(Last Updated On: )
اُردو ادب میں کتب اور مجلات کے پیش لفظ،مقدمہ اور دیباچہ نگاری کے ابتدائی نقوش تقریظ کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔سر سیّد احمد خان کی تصنیف ’’ آثار الصنادید‘‘پر غالب ؔ نے جو تقریظ لکھی وہ اس سلسلے کی اوّلین مثال سمجھی جاتی ہے ۔ اُردو ایک زندہ زبان ہے جس کے ادب کا مطالعہ کرتے وقت قارئین چشمِ تصور سے اُن تخلیق کاروں کو مصروف عمل دیکھتے ہیں جنھوں نے کٹھن حالات میں بھی تخلیق ِ ادب سے وفا کی مشعل فروزاں رکھی ۔ عزیز جبران انصاری کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلے ’’بیلاگ ‘‘ نے قارئین ادب میں عصری آ گہی پروان چڑھانے کے سلسلے میںجو فقید المثال خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کے اورا ق میں آب ِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ عالمی شہرت کے حامل پاکستان کے ممتا زصحافی ،ماہر تعلیم ،نقاد ،محقق ،فلسفی ،ادیب،شاعر اور ماہر علم بشریات پروفیسر عزیز جبران انصاری ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے گزشتہ نصف صدی سے پرورش ِلوح و قلم میںمصروف ہیں۔ معاشرتی زندگی کی درخشاں روایات اور انسانی اقدار کااحترام اور جذبۂ انسانیت نوازی سے قلبی وابستگی اُن کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔اُنھوں نے جن اخبارات و جرائد میں لکھا اُن میں یادگار سکھر ،روزنامہ حریت ،کراچی ،روزنامہ مشرق ،کراچی،روزنامہ سفیر ،حیدر آباد ،روزنامہ دیانت ،حیدر آباد ،روزنامہ کلیم ،سکھر اور سہ ماہی بیلاگ ،کراچی شامل ہیں ۔ ادبی مجلہ بیلاگ میں شامل تیکھے کالم ایک ایسا دھنک رنگ منظر سامنے لاتے ہیں جس میں ادیان ِ عالم ،علم عروض ،سوانح نگاری ،شاعری ،افسانہ ،تحقیق و تنقید ،تاریخ ،فلسفہ ،سیاست ،نفسیات اور علم بشریات جیسے اہم موضوعات پر کُھل کا اظہار ِخیال کیا گیاہے ۔ مختلف مو ضوعات پر اُن کے تیکھے کالم متعدد چشم کُشا صداقتوں کے آئینہ دار ہیں ۔اُن کی تحریریں علمی وقار ،ادبی شان ِ استغنا ، شائستگی ،سنجیدگی اور عالمانہ جاہ و جلال کی مظہر ہیں ۔انھو ںنے خلوص ،وفا ،ایثار اور درمندی کو زاد راہ بنا کر جس موضوع پر بھی اپنے اشہب ِ قلم کی جو لانیاں دکھائی ہیںحق و انصاف کا علم بلند رکھا ہے ۔وہ اکثر پس منظر میں رہتے ہیں اور ذاتی حوالوں سے بالا تر رہنا اُن کا شعار ہے ۔اُن کی مستحکم شخصیت کی کشش اور جاذبیت کا راز اُن کی بے لوث محبت اور بے باک صداقت میں پنہاں ہے ۔اُن کے لکھے ہوئے تیکھے کالم افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی جانب عازم سفر ہونے کی ایک درخشاں مثال ہیں ۔ موضوعاتی تنوع اور ندرت بیان کے اعتبار سے تیکھے کالم گلشنِ ادب میں تازہ ہوا کا ایک جھونکاہیں۔تیکھے کالم کی تخلیق کو تحقیق و تنقید کی ایک منفرد صورت سے تعبیر کیا جا سکتاہے ۔ گلشنِ ہستی میں پا بہ گِل وہ ثمر دارنخلِ تناور جو ہمارے سر پر سایہ فگن ہے اورہمیں آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتاہے وہ روایت سے عرق زندگی کشید کرتا ہے ۔عزیز جبران انصاری نے ہمیشہ ادب کی روایات کی پاس داری کی ہے ۔ وہ جانتے ہیں یہ ادبی روایات ہی ہیں جوتخلیق کار کے احساس و ادراک کو ایسی جہات سے آ شنا کرتی ہیں جن کے اعجاز سے عصری آ گہی پروان چڑھتی ہے اور اسلوب کو انفرادیت نصیب ہوتی ہے ۔تیکھے کالم نئے انداز سے لکھے گئے ایسے وقیع فن پارے ہیںجن کا آہنگ انھیں پہلے سے موجود تجزیاتی مضامین سے مربو ط کر کے ایک نئی شان عطا کرتاہے ۔تہذیب الاخلاق ، کامریڈ، ہمدرد،زمیندار ،افکار ،نقوش ،فنون ،اوراق، اقدار ،نمک دان ،چٹان ،لیل و نہار ،ساقی ، مباحثہ ،نیادور ،شب خون ،سیپ ،تشکیل ،شمع،سبق اردو ، سفیدچھڑی ،صدائے اردو ، اور زعفران نے قارئین ادب کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا جو اہتمام کیا تیکھے کالم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ تیکھے کالم دو جلدو ںمیں شائع ہو چُکے ہیں ۔ان کی اشاعت سے اُردوتنقید کی ثروت میں اضافہ ہو گا۔
قدرت ِ کاملہ کی طرف سے عزیز جبران انصاری کو علوم کی متاع ِ بے بہا اور حاتم طائی جیسی سخاوت سے نوازا گیا ہے۔ اپنی اس دولت ِ خداد اد کو وہ اِس فیاضی سے تقسیم کرتے ہیں کہ ان سے فیض یاب ہونے والے اش اش کر اُٹھتے ہیں۔ اپنے تجزیاتی مضامین میں عزیزجبران انصاری نے معاصر ادب کی نمائندہ تحریروں کے بارے میں غیر شخصی انداز میں اپنی بے لاگ رائے دی ہے ۔اُن کے تجزیاتی انداز سے نہ صرف عصری آ گہی کو پروان چڑھانے میں مدد ملی ہے بل کہ ایک ایسے ربط باہمی کو نمو مِلی ہے جس سے فکر و خیال کی استعدا د کو مہمیز کیا جا سکتاہے اور خوابیدہ صلاحیتو ںکوصیقل کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔ ادب پاروں کی تحلیل و تجزیہ اورتشریح و توضیح ایک ایسی فعالیت ہے جس کی تشکیل و ترتیب کے سلسلے میں ادیب کو اپنی روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں کی غواصی کرنی پڑتی ہے ۔عزیز جبران انصاری نے تیکھے کالم لکھ کر ادب میں جمود کا خاتمہ کرنے کی سعی کی ہے ۔انھوں نے تاریخ ِ ادب اور تنقید ِ ادب کو اس مہارت سے ہم آ ہنگ کیا ہے کہ قارئین تمام معاملات کی تہہ تک پہنچ جاتاہے ۔اپنی ان تحریروں میں انھوں نے تاریخ اور اُس کے پیہم رواں عمل کو پیشِ نظر رکھاہے ۔تخلیق ادب ،اس کے پس پردہ کار فرمالا شعوری محرکات ،تخلیق کار کی علمی استعداداور تخلیق کے مقام اور مرتبے کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ان کے اسلوب میں علمی وقار ،شائستگی ،شگفتگی ،روانی اور ثقاہت کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔ عزیز جبرا ن انصاری نے اپنے تجربات ،مطالعات اور تجزیات کی اسا س پر اس کتاب میں تنقید اور تحقیق کا جو قصر عالی شان تعمیر کیا ہے وہ ہر عہد میں قارئین کے لیے نشانِ منزل ثابت ہو گا۔