بیس سالہ عزیزن کو کوئی جا کر بتائے کہ ابھی ہم زیادہ اہم مسائل میں اْلجھے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس کا مسئلہ سنگین ہے۔ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا، پتھر بھی سنے تو پگھل جائے۔ فرشتوں کا بس چلے تو آسمان سے چٹانیں برسائیں لیکن انہیں حکم نہیں دیا جا رہا۔ حکم دینے والا رسی کو ڈھیل دے رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ عزیزن کا مسئلہ سنگین ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم کہیں اور پھنسے ہوئے ہیں۔
ہم فی الحال عالم اسلام کی قیادت میں مصروف ہیں۔ چیچنیا ہو یا عراق، افغانستان ہو یا فلسطین، سب ہمارے مسئلے ہیں۔ ہم نے ان سارے ملکوں کے مجاہدوں کو اپنے ہاں پناہ دینی ہے۔ ہمارے مدرسوں میں پوری دنیا کے طالبان علم نے آ کر پڑھنا ہے۔ سعودی عرب اور مصر کی ہمارے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟ عالم اسلام کی زمام تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم فیصلہ کرینگے کہ جہاد کہاں ہونا ہے اور کہاں نہیں ہونا اور یہ اہم تر مسائل ہمیں اس قدر الجھا رہے ہیں کہ ہم ابھی عزیزن کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔
عزیزن اگر اس خوش فہمی میں ہے کہ اس ملک کے علماء کرام اسکے مسئلے کی سنگینی کی وجہ سے آسمان سر پر اٹھا لیں گے تو وہ بہت سادہ لوح ہے یہ درست ہے کہ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا، کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا یہ نہ صرف اسکے ساتھ بلکہ اسلام کیساتھ بھی ایک وحشیانہ بے ہودگی ارتکاب ہے لیکن افسوس! کہ ہمارے علماء کرام فی الحال فارغ نہیں۔ وہ ابھی بہت زیادہ مصروف ہیں۔ ابھی وہ یہ طے کر رہے ہیں کہ کون کون سے مسلمان کافر ہیں اور کن کن مسلمانوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ ابھی وہ اس مخمصے میں ہیں کہ پگڑی کا رنگ کیا ہونا چاہئے اور کرتے کی لمبائی کتنی ہونی چاہئے اور آمین بلند آواز سے کہنی چاہئے یا آہستہ، ابھی تو ہمارے علماء کرام اس پریشانی میں ہیں کہ انکی اولاد انکی زندگی میں کس طرح ان کی گدی پر براجمان ہو جائے اور جانشینی خاندان کے اندر کس طرح رہے اور وہ بیرونی دوروں پر کس طرح جائیں اور انہیں وزیروں والا پروٹوکول کس طرح ملے ابھی تو علماء کرام بم دھماکوں میں شہید ہونیوالے معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کے خونِ ناحق کو ’فتنہ‘ سے تعبیر کرنے میں مصروف ہیں اور اس فکر میں ہیں کہ کہیں انہیں سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے پر مجبور نہ کر دیا جائے۔ وہ تو ابھی خلق خدا کے قتل عام کو ’’فتنہ‘‘ قرار دیکر خاموش رہنے میں مصروف ہیں۔ خاموشی سے بہتر مصروفیت آخر ہو بھی کیا سکتی ہے! ابھی عزیزن کو کوئی جا کر سمجھائے کہ علماء کرام سے امید نہ رکھے۔ انکے پاس اسلام کی اس مظلوم بیٹی کیلئے ایک ثانیے کا ہزارواں حصہ بھی نہیں!۔
عزیزن اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ ملک کے سیاستدان اسکی فریاد پر لبیک کہیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے۔ انکے پاس اتنا وقت کہاں کہ اس اندوہناک ظلم پر توجہ دیں اور ملک کی ایک بیٹی کے ساتھ ہونیوالے شرم ناک واقعے کی زبانی ہی مذمت کر دیں۔ وہ تو ابھی این آر او کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ وہ تو ابھی اس فکر میں ہیں کہ کہیں انہیں ہڑپ کئے ہوئے قرضے نہ واپس کرنے پڑیں۔ ان میں سے کوئی تو اس پریشانی میں ہے کہ ایوانِ صدر یا ایوان وزیراعظم میں اپنا قیام کس طرح طویل سے طویل تر کرے اور کوئی اس جہاد میں مصروف ہے کہ کس طرح تیسری بار وزیراعظم بن جائے۔ کوئی اس جوڑ توڑ میں لگا ہوا ہے کہ اسکے صاحبزادے نے جو زمیناور جو رقم ہتھیائی ہے، اس کا حساب نہ ہو سکے اور کوئی اس پْخت و پْز میں ہے کہ اگلے انتخابات میں اس کا لخت جگر کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے۔ دن کے دو بجے بیدار ہونیوالے سیاستدان شام کی رنگینی میں اتنے ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو مقابلے کے بغیر اعلیٰ عہدوں پر پہنچانے کے علاوہ کسی کام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ عزیزن کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا مسئلہ کتنا ہی سنگین اور شرمناک کیوں نہ ہو۔ ہمارے سیاست دانوںکے پاس اس کیلئے کوئی وقت نہیں!۔
اور اگر زخم زخم عزیزن سول سوسائٹی سے امید لگائے بیٹھی ہے تو وہ اسے مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ سول سوسائٹی ابھی ماحولیات اور اس قبیل کے دوسرے زیادہ ضروری مقاصد کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ابھی تو سول سوسائٹی ان این جی اوز میں لگی ہوئی ہے جن کے عہدیدار خاندانوں ہی کے افراد ہیں اور جہاں جتنی گرانٹیں حکومت سے ملتی ہیں اور جتنے عطیات بیرون ملک سے آتے ہیں، سب اندر خانے ہی رہتے ہیں۔ سول سوسائٹی غریبوں کیلئے امیرانہ تقاریب کرنے میں مشغول رہے۔ ایک دور افتادہ گوشے میں رونما ہونیوالے المیے کیلئے سول سوسائٹی کے فیشن زدہ ارکان فی الحال کچھ کرنے سے قاصر ہیں!۔
بیس سالہ مسلمان عزیزن کشمور کے ایک گاؤں میں رہتی ہے۔ اسکے گاؤں کا نام بدانی بھٹو ہے۔ اس کے مرحوم باپ کا نام اللہ بخش بھٹو تھا۔ جس پچاس سالہ شخص نے بولی دیکر اسے خریدا ہے اس کا نام بلاول بھٹو ہے اور بولی لگا کر نیلام میں کامیاب ہونے کے بعد بلاول بھٹو نے عزیزن کیساتھ جن مولوی صاحب سے نکاح پڑھوایا ہے ان کا اسمِ گرامی نامِ نامی حضرت مولانا عزیز اللہ بھٹو ہے۔ بیس سالہ عزیزن کو کچھ عرصہ قبل طلاق دے دی گئی تھی کیونکہ اس پر کاروکاری کا الزام تھا! وہ دو بچوں کی ماں ہے اور اپنے بھائی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اسی بھائی نے اپنے گاؤں میں بہن کی فروخت کیلئے نیلامی کا انعقاد کیا ہے۔ یہ نیلام… نیلام عام تھا جسے فرنگی زبان میں اوپن آکشن کہتے ہیں! فرزندانِ اسلام نے بڑی تعداد میں اس نیلام میں دلچسپی لی۔ بولی پچاس ہزار روپے سے شروع ہوئی اور دو لاکھ ستر ہزار روپے تک جا کر ختم ہوئی۔ کامیاب بولی دینے والا بلاول بھٹو اسی گاؤں کا سپوت ہے۔ اس نے دو لاکھ دس ہزار روپے اسی وقت ادا کر کے اپنے کھرا ہونے کا ثبوت دیا۔ اس کے بعد حضرت مولانا عزیز اللہ بھٹو۔ مد ظلہم العالی نے نکاح پڑھایا۔ بقایا ساٹھ ہزار روپے ادا کرنے کے بعد بلاول بھٹو اپنی خریدی ہوئی دلہن کو لے جا سکے گا۔
ڈول جائیں گے ترے بازو ترازو کی طرح
اور ہم نیلام ہو جائیں گے تیرے سامنے
لیکن ابھی آپ نے مکمل خبر نہیں پڑھی۔
نیلام برپا کرنیوالا بطلِ جلیل، عزیزن کا اکلوتا بھائی نہیں تھا! اسکے اور بھائی بھی ہیں۔ روزنامہ نیشن نے بھائیوں کی تعداد اور نام نہیں لکھے لیکن خبر کا حاصل یہ ہے کہ بہن کی نیلامی سے ملنے والی آمدنی سارے بھائیوں میں برابر تقسیم ہوئی! اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھائی کتنے انصاف پسند ہیں!۔
سادہ لوح عزیزن یہ سمجھ رہی ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنیوالی اس مملکت کے اس المیے پر درو بام لرز جائینگے۔ کہرام مچ جائیگا، مسلمانوں کی غیرت جوش مارے گی اور انصاف کا لمبا ہاتھ مجرموں کو گردن سے پکڑ لے گا لیکن جس ملک میں ونی، کاروکاری اور پنچایت کے آئے دن کے فیصلے عورتوں کی خریدو فروخت کر رہے ہوں۔ وہاں عزیزن کی نیلامی کون سی بڑی یا بری خبر ہے! یوں بھی ہم تو عالم اسلام کی قیادت میں مصروف ہیں۔ وہ دیکھیے۔ سامنے ٹیلی ویژن پر ٹاک شو ہو رہا ہے۔ ایک صاحب پورے کرۂ ارض پر جھنڈا لہرانے کا عزم کر رہے ہیں!