(Last Updated On: )
تلخیص
عزیز احمد 1913-1978)) حیدرآباد دکن سے وابستہ اردوکے اہم فکشن نگار گزرے ہیں۔اردو فکشن کے ترقی پسند دور سے ان کا تعلق تھا۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر انہوں نے افسانے اور ناول لکھے۔ ان کے مشہور ناولوں میں گریز‘آگ‘ایسی بلندی ایسی پستی اور شبنم شامل ہیں۔ عزیز احمد کی ناول نگاری کا سفر 1932ء تا1964ء ہے۔ اس دوران انہوں نے حیدرآباد ‘برطانیہ‘کشمیر‘پاکستان اور کناڈا کا سفر کیا۔ عزیز احمد کے ناولوں میں جہاں جنس نگاری اور کرداروں کی نفسیاتی کشمکش عام بات ہے وہیں ایک خاص بات ان کے ناولوں میں وہ زمانی و مکانی اشارات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد نے اپنی زندگی کے دوران جن علاقوں کا سفر کیا اور وہاں مختصر یا طویل عرصہ جو کچھ قیام کیا مقامی تہذیب و تمدن اور زندگی کا قریب سے مطالعہ کیا اور اسے اپنے ناولوں کا حصہ بنایا۔ زیر نظر تحقیقی مقالے میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ہندوستان میں عثمان آباد میں زمانہ طالب علمی کے دوران انہوں نے اپنے ابتدائی ناول ہوس اور مرمر اور خون لکھے جن میں مقامی کالج کی زندگی کے اشارے پائے جاتے ہیں۔عزیز احمد نے آئی سی ایس کے سلسلے میں برطانیہ کا سفر کیا تھا اس سفر کی یادوں اور مشاہدات پر مبنی ان کا نال گریز ہے۔ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے حیدرآباد اور مسوری کی زندگی کی یادوں پر مبنی ناول ایسی بلندی ایسی پستی لکھا۔انہیںکچھ عرصہ کشمیر میں رہنے کا موقع ملا تھا کشمیر کے لوگوں کی غربت کو انہوں نے اپنے ناول آگ میں پیش کیا ۔عزیز احمد حیدرآباد میں شاہی خاندان کے مدرس تھے اور جامعہ عثمانیہ میں انگریزی کے استاد تھے۔جامعہ عثمانیہ کی یادوں پر مبنی ان کا ناول ’’شبنم ‘‘ ہے۔ اسی طرح ان کے ناولٹ تری دلبری کا بھرم میں برطانیہ اور مغربی ممالک کا ذکر ملتا ہے۔ اس طرح اس تحقیقی مقالے میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ عزیز احمد نے جن علاقوں میں قیام کیا وہاں کے مشاہدات کو اپنے مختلف ناولوں میں پیش کیا۔ جن کی تفصیلات ناولوں کے اقتباسات کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تعارف
زیر نظر تحقیقی مقالے میں عزیز احمد کے ناولوں میں مقامی اشارات کی وضاحت کی گئی ہے۔ عزیز احمد نے دوران زندگی جن علاقوں اور ممالک کا سفر کیا تھا ان کی یادوں کو اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ عزیز احمد کے ناولوں میں علاقائی اشاروں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے حالات زندگی کا اختصار سے جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ انہوں نے کس طرح عثمان آباد‘حیدرآباد‘مسوری‘کشمیر‘پاکستان‘برطانیہ اور کناڈا کی زندگی کو پیش کیا ہے۔
عزیز احمد 1913-1978)) حیدرآباد دکن سے وابستہ ایک بلند پایہ افسانہ نگار‘ ناول نگار ‘ مترجم‘ شاعر‘ نقاد‘ محقق‘ اقبال شناس ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں انہوں نے اردو میں کئی شاہکار ناول اور افسانے لکھے۔ اردو فکشن کے علاوہ تنقید‘ترجمہ نگاری ‘تاریخ اور اسلامی ادب میں ان کی نگارشات قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ایک ایسے دور میں جب کہ اردو فکشن میں منٹو‘عصمت‘ بیدی اور دیگر کا چرچا تھا عزیز احمد نے بھی ناول نگاری کے سلسلے کو جاری رکھا۔اور اردو ناول کی تاریخ میں وہ ایک ترقی پسند ناول نگار کی حیثیت سے جانے جاتے رہے۔