انھو ںنے اپنے تجربات کو ایک ایسے فکری اور ذہنی عمل کا رُوپ عطا کیا ہے جس کے معجز نما اثرسے ادب کا سنجیدہ قاری سرابوں کے عذابو ںسے بچ کر منزل کی جانب روا ںدوا ںرہتاہے ۔تیکھے کالم میںانھوں نے جو تجربات کیے ہیں وہ مطالعۂ ادب کے ایک وسیع تر نظام کے ساتھانسلاک کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ اگرچہ ذوق ِ سلیم سے متمتع ہر قاری اُن کی علمی فضیلت کے سامنے کلاہ کج کرتاہے مگر کئی مقامات پر مزید وضاحت کی گنجائش نکل آتی ہے۔ باقی صدیقی(1905-1972) نے شاید ایسے ہی مقامات کے بارے میں کہا تھا:
ہر ایک بات زباں پر نہ آ سکی باقی ؔ
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے
تیکھے کالم ایک ایسی جامع تصنیف ہے جس میں مصنف نے راز ِکُن فکاں سے وابستہ تمام حقائق کی گرہ کشائی پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ الفاظ کے دامن میںابد آ شنا صداقتوں کا جو مخزن ہوتاہے اس کتاب میں اُسی کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔گردشِ ایام کے نتیجے میںانسان جن واقعات ،ارتعاشات ،صدمات اور حالات سے دوچار ہوتاہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی تفصیلات ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں۔ سیلِ زماںکے مہیب تھپیڑے تاریخ کے مختلف ادوار کے نشیب و فرازاور ان سے وابستہ اسرار و رموز کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیںمگر الفاظ کی صو رت میں جن تجربات ،مشاہدات اور تاثرات کو محفوظ کر لیا جاتا ہے اُنھیں اندیشۂ زوال نہیں ۔اس فضا میں پرِ زمانہ کی رفتار پرواز ِ ضیا سے کہیں بڑھ کر تیز ہے لیکن عزیز جبران انصاری جیسے معاملہ فہم ،زیرک ،فعال ،مستعد ، حساس اور جری تخلیق کار کے قلب ِ حزیں سے جو الفاظ نکلتے ہیں اُن کی باز گشت لمحات تک محدود نہیں رہتی بل کہ آنے والی نسلیں صدیو ںتک اُن محفوظ الفاط سے استفادہ کرتی رہتی ہیں ۔اپنے اہلِ کمال کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کا اعتراف کرنا با شعور اقوا م کا شیوہ ہوتاہے ۔ہمیں اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ آج ہمارے درمیان عزیز جبران انصاری جیسا عبقری دانش ور اورماہر علم عروض موجود ہے ۔ اس کتاب میں انھوں نے معاصر شعرا کی متعدد غزلوںکی تقطیع کرکے علم ِعروض پر اپنی کامل دسترس کا ثبوت دیاہے ۔ جہا ںتک علم عروض کا تعلق ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ پس نو آبادیاتی دور میں شمس الرحمٰن فاروقی کے بعدعلم عروض کے جوماہرین اس خطے میںموجود ہیں اُن میں عزیز جبران انصاری کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔ فضا اعظمی کے کلام کی تقطیع کرتے وقت عزیز جبرا ن انصاری نے جس فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ڈاکٹر سیّد مظہر عباس رضوی کی مزاحیہ غزل کی تقطیع کرتے وقت عزیزجبرا ن انصاری نے لکھا ہے :
