سیّد محمد ناصر علی صاحب کی تازہ ترین کتاب ”بہ زبانِ قلم“ مارچ 2019ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر عوامی ملکیت بنی اگرچہ اس کے جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں لیکن جہاں تک میں محترم ناصرعلی سیّد صاحب کو جانتا اور پہچانتا ہوں وہ اس بات کے بالکل بھی قائل نہیں کہ ادبی فن پاروں سے کسی کو مستفیض و مستفید ہونے نہ دیا جائے چنانچہ وہ صلائے عام دیتے ہیں یارانِ نقطہ داں کو کہ وہ ان کی تحریروں سے استفادہ کریں اورفن و ادب کے اس تسلسل کو جاری رکھیں۔ اگر ایک اینٹ آپ آج لگائیں گے تو ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں کو ئی آپ کی اینٹ پر چند اور اینٹیں لگا دے اور یوں یہ تسلسل قائم بھی رہے اور چلتا بھی رہے۔ قبلہ ناصر صاحب کے لکھنے اور بات کہنے کا ایک خاص انداز ہے جو ہے تو نہایت سادہ لیکن دل کی تسکین اور اور شیرینی ئ اقدار سے بھرپور ہے۔ ایسا ہونا ایک فطری امر بھی ہے کہ جس خاندانِ سادات میں انہوں نے آنکھیں کھولیں اور تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوئے، یہ سب اسی کا فیضانِ نظر ہے۔
علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے
؎ یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کوآدابِ فرزندی
تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ خاندان کی reflectionہر شخصیت کی آئینہ دار رہی ہے۔ دنیا میں جتنی بڑی بڑی شخصیات گزری ہیں ان کے آباؤ اجداد کا عکس ان کی شخصیت میں کہیں نہ کہیں ضرور ظہور پذیر ہوتا رہا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محض خاندانی تعلق کی بنیاد پر اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع جاننا کوئی معنی نہیں رکھتا تا وقت کہ مذکورہ شخص خود بھی انہی صفاتِ جمیلہ و جلیلہ کی تصویر ہو۔چنانچہ میں اپنی مقادیرِ معلومہ کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ شاہ صاحب کی شخصیت اپنے آباؤ اجداد کی آئینہ دار بھی ہے اور اور بجائے خود اپنے بزرگوں کی صفاتِ جلیلہ وجمیلہ کا مظہر بھی۔ان کی ذات میں استمالیت اور مباہات کا نشان تک نہیں نیز انہوں نے کبھی اپنی استعلا جتلانے کی کوشش بھی نہیں کی۔وہ ایک منجھے ہوئے صحافی اور قلم کار ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ جچے تلے اور ادیبانہ رنگ میں ڈھلے ہوتے ہیں۔خیر یہ سب باتیں تو جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں۔ سطورِ ذیل میں مَیں اپنی تمام تر توجہ ان کی کتاب ”بہ زبانِ قلم“ پر مرکوز کرنے کی کوشش کر وں گا۔
”بہ زبانِ قلم“ کا عنوان جو کتاب کے انتہائی سرے سے نکلتا ہوا نیچے تک چلا گیا ہے،خود ہی گواہی دیتا ہے کہ اس کتاب میں قلم کی زبان سے گفتگو کی جائے گی اور ایک ایمان دار قلم کار کے قلم سے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں نکلتی جو کسی بھی طرح کا منفی رجحان لیے ہو، چنانچہ ٹائٹل پر نوکِ قلم اس بات کی شد ومد کے ساتھ گواہ ہے کہ میری نوک سے نکلے ہوئے الفاظ سچ اور حق کی آواز ہیں۔پھر صفحے کے نیچے حسبِ سابق مصنف کا نام ہے۔ گویا مصنف نے اپنی نگارشات کو زیورِ طباعت سے آراستہ کرتے ہوئے ایک ہی انداز میں اپنا نام تحریر کیا ہے جو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی کتابوں کا یہ بھی ایک حسین تسلسل ہے جسے انہوں نے قائم رکھا ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی رہے گا۔
