچان یا ماں کے نام سے؟
۔۔۔
بلاول بھٹو زرداری کی شناخت کا مسئلہ اُٹھا تھا تو کئی کالم آئے تھے اور کچھ لوگوں نے مدرسری یا پدرسری معاشروں کے حوالے سے بات کی تھی۔ عیسیٰ ابن ِ مریم علیہ السلام کا ذکر ہوا تھا۔ کچھ اور بڑے بڑے مشہور نام گنوائے گئے تھے جنہیں اپنی ماؤں سے شناخت ملی تھی۔
میرے لیے روز ِ اوّل سے یہ مسئلہ ایک سوال کی طرح رہا ہے۔میں نے رُتھ بینی ڈکٹ کی پوری کتاب پڑھ ڈالی مدرسری معاشروں کا مطالعہ کرتے کرتے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو خصوصاً اخلاقیات کے طالب علموں کو سکیپٹک ہونے کی دعوت دیتاہوا محسوس ہوتاہے۔ آخر کسی فرد یا قبیلے کی پہچان باپ سے ہونا کیوں لازمی ہے؟ماں سے کیوں نہیں؟
بہت سے ممکنہ جوابات قبل ازیں موجود ہیں۔ اس پر مستزاد اسلامی شریعت نے بھی پدرسری طرز ِ معاشرت کی حمایت کی ہے۔ لیکن یہ بھی قران میں ہی ارشاد ہے کہ "وللاَنساب" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس دن کوئی حسب نسب نہ ہوگا۔ ایک حدیث کی رُو سے،
قیامت کے دن ہرشخص کی پہچان ماں سے ہوگی۔
غرض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت جو میرا مدعا ہے وہ یہ ہے کہ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ معاشرے جو ماں سے چلتے ہیں اور جن کا معروف اینتھروپولوجسٹ اور سوشیالوجسٹ رُتھ بینی ڈکٹ نے سولہ سال تک، اُن کے بیچوں بیچ رہ کر مطالعہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانیت کے لیے کیونکر بہترین معاشرے نہیں ہوسکتے؟
کسی مذہب کی بنا پر کسی معاشرے کو مدرسری سے پدرسری میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ یکسر خلاف ِ فطرت ہوگا۔فرض کریں ماضی ہے۔ ایک اسلامی لشکر ان معاشروں تک پہنچ گیا ہے تو ظاہر ہے وہ ایسے معاشرے کو غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیتے ہوئے اس کی ساخت ہی بدلنا چاہینگے۔ جبکہ یہ بالکل غلط ہوگا، عقلاً بھی اور اخلاقاً بھی۔ کیونکہ جو معاشرے ماں سے چلتے آرہے ہیں ، وہ ہزاروں سال سے ہی یونہی چلتے آرہے ہیں۔
بلاشبہ ایسے معاشرے کم ہیں۔ اور زیادہ بڑی انسانی آبادی باپ سے چلنے والے قبیلہ کو ماننے والی ہے۔ لیکن آج بھی مادر سری معاشرے دنیا میں موجود ہیں۔ اسی طرح بعض پدرسری قبائل کا آغاز باپ کی بجائے ماں سے ہوا ہے، جیسے مسلمانوں میں سادات ہیں۔
چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ باپ سے چلنے والے معاشرے مطلقاً غیر فطری جبکہ ماں سے چلنے والے معاشرے عین فطری ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم باقی مخلوقات میں دیکھتے ہیں۔ دیگر انواع ِ حیات میں حشرات الارض سے لے کر پرندوں تک یہ عام دیکھا گیا ہے کہ ماں ہی تمام قبیلے کی سربرآردہ ہستی ہے۔ حشرات میں شہد کی مکھی اِس کی عمدہ مثال ہے۔ چیونٹیوں میں بھی ماں حکمران ہوتی ہے۔
سبزی خوروں میں باپ نامی کسی ہستی کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ کوئی سبزی خور نہیں جانتاکہ وہ باپ بھی ہوتاہے۔ سبزی خوروں میں صرف ماں بچوں کی کفالت کرتی ہے اور وہی اپنے بچوں کو پہچانتی ہے۔