’’ اگر ہم اپنے ماضی کے شعر و ادب پر نگاہ ڈالیں تو اساتذہ فن سے بھی اس قسم کی لغزشیں ہوئی ہیں ۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی ’’ نکات ِ سخن ‘‘ مین ’’ معائب سخن ‘‘ کے باب میں جومثالیں پیش کی گئی ہیںوہ سب اساتذہ کے کلام سے لی گئی ہیں۔ان میں میرتقی میر ؔ،میر درد ؔ، سوداؔ، ذوق ؔاور غالب ؔ جیسے یگانۂ فن شعرا شامل ہیں ۔لیکن ان اساتذہ کی غلطیوں کو مثال بنا کر ہمیں ان کی پیروی کرنے کی بجائے ان غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘
جدید دور میں عزیزجبران انصاری کو علم و ادب کے ایک دائرۃ المعار ف کی حیثیت حاصل ہے ۔اُنھوں نے اپنے مضامین میں اُردو تحقیق کو نئے فنی تقاضوں سے ہم آ ہنگ کرنے کی کوشش کی ہے ۔اُن کے فنی تجربے نہ صرف جمود کے خاتمے کی ایک صورت بنتے ہیں بل کہ ان کے وسیلے سے نئے امکانات تک رسائی کی صورت بھی سامنے آتی ہے ۔عروض اور تقطیع میںنئے فنی تجربات علمی سطح ِ فائقہ پر فائز اُن کے ذوق سلیم کی دلیل ہیں۔ یہاں کا ہر شہر نا پرساں عجیب ہو رہا ہے جو رفتہ رفتہ کوفے کے قریب ہو رہاہے ۔اس شہر ِ سنگ دِل پر شہرکورا ںکا گمان گزرتاہے جہاں کے مکین اپنے سماعت اور الفاظ اپنی تاثیر سے محروم ہو چکے ہیں۔معاشرتی نظام کے بنیادیں کھوکھلی ہو چُکی ہیں جس کے نتیجے میں زندگی کی معنویت عنقا ہونے لگی ہے ۔ بو الہوس ، بے حس ، بے ضمیر ،حریص اور خود غرض انسان سمے کے سم کے ثمر کی وجہ سے انسانیت کی سطح سے گِر کر تحت الثریٰ میں جا پہنچے ہیں۔پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں اخلاقی اقدار کو جو ضعف پہنچاہے وہ تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ کفن دُزد ،چربہ ساز،سارق اور جاہل حشرات ِ ادب نے گلشنِ ادب کو ویران کر دیا ہے ۔ ادب میںسرقہ کے حوالے سے عزیز جبران انصاری نے لکھاہے :
’’اساتذہ اپنے شاگردوں میںصلاحیت ہوتے ہوئے بھی خود اعتمادی پیدا نہیں ہونے دیتے وہ انھیںاپنا محتاج رکھنا چاہتے ہیں تا کہ ان کا دال دلیہ چلتا رہے ۔ان ہی اساتذہ میں ایسے بھی ہیںجو اپنے شاگردوں کو کورے کاغذپر نثر و نظم کے گلستان کھلا کر ان سے بھاری رقوم وصول کرتے ہیںاور کسی موقع پر کوئی شاگردان کامطالبہ ماننے سے انکار تو شاگر دکو ذلیل و خوار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ایسے اساتذہ کے طریقہ ہائے واردا ت مختلف ہوتے ہیں۔یہ کبھی ان شاگردوں کے بے وزن اشعار ادبی پرچوں اور اخبارات کے ادبی صفحات پر شائع کرا کے ان کی تذلیل کا سامان بہم پہنچاتے ہیںکبھی مشاعروں میں بے بحر اشعار پڑھوا کر رسوا کرتے ہیں اور کبھی کسی معروف شاعر کی غزل مشاعرے یا اخبار و رسائل میں شائع کروا کر ان کی تذلیل کرتے ہیں اور آپ حضرات یہ جو ’’ توارد ‘‘ اور ’’ سرقے ‘‘کی مختلف صورتیں دیکھتے ہیںیہ سب اسی کا شاخسانہ ہے ۔‘‘
سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میںحالا ت کی کایا پلٹ گئی ہے ۔لمحۂ موجودکی کیفیات کابہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ بات روز ِروشن کی طر ح واضح ہو جاتی ہے کہ آنے والا دور موجودہ دور سے مکمل طور پر مختلف ہو گا۔نئے دور میں معاشرتی زندگی کے تقاضے بدل جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ جہد للبقا کی خاطر ہر شخص کو اپنی فکر دامن گیر ہو گی ۔ انسان دوستی اور ملی وقار کو شعار بنانے والے ادیب کی حیثیت سے اپنے تجزیاتی مضامین میںعزیز جبران انصاری نے تیکھے کالم میں موجودہ دور کے تجربات پرجس غیر جانب دارانہ اندا زمیں تجزیہ کیا ہے اور سمے کے سم میں عسل کی حلاوت کا لطف بہم پہنچایا ہے وہ ستم زدگان ِ عالم کے لیے سوچ کے نئے در وا کرتاہے۔ ان تحریروں کا مدعائے خاص یہی ہے کہ ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت زمانہ حال کے تقاضوں اور مستقبل کے اندیشوں پر بھی نظر رکھی جائے ۔ بزمِ ہستی میں جو کچھ عزیز جبران انصاری کے پیشِ نظر رہتاہے تاریخی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اُس کی لفظی مرقع نگاری کرنے میںوہ پوری دیانت سے کام لیتے ہیں ۔
پس نو آبادیاتی دور میں مادیت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چا ر کر دیاہے ۔ تقسیم ہند کے وقت بر طانوی استعمار اور استحصالی معاشرے کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کی لرزہ خیز داستان پڑھیں تو سینے پر سانپ لوٹ جاتاہے اورکلیجہ منھ کو آتاہے ۔ مسلسل شکستِ دِل کے نتیجے میں جب مایوسی ،بے یقینی ،بے عملی اور بے حسی بڑھنے لگتی ہے تو کسی مشفق ناصح کی ضرورت پڑتی ہے جس کی آواز درا خضر ِ راہ بن کر دلوں کو ایک ولولۂ تاز ہ عطا کرے ۔ عزیزجبرا ن انصاری نے تاریخ کے پیہم رواں عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ کسی معاشرے کے روحانی اور اخلاقی زوال کی علامت یہ ہے کہ افراد خود غرضی ،منافقت ،بے حسی اور دروغ گوئی کو وتیرہ بنا لیتے ہیں ۔یہ الم ناک صورت ِ حال اُس معاشرے کے لیے انتہائی بُرا شگون ہے۔تیکھے کالم کے مضامین میں انھوں نے زخمِ جا ںکو خارِ مغیلاںسے رفو کرنے والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ سکونِ قلب و جگر کی خاطر سرمد و منصور کی طرح صلیبوں کے ساتھ معتبر ربط ناگزیر ہے ۔
عزیز جبران انصاری ہمارے عہد میں حریت فکر کے ایسے مجاہد ہیں جنھوں نے اپنی زیست کے تمام لمحات مذہب کی آفاقی تعلیمات کی تبلیغ ، اردو زبان و ادب کے فروغ ،نوجوان نسل کی سیرت و کردارکی تعمیر ،اصلا حِ معاشرہ ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے وقف کر ر کھے ہیں۔ایک صاحبِ نظرمورخ ،محقق اور نقاد کی حیثیت سے اُنھوں نے اپنی تصنیف تیکھے کالم میںحریت فکر کی اُسی درخشاں روایت کو اپنا یا جسے محمد جعفر زٹلی، محمد علی جو ہر ،حسرت مو ہانی ،ظفر علی خان ،شور ش کاشمیری ،احمد ندیم قاسمی ،حبیب جالب اور فیض احمد فیض نے زادِ راہ بنایا۔عزیز جبران انصاری نے اپنے تنقیدی مضامین میں جو اسلوب اپنایا ہے اُ س میں ندرت ،تنوع ،تازگی او ر شگفتگی کے اعجاز سے اسلوب کی انفرادیت کو چا رچاند لگ گئے ہیں۔