پہلا صفحہ پلٹیے تو ”بقائی یونیورسٹی“ کالوگوقاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔ اگلے صفحے پر مصنف کا سوانحی و کاوشی تذکرہ شامل کیا گیا ہے جو قاری کو صاحبِ کتاب کے بارے چنداں معلومات فراہم کرتا ہے۔سیّد محمد ناصر علی صاحب نے اس کتاب کا انتساب اپنی اہلیہ محترمہ سیّدہ راشدہ کے نام کیا ہے جن کی رفاقت پر مصنف کو ناز ہے۔فہرس میں سب سے پہلے بقائی میڈیکل یونیورسٹی کی چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ بقائی کا پیغام ہے۔ اس کے بعد جناب ذہین عالم سروہا کی ذہانت و فطانت کا منہ بولتا تبصرہ بعنوان”دیکھئے زورِ قلم کچھ اور اب“ شامل ہے۔علاوہ ازیں معروف ادیب اورکالم نگار محترم پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تحریر ”یارِ من ناصر علی’بہ زبانِ قلم“ ہے اور پھر مصنف نے کچھ اپنے احوال رقم کیے ہیں۔
اپنے پیغام میں پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ بقائی صاحبہ لکھتی ہیں:”میری دعا ہے کہ ان کا قلم اسی طرح چلتا رہے تا کہ دوسرے پڑھے لکھوں کو بھی ان کی صف میں شامل ہونے اور قدم سے قدم ملانے کا حوصلہ ملے۔“ ذہین عالم سروہا صاحب کی شخصیت سے ادبی حلقے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ”بہ زبانِ قلم“ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’اس کتاب میں ان کے چند تراجم بھی شامل ہیں۔اگر انہوں نے خود ہی انہیں تراجم نہ لکھ کر نشاندہی کر دی ہوتی تو تحریرکی روانی انہیں طبع زاد ہی ظاہر کرتی -سچ پوچھیے تو یہی ناصر علی کے ترجمے کا حسن اور جوہر ہے۔ ترجمہ کے لئے جس زبان سے ترجمہ کیا جائے اور جس زبان میں ترجمہ ہو دونوں ہی پر عبور ہونا ضروری ہے۔ دوہری زبان دانی میں ہر دوزبان کے محاورہ اور روزمرہ کا علم ہونا بھی لازمی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو بات لفظی ترجمہ میں پھنس جاتی ہے۔ خوشی ہے کہ سید محمد ناصر علی نے اچھے ترجمہ کار کی طرح نہیں اچھے ترجمان کی طرح اپنے قلم کا استعمال کیاہے۔“
اس کے بعددورِ حاضر کے معروف ادیب اورکالم نگارپروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تحریر ”یارِ من ناصر علی’بہ زبانِ قلم“میں مصنف کی ادبی شخصیت کو موضوع بناتے ہوئے ان کے مضامین پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ادبی حلقے اس بات سے بخوبی آگا ہ ہیں کہ ان کے قلم سے الفاظ معنی لے کر اترتے ہیں اور پھر قاری کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ان کے تبصرے سے چند سطریں نذر ِ قارئین ہیں۔ ”سیّد ناصر علی میرے اسکول کے ساتھیوں میں سے ہیں۔یہ راز کوئی چھے عشروں بعد کھلا کہ ہم دونوں کا بچپن بہار کالونی مسان روڈ میں گزرااور ہم نے’غازی محمد بن قاسم اسکول‘ سے پرائمری تعلیم حاصل کی۔۔۔سیّد محمد ناصر علی خاکہ نگار بھی ہیں اور کہانی کار بھی،مؤلف بھی ہیں اور مترجم بھی۔ گویاادب کی مختلف اصناف کے اظہار کا گلدستہ ہیں۔“
