“کسی وقت میں میرا خیال تھا کہ زندگی کا مقصد خوشی کی تلاش ہے۔ خوشی کے لئے کامیابی ضروری ہے۔ وہ مثالی ملازمت، مثالی شریکِ حیات، ایک خوبصورت گھر۔ لیکن اس کامیابی کی تلاش نے ایک بے چینی پیدا کی اور ایک ڈیپریشن اور ایسا صرف میرے ساتھ نہیں تھا۔ میرے دوستوں کا بھی یہی تجربہ تھا۔ پھر میں نے اپلائیڈ پوزیٹو سائیکولوجی میں ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری دلچسپی اس میں تھی کہ میں جان سکوں کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو خوش رکھتی ہے۔ میں نے وہاں پر جو سیکھا، اس نے میری زندگی تبدیل کر دی۔ ڈیٹا بتاتا ہے کہ خوشی کا پیچھا کرنا ناخوشی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک اور چیز جس نے مجھے حیران کیا، وہ یہ کہ جہاں پر دنیا بھر میں ہر جگہ معیارِ زندگی میں ہر لحاظ سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہاں پر خودکشی کے رجحان میں بھی۔ وہ لوگ جو مایوس، اکیلے اور ڈیپریشن کا شکار ہیں، ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ خالی پن لوگوں کی زندگی کو کتر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جلد یا بدیر ایک احساس ہوتا ہے، “کیا بس یہی کچھ ہے؟”۔ زندگی سے مایوسی کی وجہ زندگی میں خوشی کی عدم موجودگی نہیں۔ یہ کچھ اور ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب زندگی اپنے معنی کھو دے۔
اس سے میرے ذہن میں کچھ سوالوں نے جنم لیا۔ کیا زندگی میں خوشی کے علاوہ کیا ہے؟ خوش زندگی اور بامعنی زندگی میں آخر فرق کیا ہے؟۔ خوشی ایک آسانی اور آرام کی حالت ہے۔ اس لمحے میں آسودگی ہونے کی۔ معنی اس سے گہری چیز ہے۔ معنی کا مطلب اپنی ذات سے بڑھ کر کسی سے تعلق ہے اور اپنی بہتری کا نام ہے۔ خوشی کی تلاش بے کار ہے، معنی کی نہیں۔ جن کی زندگی معنی سے بھرپور ہو، وہ زیادہ قوتِ برداشت بھی رکھتے ہیں، اپنے سکول، کالج، کاروبار اور ملازمت میں بہتر پرفارم کرتے ہیں اور عام طور پر ان کی زندگی بھی لمبی ہوتی ہے۔ تو پھر ایک بامعنی زندگی ہے کیا؟
اس سوال کے جواب میں پچھلے پانچ سال میں میں نے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ انٹرویو کئے ہیں، ہزاروں صفحات کنگھالے ہیں۔ نیوروسائنس، سائیکلوجی اور فلسفے کو پڑھا ہے۔ اس سب سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ کہ اس کے چار ستون ہیں۔ کچھ لوگ ایک سے، کچھ دوسرے سے، کچھ ان سب سے اپنی زندگی بامعنی بناتے ہیں۔
پہلا ستون تعلق ہے۔ اپنے ہونے کا، اپنی صلاحیت کا دوسروں سے تعلق۔ اس کی کچھ سستی اور بری شکلیں بھی ہیں۔ ایک ون ویلنگ کرتا لڑکا، ایک مجرموں کا گینگ۔ یہ کیوں کیا جاتا ہےَ؟ گروہی عصبیت، اپنے سے فرق لوگوں سے نفرت، یہ کیوں ہے؟ ان کی مدد سے ہم ایک تعلق قائم کرتے ہیں۔ اپنے گینگ کے لئے دوسرے کو قتل کرنا بھی معنی ہے۔ گروہی تعصب کے لئے کسی کے گھر کو آگ لگا دینا یا گالی دینا بھی معنی۔ مشترک نفرت بھی زندگی میں معنئ پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس کی مثبت صورتیں بھی ہیں۔ محبت اور اپنائیت کا احساس۔ میرا دوست ایک ہی اخبار فروش سے روزانیہ صبح اخبار خریدا کرتا ہے۔ اس دوران ہونے والے جملوں کے تبادلے ایک دوسرے کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ایک روز میرے دوست کے پاس ٹوٹے پیسے نہ تھے۔ اخبار فروش نے اصرار کیا کہ اس روز کے پیسے رہنے دے۔ مگر میرے دوست نے پیسے تڑوا کر اسی وقت ادا کئے۔ میرے دوست کے اس عمل نے اس اخبار فروش کو تکلیف پہنچائی۔ مدد لینے سے انکار کی تکلیف۔ ہم اس طرح ایک دوسرے کو اس طرح کی تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ کسی کے قریب سے بغیر سلام دعا کے گزر جانا، کسی سے بات کرتے وقت اپنے فون کو دیکھتے رہنا، یہ اس انسانی تعلق اور رشتے کو کم کرتا ہے جو زندگی کو معنی دینے کے لئے ضروری ہے۔ وہ تعلق جو ہم دونوں کی زندگی کے لئے ضروری تھا۔ اپنی فیملی، رشتہ داروں، دوستوں سے تعلق زندگی کا ایک اہم ستون ہے۔
معنی کا دوسری ستون مقصد ہے۔ مقصد کا مطلب یہ نہیں کہ ہم لیتے کیا ہیں، بلکہ یہ کہ ہم دیتے کیا ہیں۔ ہسپتال کی ایک نرس نے بتایا کہ بیماروں کا خیال اس کی زندگی کو معنی دیتا ہے۔ والدین کے لئے ان کے بچوں کے اچھی تربیت زندگی کا مقصد ہے۔ اس کا مطلب اپنی صلاحیت کو کسی دوسرے کی زندگی تبدیل کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ کئی لوگ اپنی ملازمت میں یہ کرتے ہیں، کئی گھروں میں، کئی رضاکارانہ طور پر کام میں۔ ایک بے معنی ملازمت یا بیروزگاری جیسے مسائل صرف معاشی مسائل نہیں، معاشرتی مسائل ہیں۔ اگر میری ضرورت اور اہمیت نہیں، تو پھر میں کیوں ہوں؟ مقصد ہمارے ہونے کے “کیوں” کا جواب دیتا ہے۔ آگے بڑھتے رہنے میں مدد کرتا ہے۔
معنی کا تیسرا ستون ٹرانسنڈنس (اپنی ذات سے ماورا ہونا) ہے۔ زندگی کی روزانہ کی یکسانیت سے اٹھ کر ایک بڑی حقیقت سے جڑنے کا احساس۔ عبادت، مراقبہ، آرت کو یا فطرت کو سراہنا۔ یا اپنے کام میں مگن وہ احساس جب وقت کا ادراک بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے لمحات آپ کو بدل دیتے ہیں۔ خودغرضی کو ختم کر دیتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ تعلق بنانے پر مائل کرتے ہیں۔
اس کا چوتھا ستون جو کچھ حیران کن ہو، وہ کہانی ہے۔ ہماری اپنے بارے میں ہماری اپنی کہانی۔ ہم اپنی زندگی کے مصنف ہیں۔ زندگی صرف واقعات کا مجموعہ نہیں۔ ہم ان واقعات کو خود کس طرح اپنے اُپ کو بتاتے ہیں۔ فٹ بال کے کھلاڑی ابیکا کو ایک انجری ہوئی جس سے ان کا کیرئیر ختم ہو گیا۔ اس کی ایک کہانی یہ ہو سکتی تھی کہ “فٹبال کھیلنا میری زندگی تھا۔ ایک واقعے نے سب کچھ ختم کر دیا اور مجھے بستر پر ڈال دیا”۔ جو لوگ اپنی کہانی اچھے سے برے کے سفر کے طور پر بناتے یں، وہ ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ابیکا نے وقت کے ساتھ اپنی کہانی بدلی۔ نئی کہانی کچھ یوں تھی، “زخمی ہونے سے پہلے میری زندگی بے مقصد تھی۔ پارٹی کرنے والی اور اپنے میں مست خود غرضی کی زندگی۔ زخمی ہونے سے مجھے پتہ لگا کہ میں بہتر انسان بن سکتا ہوں۔” اپنی کہانی کی یہ تبدیلی ان کی زندگی کی تبدیلی کا باعث بنی۔ انہوں نے بچوں کو سکھانا شروع کیا۔ اپنی زندگی کا مقصد تلاش کر لیا۔ زندگی کے معنی پا لئے۔ اپنے آپ کو پا لینا، کردار میں آگے بڑھ جانا، محبت، یہ ری ڈمپٹو کہانیاں ہیں۔ لیکن یہ کہانیاں بدلی کیسے جاتی ہیں؟ ان کے لئے کسی کی مدد حاصل کر سکتے ہیں یا پھر یہ ہم خود بھی بدل سکتے ہین۔ اپنے زندگی کے بارے میں ٹھنڈے دل سے گہری سوچ کے ذریعے۔ یہ ایک روز میں نہیں ہوتا۔ اپنے اندر سکون تلاش کرنے میں وقت لگتا ہے اور بعض دفعہ تکلیف بھی۔
میری خوش قسمتی یہ رہی کہ نوعمری میں میرے پاس یہ چاروں ستون موجود تھے۔ میرے والد صوفی تھے۔ مانٹریال میں ہمارے گھر میں ان کی ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ صوفی اور درویش ہمارے گھر آیا کرتے۔ ایرانی قہوہ اور کہانیاں چلتی تھیں۔ اگر کسی نے غلط بھی کیا ہے تو اس کو بھلائی سے کیسے جواب دیا۔ اس موضوع پر بات ہوا کرتی۔ یہ انہیں مقصد دیتا تھا، خاص طور پر اپنی انا کو لگام دینا۔ کالج میں چلے جانے کے بعد یہ میری زندگی سے نکل گیا۔ اسی نے مجھے زندگی میں معنی کی تلاش کے سفر پر نکلنے پر مجبور کیا۔ اب واپس اس وقت کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ معنی خیز زندگی کا ایک کلچر تھا۔
یہ ستون ہر قسم کی کمیونیٹی کو مضبوطی سے جوڑنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھی بھی اور بری بھی۔ مجرموں اور دہشت گردوں کی بھی۔ جہاں پر زندگی کو معنی ملتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے اور مرنے کے لئے۔ یہ ہمارے معاشرے کا کام ہے کہ برائی کے گروہوں میں پھنس جانے والوں کو بہتر متبادل مہیا کرے۔ خاندانوں اور اداروں کے ذریعے۔
معنی والی زندگی گزارنا محنت طلب اور مسلسل کام ہے۔ ہم ہر روز اپنی زندگی بنا رہے ہیں، اپنی کہانی لکھ رہے ہیں۔ کئی بار مایوسی کے وقت میں مجھے اپنے والد کی ایک کہانی یاد آتی ہے۔ جب میں نے کالج سے گریجویشن کی، اس سے کچھ عرصہ بعد میرے والد کو دل کا دورہ پڑا۔ اتنا شدید دورہ جو جان لیوا ہو سکتا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ موت کے دہانے کھڑے ان کے دماغ میں کیا چل رہا تھا تو ان کا جواب تھا کہ بس یہی چل رہا تھا کہ میں کچھ دیر اور زندہ رہ سکوں تا کہ تمہیں اپنے پاس ایک بار پھر دیکھ لوں۔ اس محبت نے انہیں موت سے لڑنے کے لئے قوتِ ارادی دی تھی۔ جب انہیں آپریشن کے لئے بے ہوش کیا جا رہا تھا تو وہ اپنے بچوں کے نام مسلسل دہرا رہے تھے۔ یہ مضبوط اور گہری محبت ان کی زندگی کو بامعنی بناتی تھی۔
میرے والد ایک بڑھئی ہیں اور ایک صوفی ہیں۔ یہ ایک انکساری اور عاجزی والی زندگی ہے۔ یہ ایک اچھی زندگی ہے۔ ان کے پاس زندہ رہنے کی وجہ ہے۔ اپنے خاندان سے تعلق۔ والد کے طور پر زندگی کا مقصد۔ صوفی کے طور پر اپنے ذات سے بڑی حقیقت سے جڑنے کا احساس۔ اور اپنی زندگی میں محبتیں بکھیرنے کی کہانیاں۔ یہ معنی کی طاقت ہے۔
خوشی آنی جانی چیز ہے۔ زندگی میں اچھے وقت بھی آئیں گے، برے بھی۔ معنی ہمیں زندگی کے بدلتے وقتوں اور رنگوں میں سے گزرنے کی طاقت دیتا ہے۔”
یہ ایملی اصفہانی کی کہانی ہے۔
اس کو تفصیل سے پڑھنے کے لئے یہ کتاب
The Power of Meaning: Crafting a life that Matters