نام : عزیز احمد
آمد ۔ ۱۱، نومبر ۱۹۱۴ ، بارہ بنکی ، اترپردیش، بھارت۔۔۔۔۔ رخصت ۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۸ ، انتڑیوں کے سرطان کے سبب ٹورنٹو،کینیڈا میں انتقال ہوا اور وہیں پیوند زمین ہیں۔
تعلیم : گورنمنٹ کالیج اورنگ آباد { انٹر} ۱۹۲۸ ، جامعہ عثمانیہ حیدرآباد { بی۔اے، امتیازی } ۱۹۳۴ ، لندن یونیورسٹی { بی اے} ۱۹۳۸ ، ڈی لٹ یونیورسٹی آف لندن ۱۹۷۲،
اساتذہ : مولوی عبد لحق، مولانا مناظر احسن، مولوی وحید الدین، محی الدیں قادری زور اور پروفسیر عبد القادر سروری۔
ملازمتیں : ۱۹۳۴ سے ۱۹۴۵ تک حیدرآباد کے نظام کی بہو شہزادی درشہوار کے ذاتی متعمد اور اتالیق رہے۔
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد ۱۹۴۶
حکومت پاکستان کے محکمہ فلم اور مطبوعات کے ڑائریکٹر رہے { ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۷} حکومت پاکستان کے اردو انگریزی کے جرائد "ماہ نو" اور "ہلال" کے مدیر رہے۔
جامعہ لندن، اردو، ہندی اور اسلام کے شعبے میں درس وتدرین {۱۹۵۷}۔
کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں شعبہ اسلامیات میں صیغہ تدریس سے ۱۹۶۵ سے اپنی موت تک منسلک رہے۔
زبانین ۔ اردو، انگریزی، ترکی اطلالوی، جرمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زندگی کے آخری حصے میں نارویجین زبان سیکھ رہے تھے۔
تصانیف :
گریز، زمرمہ اور خون، ہوس، آگ ، ایسی بلندی ایسی پستی، شبنم ، رقص ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، خدنگ جستہ، جب آنکھین آہن پوش ہوئیں، نسل انسانی کی تاریخ ۔
تراجم:
ارسطو کی بوطیقا ، دانتے کا مقدس المیہ { ڈیواین کامیڈی}
شیکسپیر کا ڈرامہ رومیو جیولیٹ
ہنرک ابسن کا ڈرامہ معمار اعظم
…………………..
عمومی طور پر عزیز احمد کے ناولوں میں( جو کہ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں پاکستان بننے سے پہلے حیدرآباد دکن میں لکھے گئے) جاگیرداری نظام اور سماجی ناہمواری اور طبقاتی درجہ بندی کی کڑی تنقید ملتی ہے۔ یہ وہی سسٹم کی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کے کمزور، مظلوم طبقوں پر ایک ذلّت آمیز اور غیر انسانی استحصال اور اقتصادی جبر مسلّط کیا جاتا چلا آ رہا ہے۔ ۔ ۔ اُن کے عظیم اردو ناولوں میں گریز، ایسی بلندی ایسی پستی، آگ، ہوس اور شبنم سرِ فہرست ہیں۔ اپنے ناول آگ میں جو کہ 1946 میں چھپا عزیز احمد نے 1907 سے لے کر 1942 کے کشمیری معاشرے کی ایک حقیقت پسندانہ تصویر پیش کی ہے جو کہ تین نسلوں پر محیط ہے۔ ایسی بلندی ایسی پستی میں انہوں نے جاگیرداروں اور نوابوں کی معاشرت پر مبنی ایک داستان سُنائی ہے جہاں فرد کی زندگی کا المیہ معاشرے کے زوال کا آئینہ دار ہے۔
عزیزاحمد اردو کے ایک ایسے ناول نگار ہیں جو برصغیر کی حسیات اورتجربات کی ایسی نقشہ بندی کرتے ہیں جس میں اپنے عہد کے متضاد منفرد اور تصادمی رویوں کو نئے رویوں کے ساتھ اپنی فکشن کی کائنات میں سمو دیا ہے۔ عزیز احمد درحقیقت سیاسی و سماجی فکر اور جنسی حقیقت نگاری کا ناول نگار ہے ان کی وجۂ شہرت میں ''ایسی بلندی ایسی پستی''،'' شبنم''، ''گریز''، ''نمود''، ''مرمر'' اور'' خون'' شامل ہیں۔ انہوں نے افلاطونی محبت کا زوایہ بھی پیش کیا اور عصری، سماجی اور تہذیبی زندگی کو ناول میں سمونے کا عمدہ تجربہ بھی کیا۔ ان کو ناول کی تکنیک پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کا اسلوب غیر جذباتی لیکن بے موثر ہے۔ ان کے اثرات بالواسطہ طور پر قرۃ العین حیدر اور خدیجہ مستور کے ہاں بھی نظر آتے ہیں۔محمد اسلم فاروقی نے لکھا ہے "عزیز احمد کا پہلا ناول ’’ہوس‘‘ ہے۔ جو1932ء میں لکھا گیا۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں جہاں عزیز احمد نے کالج کی تقاریب و ادبی محفلوں کیلئے ڈرامے، افسانے، نظمیں، غزلیں لکھی تھیں وہیں انہوں نے ناول نگاری کی طرف بھی توجہ شروع کی اور گرما کی چھٹیوں میں حیدرآباد سے اپنے آبائی وطن عثمان آباد گئے تو وہاں یہ ناول ضبط تحریر میں لایا۔