مصنف کے نزدیک ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس سے دوسری اقوام کے رسم ورواج اور ثقافت و معاشرت سے آگاہی ہوتی ہے۔ چنانچہ مصنف نے ”کچھ اپنے قلم سے“ کے عنوان میں لکھا ہے۔”دنیا میں ترجمہ یا ترجمانی مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ ترجمے کا آغاز کب، کیسے اور کہاں ہوا اس کی کھوج مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔۔۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ترجمے کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔دنیا بھر میں 1991ء سے 30ستمبر کا دن ’یومِ ترجمہ‘ کے طور پر منایا جارہا ہے۔“
”بہ زبانِ قلم“میں بشمول تراجم کل بائیس مضامین ہیں جو مختلف موضوعات پرلکھے گئے ہیں۔مثلاً، ”ادب اور صحافت“ کے عنوان سے انہوں نے لکھا ہے، ”ادیب کا یہ امتیاز ہے کہ وہ اپنی سطح کو عوامی نہیں بناتا بلکہ عوامی سطح کو اپنی سطح پرلانے کی تگ ودو کرتا ہے۔ یہ عمل صحافت کے مقصد سے بالکل مختلف ہے۔عوام سے تخاطب کا عنصر نظیر اکبر آبادی کے کلام میں تو ملتا ہے لیکن غالب کے یہاں نہیں۔ ایک نے عوامکے لئے لکھا ہے اور ان کے ذوق کی تسکین کی ہے اور دوسرے نے ادب کے اعلیٰ ذوق کی آب یاری کو اپنا مقصد بنایا ہے۔صحافت کا ابلاغ، ابلاغ عامہ ہے اور ادب کا ابلاغ، ابلاغ خصوصی ہے۔ ابلاغ اور مقاصد کا یہ فرق دونوں کی زبانوں میں خود بخود خطِ فاصل کھینچ دیتا ہے۔“
اگر ان الفاظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کس خوب صورتی سے مصنف نے ادب اور صحافت کو ممیز کر دیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ صحافت نہ صرف ایک منصب بلکہ ایک ذمہ داری ہے لیکن وہ زرد صحافت کو ایک مہلک مرض سمجھتے ہیں کیونکہ یہ معاشرے میں ہیجانی پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ اپنے مضمون”زرد صحافت“ میں لکھتے ہیں،”زرد صحافت یا زرد پریس صحافت میں سنسنی خیز خبریں،مضامین،اخبارات میں شائع کرکے قاری کی بھرپور توجہ حاصل کی جاتی ہے اس ذریعے سے اخبار کی سرکولیشن میں اضافہ ہوتا ہے۔“ وہ بیسویں صدی کی صحافت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ”اخبار کی انتظامیہ کی کوششیں اس لئے زیادہ کامیاب ہوئیں کہ اس زمانے کے سیاسی معاشرتی اور اقتصادی حالات میں پڑھنے والوں کے ذہنوں نے بھی اسے قبول کیا۔ یہ ایک طرح سے ایسا عمل تھا جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے سمجھے کہ وہ محفوظ ہوگیا۔ اسے آپ یرقان زدہ ذہنیت کا اثر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کیفیت میں قاری سنسنی خیزی کے ساتھ مبالغہ آرائی اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت کی تضحیک اور تمسخر سے لطف اندوز ہوتاہے“۔اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے گویا یوں کہنا چاہیے کہ اس زرد صحافت نے آج کے نام نہاد”سوشل میڈیا“ کے ذریعے تو اپنی جڑیں اور شاخیں دونوں ہی مضبوط کر لی ہیں اور اب تو اس کا استعمال گویا محاورے سے نکل کر روز مرےمیں داخل ہو گیا ہے۔ پس سید محمدناصر علی صاحب نے صحافت پر مضامین لکھ کر ایک ایسے ناسور کی طرف اشارہ کر دیا ہے جس کو شاید فوری سرجری کی ضرورت ہے۔ ”بہ زبانِ قلم“کا پہلا مضمون ”نقطے کا نکتہ“دلچسپ پیرائے میں لکھا گیا ہے اور دونوں نقطوں کی وضاحت نکتہ دانی سے کی گئی ہے۔ دوسر ے مضمون میں مصنف نے دورِ حاضر کے اہم موضوع بچوں کی جبری مشقت کو موضوع بنایا ہے اور بقول سروہا صاحب ”اس کتاب میں موصوف نے میرے اصراراور تجویز پر دورحاضر کے گرما گرم موضوع Child Labour پر اپنا مضمون ”بچہ مزدور“ بھی شامل اشاعت کرلیا ہے۔“