تیکھے کالم میں عزیز جبران انصاری نے مِلّی تشخص اور قومی کر دار کو مثبت انداز میں نکھا رنے کی سعی کی ہے ۔ خا رزارِ حیات کے آبلہ پا مسافروں پر یہ حقیقت واضح ہو جا تی ہے۔کہ یہ کر دار ہی ہے جہاں سے اعمال کے سوتے پھوٹتے ہیں۔قدرتِ کا ملہ نے ہر انسان کو آزاد صورت میں پیدا کیا ہے ۔ جب افراد کے معمولات اس کے فطری کردار سے مطابقت رکھتے ہوںتو اس کی آزادی کے با رے میںکو ئی ابہام نہیںرہتا۔ اس کے بر عکس جب وہ کسی مصلحت کے جبر ، آمرانہ روّیے یا ذاتی منفعت کے تحت کو ئی نا پسندیدہ کا م کر نے پر تل جا ئے تو اس کا یہ اقدام حریت ضمیر کے خلاف ہو گا اور یہی تکلیف دہ کیفیت ذہنی غلا می کی پہچا ن ہے۔انسا نی زندگی میں صداقت کے لیے مرنے کی تڑپ ، ارفع ترین مقاصد کی جستجواور زندگی کی حقیقی معنویت کا احسا س صرف اسی صورت میں نمو پا سکتا ہے جب افراد اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آزاد مر ضی سے کسی فعا لیت میں حصہ لیںلیکن جب افراد دِل پر سِل رکھ کربہیما نہ نظام کا سا تھ دینے پر مجبور ہو جا ئیںتو سمجھ لینا چا ہیے کہ نجا ت دیدہ و دل کی گھڑی ابھی نہیں آئی۔
ٓ زند گی کی سب تا ب و تواں انسا نی وجود کے داخلی جذبات ، کشمکش ، پیچ و تاب اور سوز ساز کی مر ہون منت ہے۔ اس کائنات میں جہاں بھی کو ئی چیز موجود ہے وہاںعد م اس کے تعا قب میں ہے ۔کارجہاں کے با رے میںیہی کہا جا سکتا ہے کہ حیات کے سب راز در اصل مما ت کے پردے میںپنہاں ہیں۔ زندگی کی شبِ تاریک کے متعلق کہا جا تا ہے کہ کسی غفلت کا شکار نہ ہوجا نا وہ لمحہ دور نہیں جب کو ہ ندا کی صدا سن کر ساتوا ں در کھول کے ہمیشہ کے لیے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سد ھا رنا ہو گا ۔ اقدار و روایات کا سفینہ قلزم ہستی کی تلا طم خیز مو جوں کے رحم و کرم پر ہے ۔یہاں کسی لمحہ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور انسا ن کے نہ ہو نے کی ہو نی دیکھنے والے ششدر رہ جا تے ہیں۔
عزیز جبران انصاری نے اپنے ان مضامین میں نئی حسیت اور نئے امکانات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معا شرتی زندگی کے تضا دات ،فکر ،خیال کی کشمکش اور افراد کے مفادات کے ٹکرائو پر رو شنی ڈالی ہے ۔ ادیان ِ عالم ،تاریخ ،فلسفہ ،ادب اور فنون لطیفہ کے وسیع مطالعہ سے انھوں نے جو خیالات اخذ کیے ہیںانھیں پوری صراحت کے ساتھ ان مضامین میں شامل کیا ہے ۔ اس جہاں کی یہ رسمِ قدیم ہے کہ یہاں کی زندگی جنبش کے ساتھ وابستہ ہے ۔منزلوں کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کرنے والے آگے نکل جاتے ہیں جب کہ کاہل اور نااہل اپنی غفلت کے باعث پیچھے رہ جاتے ہیں اور زمانہ انھیں کُچل کر آگے نکل جاتاہے ۔عزیز جبران انصاری کو اس بات کا یقین ہے کہ ارضِ وطن کی مٹی بہت زرخیز ہے ۔