آٹھ سال گزر چلے __ بیگم صاحبہ کی فوتیدگی کے پانچویں رات میں نے اپنے دو سال کے دودھ پیتے بیٹے کو دوسرے کمرے سے اٹهایا اور اپنے پاس لا کر سلا دیا _ بیٹا مخصوص انداز میں چڑ چڑ , چڑپ چڑپ کرتا ہونٹ سکوڑ کر خیال ہی خیال میں ماں کا دودھ پی رہا تها _ تهوڑی دیر بعد وه جاگا اور مما مما کرتا رونے لگ گیا _ اُسے کیا پتا کہ میری ماں دنیا سے جا چکی ہے __ تب میں اپنے بیٹے کو کہہ رہا تها _ ؟
میرے ننهے منے _ مت رو _ تمہارے رونے سے میں بهی رو دوں گا _ تمہیں کیا پتا _؟ تمہاری تو صرف ماں گئ ہے _ میری تو ساری دنیا چلی گئ _ !
میرے راج دلارے _ ایسے دودھ مت پیؤ _ تمہاری ماں دور پہاڑوں کے اُس پار موجود ہے _ وہاں سے جنت کے میوے کها کر تمہارے لیے شہد جیسا دودھ لائے گی _ تم وه پینا_ میری آنکهوں کے نور , سو جاؤ _
میری جان _ مت رو _ تمہاری ماں کو اللہ پاک سے بلاوه آیا تها _ وه بہت سارے پهول لائے گی _ تمہارے جهولے میں ڈالے گی _ پهر تم اُس جهولے میں سونا _ پریاں آ کر تمہیں جهولا جهلائیں گی _
بیٹا روتا روتا گردن موڑ کر کمرے کا داخلی دروازه دیکھ رہا تها _ وہی دروازه جس راستے اُس کی امی کمرے میں آ کر اسے اٹها لیا کرتی تهی _ دروازے پر ٹکٹکی لگاتا کہ شاید میری امی آ رہی ہو _ ہمک ہمک کر دروازے کی طرف جاتا , مایوس ہو کر مجهے دیکهتا اور مزید زور سے رونے لگ جاتا _
اس رات بہت کہرا پڑ رہا تها_ میں نے بیٹے کے کپڑے چیک کئے _ وہی کپڑے تهے جو آٹھ دن پہلے میں اُسے پہنا کر بیگم کی خیر خیریت لینے سرگودها ہسپتال گیا تها_باہر سڑک پر کتے بهونکنے کی آواز آئ _ بیٹا ایک دم ڈر کر چینخیں مارتا , امی امی کرتا مجهے لپٹ گیا _
میں نے بیٹے کو کہا _ ننهے فرشتے _ میرے دل کے چین _ موت اور زندگی کے کهیل میں انسان بے بس ہے _ لیکن یاد رکهنا , ایک ماں چلی گئ _ وه ستر ماؤں جیسا تو ہے نا _ وه کبهی بهی تمہیں , مجهے , ہم سب کو تنہا نہیں چهوڑے گا _ وہی خدائے لم یزل جو ہم سب کا پالن ہار ہے _ وہی خدا جو ہم سب کی محرومیاں جان کر غم کو خوشی اور ہم سب کے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کی طاقت رکهتا ہے _ اس پر بهروسہ رکهو _
وه بہت گہری , کالی سیاه اور تاریک رات تهی , ہر طرف هو کا عالم _ بهیانک سی پن پوائنٹ خاموشی _ بیٹا روئے جا رہا تها _ میں نے اُسے کہا _ چپ کر جاؤ میری جان _ میری آنکهوں کی ٹهنڈک _ تمہاری ماں دور سات آسمانوں کے پار سے تمہیں دیکھ رہی ہے _ چپ کر جاؤ میرے لال _ تمہیں روتا دیکھ کر وه بهی رو دے گی _ اس کو تو مت رلاؤ نا پیارے _
بیٹے کا رونا اور مڑ مڑ کر دروازے کو دیکهنا جاری رہا _ وه دروازے کی طرف اپنے ننهے ننهے هاتھ کرتا انتظار میں تها جیسے اُس کی ماں آ کر اسے اٹها لے گی لیکن جب مایوس هو جاتا تو اور زور زور سے روتا _ اسی درمیان ساتھ ہی گیراج میں کہیں سے بلیوں نے آ کر بلند آواز میں لڑنا شروع کر دیا _ بیٹے نے اپنے دونوں بازو پهیلائے اور ڈر کر میرے ساتھ چپک گیا لیکن اس کا رونا جاری رہا _
میں نے بیٹے کو کہا _ نا میرے بچے _ چپ کرو _ بہادر انسان بنو _ ایک دن آئے گا تم ننهی کونپل سے توانا درخت بنو گے _ میں تمہاری چهاؤں میں بیٹهوں گا _ بہادر بنو _ اب تمہیں تمام عمر اس دکھ کے ساتھ ہی زنده رہنا ہو گا _ یونہی روتے رہے تو پهر تمہیں بہادر کون کہے گا_ ؟
اس کا رونا جاری رہا _ کبهی مجهے دیکهتا , کبهی دروازے کو _ میں نے اُسے پچکارا _ نا میرے جگر کے ٹکڑے _ اب چپ بهی کرو نا _ تمہاری بہنوں کی ڈولی پردیس گئ ہے _ اب تو ان کے ہنسنے کهیلنے کے دن ہیں _ تمہارا رونا سنیں گی تو وه بهی رو دیں گی _ چپ کر جاؤ میرے لال _ چپ کر جاؤ _
اسی دوران کمرے کا دروازه کهلا _ دونوں بڑے بیٹے میری باتیں سنتے اندر آئے اور چهوٹے بهائی کو اٹها کر اپنے کمرے میں لے گئے _ اُن سے بهائ کا رونا برداشت نا ہو سکا _
تهوڑی دیر بعد گاؤں سے بیٹیوں کا فون آیا _ وه کہہ رہی تهیں _ ابو جی آپ ہمارے بهائ کو بہت رلاتے ہیں _ اُسے ہمارے پاس چهوڑ جائیں _