”سرسید کا قومی مشن“کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے جب کہ ”تعلیم– ذریعہ فروغِ امن“ میں معاشرے میں امن کے لیے تعلیم کو بنیادی ضرورت قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس حقیقت سے کوئی مفر مکر نہیں کہ ہمارے معاشرے کی بیشتر برائیاں بشمول دہشت گردی جہالت کی بدولت ہیں۔ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔اس سے اگلے مضمون میں امنِ عالم کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اس کی ذمہ داریاں نوجوانوں کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں۔ یہ مضمون عصری تقاضوں کا مرہونِ منت ہے۔”عوام اور رائے عامہ“ میں مصنف نے لفظ”عوام“ اور”رائے عامہ“کی وضاحت مختلف حوالہ جات سے کی ہے۔
مندرجہ بالا مضامین کے علاوہ ایک اور مضمون نہایت ہی اہم موضوع یعنی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اس حوالے سے بانئ پاکستان قائدِ اعظم کے مطمع نظر پر رقم کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں 14/جولائی 1947ء کو کی گئی پریس کانفرنس کا حوالہ تاریخی ہے جس میں بابائے قوم نے فرمایا، ”اقوامِ عالم کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور دنیا میں قیام امن کے لیے دوست ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اس کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔“اس سلسلے میں انہوں نے بہت سے تاریخی حوالے دیے ہیں۔ اسی طرح اس سے اگلے دو مضامین میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصداورایشیا میں پاکستان کے کردار کو زیرِ بحث لاکر قومی خدمت کی ہے۔
”اپنی شخصیت کو پہچانئے“میں شخصیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،”سچ یہ ہے کہ جس شخصیت کے بارے میں پوچھا جارہا ہے وہ کہیں باہر سے درآمد نہیں کی جاتی بلکہ اس کا ضمیر وظہور انسان کے اندر سے ہوتا ہے۔خارجی اثرات شخصیت کے بنانے اور بگاڑنے میں البتہ اثرانداز ہوتے ہیں۔“دیگر مضامین میں ”شطرنج-کھیل یا تربیتِ حرب و سیاست“اور”کامی“شامل ہیں۔”کامی“ میں کاملہ انجم جو ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں اور بقول ناصر صاحب کامی کی شاعری ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان کے اشعار میں بلا کی جذبات نگاری ہے۔ انہوں نے کامی کی شاعری کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔ طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے محض ایک دو اشعار ہی کا بطور حوالہ پیش کیے جارہے ہیں۔
کسے خبر ہے کہ تیری رفاقتوں کا لہو
رچا ہے ہاتھ میں کامی کے اب حنا کی طرح
اور
شہرہ کامی کی وحشت کا ہے شہر میں
کون جانے یہ سچ ہے کہ الزام ہے
ان طبع زاد مضامین کے بعد سات مضامین ترجمہ کیے گئے ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں؛ ”قرآن کا اعجاز“، ”آبِ شفا زم زم“، ”سبز باغ“، ”چمنستانِ خیال“،”قیامتِ صغریٰ“، ”انوکھی وصیت“ اور ”کیا محبت اسی کو کہتے ہیں؟“ ان میں ”سبز باغ“ قدرے طویل ہے جس میں ولیم ہیری ہڈسن کے ”گرین مینشن“کی کہانی کو ”سبز باغ“ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سیّد محمد ناصر علی کی یہ تصنیف انہیں ایک کامیاب مضمون نگار کے طور پر منظرِ عام پر لائی ہے۔میں انہیں ان کی اس کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!