درندوں میں البتہ اگرچہ بچے پالنے کی ذمہ داری تو ماں کی ہی ہوتی ہے اور باپ بجائے بچے پالنے کے بعض اوقات ان کا قتل بھی کردیتے ہیں لیکن سائنس یہ بتاتی ہے کہ یہ ۔۔۔۔۔۔واحد درندے ہی ہیں جو اپنے غول کی سلامتی کی غرض سے پدرسری معاشرے اختیارکیے ہوئے ہوتےہیں۔ ایک نر سارے غول کا سردار ہوتاہے اور وہ سارے غول کو اپنی اولاد اور غول کی ہر مادہ کو اپنی بیوی تصور کرتاہے۔ تو کیا یہ کہا جائے کہ انسانی معاشرت جو پدرسری ہے، درندوں کی صفات پر پروان چڑھی ہے؟
پرندوں میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی کفالت میں برابر حصہ لیتے ہیں۔ بعض زمین پر چلنے والے پرندوں میں قبیلہ کا سربراہ نر ہوتاہے جیسے مرغ وغیرہ لیکن زیادہ تر جنگلی اور اونچی پرواز کے پرندوں میں قبیلہ کی پہچان نہ نر ہے نہ مادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ دونوں یکساں طور پر سربراہ ہیں۔ کبھی وہ کبھی وہ۔
اگر موجودہ دور کے انسانی معاشروں پر نگاہ دوڑائیں تو مغرب جو زیادہ پڑھا لکھا، زیادہ سیانا، زیادہ علقمند، زیادہ سمجھدار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں تمام معاشرے تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔یعنی پدرسری سے مدرسری بنتے جارہے ہیں۔ اگرچہ حکومتوں پر آج بھی مردوں کا راج ہے لیکن فیملی سسٹم میں باپ مفقود ہوتا جارہاہے۔ امریکہ کے کسی سکول کے سروے کے بعد رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ تینتالیس فیصد بچوں کو باپ کا نام ہی یاد نہیں تھا۔ (حوالہ یاد نہیں)۔ جب میں نے یہ سنا تو فوراً میرے ذہن میں حدیث کے الفاظ آئے تھے کہ،
"قیامت کے دن سب کی پہچان مان کے نام سے ہوگی"
اگر اس تبدیلی کو منفی انداز میں اور ناپسندیدہ نظروں سے نہ دیکھا جائے تو یہی حدیث اپنے معانی اور مفہوم کے اعتبار سے دلچسپ ہوجاتی ہے۔ اگر قیامت کا دن کوئی ایک مخصوص دن نہیں بلکہ ایک سلسلہ کا نام قیامت ہے تو پھر اس حدیث کی رُو سے امریکہ میں جو بچے والدین کے ناموں سے واقف نہیں ہیں وہ روز قیامت کے ہی بچے ہیں۔
میری دانست میں قبیلہ پرستی صرف پدرسری معاشروں میں ہی ممکن ہے۔
اور یہ بات تو حتمی ہے کہ اسلام قبیلہ پرستی کے مخالف تھا۔ خود انبیأ کے سلسلہ، قصص القران، ابراہیمؑ کا بیٹے کی گردن پر چھری چلانا، یعقوب کا بیٹے کی محبت میں بینائی سے محروم ہوجانا، عیسیٰ کا بغیر باپ کے ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بنی اسرائیل کی خوفناک قبیلہ پرستی، جس کی وجہ سے آج تک دنیا بھر کی دولت آزاد نہیں اور جسے کم از کم اسلام نے ناپسند کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ "قابیل" کے غضب سے چھٹکارا ہی زمین کو ظلم و بربریت سے چھٹکارا دلا سکتاہے۔ قبیلہ پرستی کا خاتمہ ہی اسلام کا بھی مقصد تھا اور قبیلہ پرستی کا خاتمہ ہی زمینی مسائل کا آخری حل ہے۔
بچپن میں میرا ایک دوست اپنے باپ سے (کسی وجہ سے) بہت نفرت کرتا تھا اور اپنی نوٹ بکس پر بڑے فخر سے لکھا کرتاتھا،
"آصف پروین"
اور کہتاتھا یہ ہے میری ماں جس نے مجھے پہچان دی۔ میں آصف اقبال نہیں آصف پروین ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“