’’ہوس‘‘ایک مختصر ناول ہے اور اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں رومان اور ہوس پرستانہ جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ عزیز احمد اس ناول کی اشاعت کے خلاف تھے لیکن جس بات نے انہیں حوصلہ بخشا وہ اپنے استاد مولوی عبدالحق کی سرپرستی و ہمت افزائی تھی جنہوں نے اس ناول کا دیباچہ لکھا اور عزیز احمد کے اس ناول کا تجزیہ کیا اس ناول کا جائزہ لیتے ہوئے مولوی عبدالحق نے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔
’’اس ناول میں مصنف نے آرٹ کی آڑ میں عقل، جذبات، محبت و ہوس، مرد و عورت کے تعلقات کی کشاکش کو بڑی خوش اسلوبی سے دکھایا ہے ‘‘۔ ۳۹؎
اس ایک جملہ میں ہی مولوی عبدالحق نے ناول کا بخوبی جائزہ لے لیا ہے۔ اس ناول کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں :
’’دراصل مصنف کا مقصود اس ناول کو لکھنے سے موجودہ رسم پردہ کا تاریک پہلو دکھانا ہے۔ نئی پود جس نے مغربی تعلیم اور مغربی خیالات اور جدید حالات میں پرورش پائی ہے وہ اس فرسودہ اور ناکارہ رسم سے بیزار ہے پردے کے حامی اسے اخلاق کا محافظ سمجھتے ہیں اور یہ مخرب الاخلاق اور مانع ترقی‘‘۔ ۴۰؎
انھوں نے اپنی شروع کی دو ناولوں، ہوس" اور " مرمر اور خون" میں جنس کے بارے میں فرائیڈ اور ہیولاک کے نظریات سے استفادہ کیا ہے۔ وہ دنیا میں ایک نیا جزیرہ دریافت کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اور جبلتوں کی گم شدہ کی تلاش بھی ہے۔ اس جنت میں احساس گناہ کا سانپ بھی رینگتا نظر آتا ہے۔ بدی کا شیطان بھی اپنے گناہوں اور تلازمات میں نمو پذیر ہوتا ہے۔ ان ناولوں کے کردار اپنی جبلتوں اور ہوس ناکیون پر قابو نہیں کر پاتے۔اور شعلوں میں جل کر بھسم ہوجاتے ہیں۔ اور پھر گناہ کا احساس جنم لیتا ہے۔ ان حوالوں میں فاوسٹ اور میکبتھ کے حوالے بھی آئیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ناول نگار کا بنیادی مسئلہ خیر وشر کے احساس کا تقابل اور موازنہ کرنا ہے۔ " مرمر خون" تو کہانی کو جن حصوں جیسے ، عدن قصہ پیمان، ابلیس و حکیم، گناہ رنگین اور مرمر اور خون میں منقسم کیا ہے۔ لگتا ہے عزیز احمد پر لارنس اور ہکسلے کا اچھا خاصا اثر ہے۔ ان کی اس ناول میں ہوس پرستی اور عشق کی کیفیات ایک دوسری میں مدغم ہیں۔ وہ بار بار جنسی جذبے کا تجزیہ کرنیکی بھی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس میں انتہا پسندانہ معروضیت کو وجود نہیں ملتا ۔ مگر یہ ضرور ہے کہ عزیز احمد تروگنیف سے بھی متاثر ہیں۔ اور اس اثر کے تحت جذبے کے اندر ہی انداز سلگنے کی افسردہ کیفیات کو نرم اور شیرین انداز میں بیاں کرتے ہیں دوسری جانب وہ ناولوں کی ایک جہت جمال پسند مضنوں کے نظریات سے بھی مربوط ہے۔ دونوں ناولوں کو فنون لطیفہ کو لازمی عنصر کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ ایک ناول میں سنگ تراش اور مصوری کا مرکذی حوالہ ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کردا ر اپنے جذبوں کا نمونہ ادبی اوضاع میں تلاش کرتے ہیں۔ عزیزاحمد کے ناولوں میں سب سے زیادہ شہرت ،گریز،کوحاصل ہے۔ جس میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی کو بیان کیاہے جو آئی سی ایس کے لئے منتخب ہوتا ہے ۔وہ اس کے ذریعے انگلستان، یورپ کی سیر کرتاہے۔ ناول میں ۶۳۹۱ءسے لےکر ۲۴۹۱ءتک کے زمانے کو دکھایا گیا ہے۔ اس ناول میں دوتہذیبوں کا تصادم ہے۔ اس عہدکے نوجوانوں کی طرح نعیم کی ذہنیت بھی یورپ جاکر تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے اندر زندگی کی عیش پرستی اورلذت کوشی کو سمونے کی کیسی کیسی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے دیس بدیس گھومتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپ کاماحول اس پرپوری طرح غالب نظر آتاہے۔ ایک دل پھینک نوجوان ہونے کے ناطے عورت محض اس کے لیے کشش جنس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے وہ خوبصورت عورتوں کے ارد گرد منڈلاتارہتا ہے۔ لیکن ان میں سے وہ کسی کو بھی اپنا نہیں پاتا۔ شایداس لئے کہ اسے ایک مکمل اورخاص عورت کی تلاش ہے یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں کئی عورتوں کے کردار آتے ہیں۔ جن میں مغرب ممالک کی عورتیں زیادہ ہیں۔ جس کی وجہ سے رومان اورجنس کی شدت نعیم کے فکر پر حاوی نظرآتی ہے۔ اس ح دتک کہ ناول کے معاشی اورسیاسی پس منظر میں بھی جنسی حقائق غالب نظر آتے ہیں۔
نعیم زندگی کی تلخ حقیقتوں اوریہاں تک کہ وہ محنت اورعشق کی تلخیوں سے بھی گریز کرتا ہے اوربیسویں صدی کے بدلتے ہوئے اہم رجحانات کی آئینہ داری کرتاہے۔ اس کے اندر کسی طرح کی بندش نہیں ہے۔ نہ اخلاقی اورنا ہی مذہبی قدروں کی پاسداری۔ اس کی حالت ایک ایسے نوجوان کی سی ہے جوکشمکش اورتذبذب کاشکارہے۔ اسے خود نہیں معلوم کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے۔ وہ سائنسی ایجادات اور نئے علوم وفنون سے واقف ہے۔ لیکن زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ یورپ کی چمک دمک سے بھی زیادہ متاثرنہیں ہوپاتا۔ دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان بھی سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں سے دوچار تھا اورایسے موقع پرنئے علوم وافکار کی آمد تھی۔ یہ تبدیلیاں اپنی طرف جدید ذہنوں کومتاثر کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کاہیرونعیم دنیائے جدید علوم وفنون سے واقف نظر آتاہے۔۔۔فی زمانہ’’ جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘‘۔ عزیز احمد کا ایک اہم ناول ہے ۔ اس میں امیر تیمور کی سوانح حیات کو ایک کامیاب حکمراں کی جگہ ایک عام انسان کی طرح پیش کیاگیا ہے ۔ اور یہ ثابت کر نے کی گئی کوشش کی ہے کہ ایک انسان جو بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کر کے ضعیفی کو پہنچ جا تا ہے اس وقت وہ انسان نرم دل سنجیدہ اور معلم اخلاقی بن جاتا ہے ۔ ساتھ ہی وہ اپنے بچپن اور جوانی کا تصور کر تے ہیں جس سے وہ ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکے ہیں اس کے ساتھ ہی ناول نگارنے ان عوامی تہذیب و تمدن اور طاقتوں کی نشان دہی کی ہے جو قدیم ایشیا کی تاریخ کو نئی راہ دکھا رہی ہیں۔ عزیز احمد نے ناول " ایسی بلندی ایسی پستی" کو شجریاتی {GENEALOGICAL} قرار دیا ہے اس ناول نے فرد کے المیے میں تہذیب کے کردار کو جائز وبرتر سطح پر برتا گیا ہے۔ اور اس کو انھوں نے ناول کی فنی ساخت میں کلیدی مقام دیا ہے۔ ا"یسی بلندی ایسی پستی" میں کشن پلی کی پہاریوں، فرخندہ نگر کی تاریخ اور قابل جنگ کے پم عصروں کا ذکر اس لیے ہے کہ کسی فرد کے المیے کو اس کے اجتماعی ماحول سے بربوط کرکے دیکھا جائے اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ اس ناول میں ایک خاندان کا المیہ دراصل پورے طبقےکا زوال ہے۔ اور حیدراباد کے مالدارطبقے کا نقشہ بے موثر گالزوردی کے فاوسٹ ساگا، ، اور ٹومس مان کے بڑن بروکس کے طرح اس میں ایک خاندان کا طربیہ اور المیہ ہے۔ جو ایک طبقے کے بربادی کی کہانی ہے۔ اس ناول میں عورت کے سلسلے میں مرد کی " حق ملکیت" کے تصور سے وابستہ تضادات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عزیز احمد کی ناول تاریخی حوالے سے زمان ومکان کی حسیات تاریخ کے نئے استعاروں اور رموز کو بڑی فنکاری کے ساتھ لارموز کیا جاتا ہے۔ جس میں انسانی زندگی میں " وقت " کا المیہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے :