عذرا عباس کی شاعری: محمد حنیف کے مضمون کا ترجمہ
شاعری کا سنجیدہ یا شوقیہ مطالعہ کرنے والے ان مردوں اور عورتوں کی پوری ایک نسل موجود ہے جس نے پہلی بار عذرا عباس کا مجموعہ ’’میز پر رکھے ہاتھ‘‘ اٹھایا ، ان کے دل پر ایک گھونسا سا لگا، پھر انھوں نے یہ مجموعہ دوبارہ سے پڑھا اور حیران ہوئے کہ جدید شاعری ایسی کب سے ہو گئی۔ میں بھی اسی طرح کے احساس سے گزرا اور میری سمجھ میں نہ آیا کہ عذرا عباس کو فیض، راشد، مجید امجد یا پھر ابھرتی ہوئی شاعرہ فہمیدہ ریاض یا بلند آہنگ اور نراجی جون ایلیا کے درمیان کہاں رکھوں۔ ایک سینئر شاعر نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ بڑی شاعری کو پہچاننے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے پڑھی ہوئی کسی شاعری کی یاد نہ دلائے۔ میں نے اس سے پہلے زیادہ شاعری پڑھی تھی نہ بعد میں، مگر عذرا عباس کی عجیب اور بار بار یاد آنے والی نظمیں ان کی کتاب بند کرنے کے کافی دیر بعد بھی میرے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ اور کبھی کبھار میں اپنے ہاتھ میز پر رکھے اس نظم کی تمثالیں یاد کرنے کی کوشش کرتا جو میں نے میز پر رکھے ہاتھوں کے بارے میں پڑھی تھی۔
بیس سال پہلے میں نے نیوزلائن میگزین کے لیے عذرا عباس کا انٹرویو کیا تھا اور ایک ستارے کے مداح کی حیثیت سے ان سے وہ سوال کیا جو شوبز انٹرویو میں عام طور پر کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر آپ شاعری نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟ یہ ایک بے وقوفانہ سوال تھا کیونکہ وہ پہلے ہی شاعری کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کر رہی تھیں۔ وہ کراچی کے ایک کالج میں کل وقتی استاد تھیں، اساتذہ کے حقوق کے لیے ایک انتہاپسند قسم کی کارکن تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ چار چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی پال رہی تھیں جو حیران کن حد تک باصلاحیت اور توانائی سے بھرپور تھے اور جن میں سے دو بچے جڑواں تھے۔ انھوں نے مجھے جو جواب دیا وہ میرے انٹرویو کی شہ سرخی بنا۔ ’’اگر میں شاعری نہ کر رہی ہوتی تو میں ایک دہشت گرد ہوتی۔‘‘ انھوں نے بالکل سپاٹ چہرے کے ساتھ کہا تھا جیسے وہ مجھے بچے پالنے سے متعلق کوئی سامنے کی ٹپ دے رہی ہوں۔ ان دنوں دہشت گردی فیشن میں نہیں تھی۔ دہشت گردی ان دنوں آئرستانی اور فلسطینی حریت پسندوں سے منسلک کی جاتی تھی یا پھر یورپ میں کہیں کوئی ریڈ بریگیڈ ہوا کرتا تھا، اس سے۔
دو دہائیوں بعد ان کے تازہ ترین شعری مجموعے ’’اندھیرے کی سرگوشیاں‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ انھوں نے دہشت گردی سے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ ایسا بے جا نہ تھا۔ وہ کاغذ کے ورق پر چھوٹے چھوٹے دھماکے کرنے پر ضرور یقین رکھتی ہیں۔ وہ ان چھوٹے چھوٹے دھماکوں کی مدد سے دنیا کو تبدیل کر دینے پر یقین رکھتی ہیں یا کم از کم اس کا چہرا بگاڑ دینے پر۔ اور جب انھیں اس بات پر یقین آتا ہے کہ ان کی شاعری دنیا کو تبدیل نہیں کر سکتی، بلکہ ان کے قاری کو بھی، تو وہ دعائوں اور لعنتوں پر اُتر آتی ہیں، جو بجائے خود شاعری ہی کی ایک اعلا قسم ہے۔
