اذیت
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
کیا پروین شاکر کے لفظ اندرونی اذیت کی پوری عکاسی کرسکے جو وہ اکیلے سہتی رہی
یا زہرہ نگاہ جب کہتی ہیں
کوئی دھڑکن ہے نہ آنسو نہ خیال
وقت کے ساتھ یہ طوفان گئے
مجھے لگتا نہیں
سب کا دکھ جدا ہوتا
ہر کسی کی آ گ کا رنگ الگ
آ نسو
حرف یا سسکی کو اگردوسرا سمجھتا تو محض زندگی کے کسی ایک خاص لمحے سے وابستہ کر کے سمجھتا جو پڑھنے والے نے کبھی بیتا ہو
مگر لکھنے والا جس کرب اذیت سے جیسے گزرا تو تخیل کا در وا سا ہوا یہ کوئ نہیں جان سکتا
لکھنے والے کا تخیل جب تک کائنات کی وسعتوں کو خود میں نہیں سموتا ذاتی دکھ ہی رہتا جس کو بیان کرنا نا ممکن
لفظوں یا رنگوں کی صورت ظاہر ہونے میں مدتیں لگا کرتیں
دکھ بھی موتیے کی طرح مہکتا اور گھپ اندھیرے میں بھی اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا
جیسے پروین شاکر کی شاعری میں
ہر کسی کو اپنا کوئی رنگ دکھ جاتا
غالب کا مختصر سا دیوان ہر کسی اپنے حساب سے پڑھتا اور شرح لکھتا