عزیز احمد 11؍نومبر1913ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ۱؎ ان کا تعلق حیدرآباد کے ایک علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ان کے والد بشیر احمد کاکوروی حیدرآباد کے ناومور وکیل مانے جاتے تھے۔ لیکن عزیز احمد کو زیادہ دنوں تک اپنے والدین کی شفقت نصیب نہیں ہوسکی۔والد کے انتقال کے بعد ان کا بچپن اپنے ماموں محمد احمد کی سرپرستی میں گذار جو کہ ایک اچھے وکیل تھے۔ عثمانیہ ہائی اسکول عثمان آباد سے عزیز احمد نے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ میٹرک کے بعد انہوں نے (1928ء ) میںجامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا اور ایف اے کا امتحان وہیں سے کامیاب کیا۔ (1934ء) میں بی اے( آنرز) اعزاز کے ساتھ کیا۔ بی اے میں ان کے مضامین اردو‘ انگریزی اور فارسی تھے۔ جامعہ عثمانیہ میں عزیز احمد کو مولوی عبدالحق‘ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور‘ پروفیسر عبدالقادر سروری‘ وحید الدین سلیم اور مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے اساتذہ میسر آئے۔ عزیز احمد کو گھر سے ادبی ماحول ملا تھا۔ ان کے اساتذہ نے ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کا موقع فراہم کیا۔ زمانہ طالب علمی میں عزیز احمد دیگر اساتذہ کی بہ نسبت مولوی عبدالحق اور پروفیسر عبدالقادر سروری سے بہت قریب تھے۔ انہوں نے پروفیسر عبدالقادر سروری کی مجلہ ’’مکتبہ‘‘ کے لئے اپنی خدمات وقف کیں۔
نظام حکومت نے انہیں مولوی عبدالحق کی سفارش پر اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن بھیجا۔ جہاں ای ایم فورسٹر سے ملاقاتیں عزیز احمد کی زندگی کا اہم واقعہ رہیں۔انگریزی اور فارسی میں آنرز کرکے واپس آئے تو انہیں جامعہ عثمانیہ میں انگریزی کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ 1940ء میں ان کی شادی ہوئی۔ اس دور کی اہم بات یہ رہی کہ انہیں1942ء میں نظام حیدرآباد کی بہو شہزادی درشہوار کا اتالیق مقرر کیا گیا۔ اس طرح چار سال تک انہیںحیدرآباد کے نظام گھرانے سے منسلک رہنے اور شاہی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہیں کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ اس شاہی خدمت کے بعد عزیز احمد نے 1946ء میں دوبارہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت اختیار کرلی اور1947ء میں تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد وہ 1949ء کو کراچی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے محکمہ اطلاعات پاکستان میں 1957ء تک خدمات انجام دیں۔ اس دور میں اردو کی ممتاز ناول نقار و افسانہ نگار قرۃ العین حیدر بھی ان کی معاون تھیں۔
عزیز احمد 1957ء میں انگلستان چلے گئے اور وہاں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن میں شعبہ اردو کے بیرونی لیکچرر کے طورپر خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد وہ مستقل طورپر کینڈا منتقل ہوگئے۔ 1962ء سے انتقال تک شعبہ اردو ٹورنٹو یونیورسٹی (کینڈا) میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دیں وہ1969ء کے بعد سے کیلی فورنیا یونیورسٹی‘ لاس اینجلز‘ امریکہ میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے تھے۔1975ء میں ایک مرتبہ وہ قائداعظم میموریل لیکچر کے سلسلہ میں پاکستان آئے یہ ان کا آخری دورہ پاکستان تھا۔ عزیز احمد نے18نومبر1975ء کی شام کو اپنی زندگی کی آخری ادبی مجلس میں شرکت کی۔جو فیض احمد فیض کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ آخری عمر میں عزیز احمد آنتوں کے سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ان کے تین آپریشن بھی ہوئے‘ آخر کار65 برس کی عمر پانے کے بعد 16؍دسمبر 1978ء کو انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی تدفین کینڈا ہی میں عمل میں آئی۔
