عام طورپر اُن (عظیم پریم راگی) کے ملاقاتی بالخصوص امرا وشرفا اُن کو چچا یا بھائی کہہ کر مخاطب کرتے۔ طریقت عمل چاہتی ہے۔ صدق وصفا کی دولت اچکن کے اندر زیب تن رکھتے ہیں تاکہ قبر میں بھی لیٹے ہوئے ہوں تو لوگوں کی دعائیں مِلتی رہیں۔ اُن کا نام، اُن کا کام زندہ جاوید رہے۔ ایسی مقدّس ومقتدر شخصیّات اپنے اپنے متعین شدہ وقت کو اِس دنیائے رنگ وبوُ میں گزار کر گو اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوئےں مگر اُن کی تعلیمات، خدمات، تحریری کلمات، مجاہدات ومشاہدات، واقعاتِ شاعر وحالات، تصوّرات ونظریات، خیالات واعتقادات، اُن کا مشن وپیغامات، ساز وآواز، کلام کی رفعت، اُن کے جذبات وتاثرات، بزرگانِ دین کا احترام کرنے والوں، رسول اللہ ﷺ کے چاہنے والوں کے دلوں میں جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ اور اِس طرح اُن کو ایک کامیاب زندگی اور اُخروی دولت حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ خزانہ، فیاضی، سخاوت تا قیامت جاری وساری رہتی ہے۔ گو سونا، چاندی، زرِنقد نہیں مگر الفاظ کے انمول گہر تو لُٹا رہے ہیں۔ ینگ انڈیا کمپنی وجود میں آئی جس کے ذریعے بے شمار ریکارڈ بازار میں آئے جو اُس زمانے کے باذوق گھرانوں میں، بڑے ذوق وشوق سے سُنے جاتے تھے۔ ریڈیو، فلم اور ریکارڈ کمپنی کے متعلق عوام کے سوال پر خود جواب تحریر کرتے تھے۔ عوام النّاس کی فلاح وبہبود کے لئے قائم اداروں کی دعوت پر اپنی مخلصانہ خدمات پیش کرتے، اُن کے لئے مالی خدمات فراہم کرتے۔ مسلمانوں کے لئے خاص طور پر جذبہ ہمدردی رکھتے اور باہمی صلح جوئی اور یک جہتی کا کلام سنا کر اُن کی رگِ حمیّت بیدار کرتے جیسا کہ آپ اُن کے کلام میں پائیں گے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں مگر اہل اللہ اور صاحبِ بصیرت جانتے ہیںکہ یہ سب کھیل اُس کے ہیں جس نے یہ کائنات تخلیق فرمائی اور انسان کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا، اور روحانی دولت اور ارتقا سے مالامال کیا اور یہ وہی بلند مقام ہے جہاں تمام حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔ اُس دور میں بقول شیخ سعدیؒ سماع کی افادیت اور حقیقت بیان کرتے ہوئے جیسا کہ پہلے لکھا گیا کہ فرشتے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں اور سامعین اور سماع کرنے والا آگے بڑھ جاتا ہے۔
اِس سلسلے میں سماع کے دوران چند اولیاءاللہ کا اپنی جان ِعزیز کو اپنے محبوب پر قربان کردینا قابلِ ذکر سمجھتا ہوں۔ چِشتیہ مسلک کو بڑی اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ نماز کے بعد اُس کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ اِس سلسلے کے بزرگانِ دین، اہل اللہ اور صاحبِ حال حضرات نے اُس کو بڑا فروغ دیا۔ یہاں تک کہ بعض مقتدر ہستیوں نے اِس سماع کے دوران اپنی جانِ عزیز مالکِ حقیقی کے سپرد کردی جن میں ایک گراں قدر بزرگ ہستی حضرت خواجہ معین الدین چِشتیؒ سلطان الہند وپاک کے ہر دل عزیز خلیفہ حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ہیں جن کا مزار مبارک مہرولی شریف دہلی میں واقع ہے۔ اُن کا وصال دورانِ سماع اِس شعر پر ہوا۔
کشت گانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگرست
حضرت خواجہ بختیار کا کی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت خواجہ فریدالدین مسعود بابا گنج شَکر رحمتہ اللہ علیہ جن کا مزار مبارک پاک پتن شریف (پاکستان) میں ہے، آپ کے چہیتے اور پیارے بھانجے حضرت خواجہ علی احمد صابر علاﺅالدین کلیری رحمتہ اللہ علیہ خلیفہ ہیں جب کہ حضرت نصیرالدین چِشتی رحمتہ اللہ علیہ روشن چراغ دہلوی اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوبِ الٰہی رحمتہ اللہ علیہ دہلی میں آپ کے خلیفہ ہیں۔ آپ کے مریدِ خاص حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ جن کی ذات میں قدرت کی بے شمار ودیعت کی گئی خوبیاں اور صلاحتیں موجود تھیں، اپنے پیر ومرشد کے عشق میں جِلا پیدا ہوئی اور آپ کے حُسنِ عقیدت سے اُجاگر ہوئیں جن میں چند کو مَیں یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ امیر اُن کے نام کا جُز ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک امیر سودا گر تھے۔ ساتھ ساتھ وہ حاکمِ وقت کے وزیر بھی تھے اور سفیر بھی۔ اِس کے ساتھ دانش وَر، ادیب اور اعلیٰ پائے کے شاعر، موسیقار اور گلوکار مانے جاتے ہیں۔ فارسی کے علاوہ برِصغیر کی تمام زبانوں پر عبور تو حاصل تھا ہی، مگر اردو زبان کے بانی مبانی ہیں۔ پہیلیاں بھی اُنہی سے منسوب ہیں۔ خود اپنے مرشد کو خوش کرنے کے لئے سماع کرتے۔ طبلہ اور سِتار اُنہی کی ایجاد ہے۔ موسیقی میں تمام راگ راگنیاں، دادرا، ٹھمری، گیت، نغمے، منڈھا، رنگ اور قول سب اُنہیں کے مرہونِ منّت ہیں۔ وہ فقر کے شعبے میں اعلیٰ درجے کے فقیر بھی ہیں۔ تاریخ میں آج تک کوئی ایسا دوسرا فرد پیدا نہیں ہوا جس میں یہ تمام خوبیاں موجود ہوں۔
یہ امر حقیقت ہے کہ 17 ربیع الثّانی کو جب آپ کے پیرِ طریقت حضرت خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ کا وصال دہلی میں ہوا تو آپ شاہی کام سے بنگال گئے ہوئے تھے۔ آپ کو قصداً اِس کی اطلاع نہیں دی گئی۔ لیکن چھ (6) ماہ کے بعد جب آپ بنگال سے دہلی تشریف لائے اور اپنے پیر ومرشد کی قدم بوسی کے لئے دربارِ عالیہ میں حاضری کی نیّت سے پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمتہ اللہ علیہ کا وصال ہوچکا ہے اور یہ مرقدِ انور اُنہی کا ہے۔ حُسنِ اتفاق ہے کہ یہ تاریخ بھی17 ہی تھی لیکن مہینہ شوال کا تھا۔ یہ خبر اور منظر آپ کے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ آپ نے فی البدیہہ یہ شعر پڑھا۔
گوری سوئے سیج پہ ُمکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چہودیس
اور جان ِ عزیز، جانِ جاناں کے سپرد کردی۔
_________
(فضا معین کی کتاب "عظیم پریم راگی، حالاتِ زندگی اور عارفانہ مجموعہ کلام" سے اقتباس۔ انتخاب : حمیرا اطہر)
“