اگر صدق ِدِل سے تراشا جائے تویہاں کے پتھروں کی بھی قسمت بدل سکتی ہے ۔وہ تمدن کی بالیدگی کے آرزو مندہیں اور اس مقصد کے لیے وہ یقین محکم پر انحصارکرتے ہیں جو مثلِ خلیلؑ آتش نشینی کا حوصلہ عطا کرتاہے ۔انھوں نے اس بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ اگر تشکیک،کرب و تشویش اور ہوائے جوروستم کی زد میں آنے والے لوگ یہ خیال کریں کہ تجریدی اور غیر یقینی اقدارکو من و عن تسلیم کرنا ایک کٹھن مر حلہ ہے تو ایسی صورت میں جبلتوں کی مشعل فروزاں کر کے منزلوں کی جستجو پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔
اس کتاب میںشامل فکر پرور اور بصیرت افروز مضامین مصنف کی انسان دوستی کی عمدہ مثال ہیں ۔ بڑھتی ہوئی بے حسی کو دیکھ کر انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہونے لگاہے۔ عزیزجبران انصاری فکر و خیال اور تحلیل و تجزیہ کے اس ارفع مقام پر فائز ہیں جہاں وہ اپنے دِل کے سکون کی خاطر معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل کو موضو ع بناتے ہیں ۔ اُن کے اسلوب میں حریت فکر کی مظہر انفرادیت کی دلیل یہ ہے کہ تخلیق فن کے لمحو ںمیں حرص و ہوس کے مظہر بیرونی عوامل کو وہ سرابوں سے تعبیر کرتے ہیں ۔ معاشرتی زندگی میں خود غرضانہ تعلقات کی سطحیت اور اجتماعیت کے کھوکھلے پن کے ساتھ وہ ایک دل لگی کرنے کی سعی کرتے ہیں۔مرزا اسداللہ خان غالب ؔ نے کہا تھا:
دِل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی سُودِ چراغ ِ کُشتہ ہے
عزیز جبران انصاری نے مدیران ِ جرائد کے روایتی نوعیت کے ادارتی کلمات سے ہٹ کر اپنی الگ راہ نکالی ہے ۔ فاضل مصنف نے تخلیقی صناعی ،لسانی، گہرائی و گیرائی اور اظہار و ابلاغ کے مروج و مستعمل اسالیب میں ندرت،تنوع اور حُسن و خوابی کے سب استعارے یک جا کر دئیے ہیں۔اس کتاب کے مشمولات کے اکثر الفاظ گنجینہ ٔ معانی کا طلسم ہیں۔ اس کتاب کے مضامین کی سدابہار شگفتگی اور عطر بیزی سے گلشنِ ادب مہک اُٹھاہے ۔ اپنے ذاتی مشاہدات ،فکری تجربات ،ارفع تصورات ،روحانی کیفیات اور قلبی جذبات کو پیرایۂ اظہار عطا کر کے عزیز جبران انصاری نے اِن تحریروں کو ابد آ شنا بنا دیا ہے ۔ تخلیقی چاشنی،اسلوبیاتی تنوع ، زبان و بیان کی جاذبیت ،خلوص و مروّت اور بے لوث محبت کے جذبات سے مزین یہ تحریریں پڑھ کر قاری پر جہانِ تازہ کے اسرار کُھلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے مضامین کے مطالعہ کے بعد مجھے یقین ہے کہ جن مو ضوعات پر مصنف نے اظہار خیال کیاہے اُن کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے اور ان میں زندگی کے تمام موسموں کا احوال بیان کیا گیا ہے اس لیے ہر عہدمیںیہ مضامین روشنی کے سفر کی روداد بیان کرتے رہیں گے ۔مجھے توقع ہے کہ انھوں نے اپنے مجلے میں اداریے کی صورت میں جو طرزِ فغاں ایجاد کی ہے مستقبل میںوہی طرزِ اداقرار پائے گی ۔
————————————————————