آج – ٣٠ ؍جولائی ١٩٣٥
صفیؔ لکھنوی کے شاگردوں میں شامل، لکھنؤ میں کلاسکی غزل کے ممتاز استاد شاعر” عزیزؔ لکھنؤی صاحب “ کا یومِ وفات…
عزیزؔ لکھنوی اپنے عہد میں اردو فارسی کے چند بڑے عالموں میں تصور کئے جاتے تھے ۔ ان کا نام مرزا محمد ہادی تھا ، ١٤ مارچ ١٨٨٢ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے اسلاف شیراز سے ہندوستان آئے تھے ، پہلے کشمیر میں سکونت اختیار کی بعد میں شاہان اودھ کے دور حکومت میں لکھنؤ منتقل ہوگئے ۔ عزیز کا خاندان علم وفضل کیلئے مشہور تھا ۔ عزیزؔ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ، سات برس کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا لیکن تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ۔ امین آباد ہائی اسکول میں اردو و فارسی پڑھائی بعد میں وہ علی محمد خاں مہاراجہ محمودآباد کے بچوں کے اتالیق مامور ہوئے اور ساری زندگی اسی سے وابستہ رہے۔
عزیز نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ غزل کے علاوہ نظم اور قصیدہ ان کے تخلیقی اظہار کی اہم صورتیں ہیں ۔ قصیدے میں وہ ایک امتیازی حثیت کے مالک ہیں ۔ شکوہ الفاظ ، علوتخیل ان کے قصائد کی خصوصیات ہیں ۔ شاعری میں صفیؔ لکھنوی سے شاگردی کا شرف حاصل رہا ۔
عزیزؔ لکھنؤی، ٣٠ ؍جولائی ١٩٣٥ء کو وفات پائی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر عزیزؔ لکھنؤی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
جلوہ دکھلائے جو وہ اپنی خود آرائی کا
نور جل جائے ابھی چشمِ تماشائی کا
—
وہی حکایتِ دل تھی وہی شکایتِ دل
تھی ایک بات جہاں سے بھی ابتدا کرتے
—
اسی کو حشر کہتے ہیں جہاں دنیا ہو فریادی
یہی اے میر دیوان جزا کیا تیری محفل ہے
—
انتہائے عشق ہو یوں عشق میں کامل بنو
خاک ہو کر بھی نشان سرحدِ منزل بنو
—
لائی نہ میکدے سے واپس عزیزؔ تجھ کو
یہ حکمت و تصوف یہ اولیا پرستی
—
پرتو حسن کہیں انجمنِ افروز تو ہو
دل پر داغ مرا مایۂ صد سوز تو ہو
—
تری کوشش ہم اے دل سعئ لا حاصل سمجھتے ہیں
سرِ منزل تجھے بیگانۂ منزل سمجھتے ہیں
—
حُسنِ عالم سوز کا فیضِ تجلی عام ہے
ایک اک ذرہ یہاں مسجود ہونا چاہئے
—
چشمِ ساقی کا تصور بزم میں کام آ گیا
بھر گئی شیشوں میں مے گردش میں خود جام آ گیا
—
دل کشتۂ نظر ہے محرومِ گفتگو ہوں
سمجھو مرے اشارے میں سرمہ در گلو ہوں
—
کر چکے برباد دل کو فکر کیا انجام کی
اب ہمیں دے دو یہ مٹی ہے ہمارے کام کی
—
جزر و مد حسن کے دریا میں نظر آتا ہے
قابلِ دید ہے عالم تری انگڑائی کا
—
یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں
فقط اس لیے یہ حجاب ہے کہ کسی کو تاب نظر نہیں
—
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
—
غلط ہے دل پہ قبضہ کیا کرے گی بے خودی میری
یہ جنس مشترک ہے جو کبھی ان کی کبھی میری
عزیزؔ لکھنوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