عضوِ معطل غیر ضروری ہوتاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قحط الرّجال کی یہ نشانی ہے کہ راجا ہمیشہ کانا ہوتا ہے۔ اگرچہ مشینوں کی حکومت نے بحیثیتِ مجموعی تمام انسانوں کی ذہنی قابلیتوں اور صلاحتیوں کو بوجہ ترکِ استعمال محدود یا مفقود کردیا ہے۔ یونانی دیو مالا کے مطابق ایک مرتبہ تھیوٹ دیوتا نے زیوس سے کہا کہ اُس نے انسانوں کے لیے لکھنے کا فن ایجاد کیا ہے۔ اس پر زیوس نے اُسے ڈانٹا اور منع کیا کہ انسانوں کو یہ فن مت سکھاؤ، ورنہ اُن کا حافظہ کمزور ہوجائیگا۔ مگر تھیوٹ نہیں مانا اور انسانوں کو لکھنے کا راز بتا دیا۔ تب سے انسان وہ اشیأ جو حافظے میں محفوظ رکھنے کی ہوتیں کاغذ پر محفوظ کرنے لگے اور یوں زیوس کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی۔
نظریۂ ارتقأ کے مطابق وہ انواع جو ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا نہیں سیکھ پاتی فنا ہوجاتی ہیں۔ ارتقأ یہ بھی کہتا ہے کہ جو نوع آبادی میں بڑھ جاتی ہے وہ اُن انواع کے خاتمے کا سبب بنتی ہے جو آبادی میں کم ہوجاتی ہیں۔
ان قانون کی رُو سے انسان کے مستقبل کے بارے میں مختلف النوع قیاس کیے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک قیاس یہ بھی ہے کہ مشینوں کے زیادہ استعمال سے انسانی ذہن کی استعداد بحیثیتِ مجموعی بتدریج کم ہوئی ہے اور یہ مزید کم ہورہی ہے۔ اگر کم ذہنی استعداد کی حامل ایک بڑی آبادی وجود میں آگئی تو وہ اُس اقلیت کا خاتمہ کردیگی جس کی استعداد ابھی باقی ہوگی۔ غرض اس طرح وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آنے والے دور میں زمین سے ذہین لوگ بالکل ختم ہوجائینگے۔
گزشتہ چار عشروں میں ہمارے ہاں اس کا مشاہدہ نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں کثیر تعداد میں افراد کی ذہنی استعداد کم ہوئی ہے۔ انسانی ذہانت کی پیمائش کرنے کے لیے انسان کی نقل کرنے کی جبلت کا بغور مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ نقل کی اہلیت ارتقأ یافتہ مخلوقات کو حاصل ہے۔ بچہ جب نقل کرنا شروع کرتا ہے تو اس کی ذہانت واضح ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کتنا قابل نقال ہے۔ جانوروں بندر صرف ایک بار دیکھ کر نقل کرسکتا ہے۔ کتا یا دیگر جانور نقل کرلیتے ہیں مگر بہت مشکل سے۔یہی وجہ ہے کہ اداکاری کرنا ہر انسان کو کسی نہ کسی رنگ میں ہمیشہ لبھاتا ہے۔
جبکہ نقل کا عمل مشینوں کے سپرد کرنے کے بعد اگر انسان اس جبلت سے بوجہ ترکِ استعمال محروم ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اس کے امکانات بہت کم ہیں۔
القصّہ! بحیثیتِ مجموعی تمام انسان اور خصوصی طور پر انڈر پریشر اقوام نے مشینوں کا استعمال بڑھایا اور اپنی ذہنی استعداد کو تیزی کے ساتھ کم کیا ہے۔ رہی سہی کسر ادویات کے غیر فطری نظام نے پوری کردی ہے۔
بات تو وہی نکلی نا۔ عضؤ کا استعمال ترک کرو تو وہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ یہ لامارک کا نظریہ ہے، ڈارون کا نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