کبھی کبھار ان کی نظمیں موسم سے متعلق کوئی انتباہ بن جاتی ہیں، اور کبھی کبھار چیختی چلاتی تیلیاں، کبھی خاموش سی دعائیں اور کبھی احتجاجی نعرے اور کبھی کبھی ایسے لطیفے جو ایسے واضح اور دل سے محسوس کیے ہوئے لگتے ہیں کہ ایک ہی صفحے پر آپ مسکرا بھی دیتے ہیں اور اپنا دل بھی تھام کر رہ جاتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اتفاقیہ شاعر کوئی نہیں ہوتا مگر عذرا عباس اپنی شاعری کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتی ہیں۔ وہ اپنی شاعری کو اتنی زیادہ سنجیدگی سے لیتی ہیں کہ ہمارے جرنیل اپنی جنگوں کو بھی اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے ہوں گے۔ وہ اپنی شاعری کی جادوئی طاقت کے بارے میں اس سے زیادہ یقین رکھتی ہیں جتنا کوئی فرقہ پرست ملا اپنے وعظ پر رکھتا ہوگا، یا جتنا ہماری گلی کا کوئی سیاست دان اپنے جھوٹ پر رکھتا ہو گا۔ وہ شاعری کی ہیئت ، اپنے موضوعات اور اپنی نظموں کی قرات کے بارے میں تردد کرتی ہیں۔ اور اگر کوئی ایسا نایاب دن آ جائے جب ان کی شاعری کہیں اٹک جائے تو پھر وہ شاعری کے دیوتائوں سے دعائیں کرتی ہیں اور یہ دیوتا ان کی بات مان بھی جاتے ہیں کیونکہ شاعری کے دیوتا جانتے ہیں کہ وہ ان کی قبولیت یا عدم قبولیت کی پرواہ کیے بغیر لکھنا جاری رکھیں گی۔
اندھیرے کی سرگوشیاں میں شامل ان کی نظموں میں موضوعات، آوازوں اور ہیئتوں کی ایک حیرت انگیز رینج ملتی ہے۔ ٹماٹر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہوں یا کشتی میں جھپکی لیتاہوا سمندر ، ان کا تخیل انھیں ان جگہوں پر لے جاتا ہے جنھیں کوئی روایتی شاعر زیادہ شاعرانہ نہ سمجھتا۔
وہ اپنے سیاسی ہونے پر بھی معذرت خواہ نہیں اور جب وہ شاعری سے کھیل رہی ہوں تب بھی سیاسی ہوتی ہیں۔ ان کی نظمیں کاغذ پر کوئی رقص سا کرتی ہیں۔ کبھی کبھار ان کی نظم میں کوئی لطیفہ سا ہوتا ہے جس کے بعد ہمارے لبوں سے ایک بے ساختہ سا قہقہہ ابھرتا ہے۔ کبھی کبھار ان کی نظمیں بس ایک آہ بھر کر ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بڑی حد تک آگاہ ہیں۔ ان کی نظموں میں سگریٹ نوش اپنے نہ سلگائے ہوئے سگریٹ سونگھتے ہوئے، خواتین اپنے گھر میں آنے والی چڑیوں کو ممتا کے راز بتاتے ہوئے اور موت کے سوداگر اپنے عیش و عشرت کے محلات میں ڈرائی فروٹ کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ قسم کی عورت وہ ہے جس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور اس پر الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے گناہ چرا رہی ہے۔ ایک صفحے پر وہ یہ خواہش ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ کسی ہجرت کرنے والے راج ہنس کے ساتھ اڑتی چلی جائیں اور دوسرے صفحے پر وہ ایک ایسے ملک کے بارے میں پریشان نظر آتی ہیں جو کومے میں چلا گیا ہے اور کوئی ایسا نہیں جو اس کے رخساروں پر چٹکی بھر کر اسے ہوش میں لا سکے۔
ان کے شعری جہان میں ان کی ذات اور سیاست کے درمیان تفریق کی لکیر موجود ہی نہیں۔ وہ اپنے اردگرد پھیلی زندگیوں کو یوں موضوع بناتی ہیں جیسے وہ اپنی سوانح عمری لکھ رہی ہوں۔ پھر وہ اپنے انتہائی نجی قسم کے محسوسات کا تذکرہ یوں کرتی ہیں جیسے قوم سے خطاب ہو رہا ہو۔ وہ چھوٹی چھوٹی اور سادہ سی لائنوں کی مدد سے ایک پوری دنیا تخلیق کر ڈالتی ہیں اور آپ کو شاعری کے جادو کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور انسانی تخیل پر آپ کا اعتماد پختہ کر دیتی ہیں۔ وہ شہر میں بارش کے امکان کا تذکرہ یوں کرتی ہیں جیسے ساری کائنات میں مسئلہ بس اب یہی رہ گیا ہو۔ وہ بتاتی ہیں کہ شہر بارش کے لیے کیسے تیاری پکڑ رہا ہے۔ گٹر ان لوگوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں جو بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو جائیں گے، ٹوٹتی پھوٹتی چھتیں ہیں جو کھلے منھ کے ساتھ قہقہے لگا رہی ہیں اور ہاں پیاسی سڑکیں بھی تو ہیں۔ پھر بادل نیچے دیکھتے ہیں اور شہر میں اپنے استقبال کی تیاریاں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن بارش کی امید ایک خیالِ خام ثابت ہوتی ہے جس پر ہر شخص نے یقین کرنا چاہا تھا، جیسے ہر شخص زندگی پر یقین رکھنا چاہتا ہے، جیسے ہر شخص شاعری پر یقین رکھنا چاہتا ہے۔
http://www.dawn.com/news/1311146/poetry-incendiary-verses
“