عزیز احمد کو اردو‘ فارسی‘ انگریزی اور فرانسیسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ عربی زبان بھی تھوڑی بہت جانتے تھے‘ جب کہ ترکی‘ اطالوی اور جرمن زبان پر ان کو دسترس گفتگو کی حد تک تھی۔عزیز احمد کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں لیکن علم و ادب کیلئے ان کے بے پایاں خدمات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عزیز احمد اپنی ذات میںایک انجمن تھے۔ سینکڑوں قیمتی مقالات و تراجم اور کئی بلند پایہ تحقیقی و تنقیدی کتابیں لکھیں اس کے علاوہ ناول وافسانہ کی صورت میں ایک اہم تخلیقی ذخیرہ اپنی یادگار چھوڑا۔
عزیز احمد کے ناول
(۱) ہوس (1932ء)
(۲) مرمر اور خون (1932ء)
(۳) گریز (1945ء)
(۴) آگ (1945ء)
(۵) ایسی بلندی ایسی پستی (1947ء)
(۶) شبنم (1950ء)
اپنی تحقیق کے دوران راقم الحروف کو عزیز احمدکے مزید دو ناول ایسے دستیاب ہوئے جن کا جائزہ اردو ناول کی تاریخ و تنقیدی کتابوں میں نہیں ملتا۔ ان دون ناولوں کے نام یہ ہیں۔
(۷) برے لوگ (سنہ تصنیف نامعلوم)
(۸) تری دلبری کا بھرم (1964ء)
ناول ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ کا ذکر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اپنی کتاب ’’اردو افسانہ کی روایت‘‘ میں کیا ہے لیکن ’’برے لوگ‘‘ کا تذکرہ کسی بھی ادبی تاریخ میں نہیں ملتا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں اسے پہلی بار اردو دنیا سے متعارف کروارہا ہوں اور اس ناول پر پہلی مرتبہ جائزہ بھی پیش کیا جارہا ہے۔ یہ عزیز احمد کا آخری ناول ہے۔
عزیز احمد کی فکشن نگاری میں تاریخ اور تہذیب کی واضح جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان کے ناولوں اور ناولٹس میں ہند اسلامی کلچر کی بھر پور تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یورپ کی اجتماعی معاشرت کے مرقعے بھی ان کے ناولوں میں بڑی عمدگی سے پیش کئے گئے ہیں۔ ان کے فکشن کی بڑی انفرادیت ان کا تاریخی اور جغرافیائی معلومات کو کہانی کا ایسا جز بنانا بھی ہے جو قاری کوناگورا نہیں گذرتابلکہ وہ خود اس خوابناک فضا میں سانس لینا شروع کردیتا ہے۔ بہ طور ناول نگار عزیز احمد تاریخ اور تہذیب کی محتلف جہتوں کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک تاریخی تسلسل کا حصہ معلوم ہونے لگتی ہیں۔
تحقیقی مطالعہ
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے عزیز احمد کے ناولوں میں علاقائی اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح ہم ان کے ناولوں میں ان علاقوں کے اثرات دیکھیں گے جہاں انہوں نے قیام کیا تھا۔عزیز احمد کا پہلا ناول ’’ہوس‘‘ ہے۔ جو1932ء میں لکھا گیا۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں جہاں عزیز احمد نے کالج کی تقاریب و ادبی محفلوں کیلئے ڈرامے‘ افسانے‘ نظمیں‘ غزلیں لکھی تھیں وہیںانہوں نے ناول نگاری کی طرف بھی توجہ شروع کی اور گرما کی چھٹیوں میں حیدرآباد سے اپنے آبائی وطن عثمان آباد گئے تو وہاں یہ ناول ضبط تحریر میں لایا۔
ناول ’’ہوس‘‘ میں نسیم کا کردار ایک ایسے نوجوان کا کردار ہے جس کے پاس محبت کی اعلیٰ اقدار موجود نہیں ہیں۔ وہ ایک طرح کا نفسیاتی مریض ہے۔ وہ جنسی طورپر ایک ایسا ناآسودہ نوجوان ہے جس کے دل و دماغ پر ہر وقت عورت چھائی رہتی ہے وہ ہمیشہ اچھی یا بری عورت کی قربت کا خواہاں رہتا ہے اور فطرت اور معاشرت کے قیود اس کے آگے بے معنی ہیں۔اپنی عمر سے بڑی چچازاد بہن زلیخا سے محبت کا گھناؤنا کھیل کھیلتا ہے‘ نسیم کے خیالات ملاحظہ ہوں:۔
’’میں محسوس کررہا تھا کہ میں ایک عورت سے اس قدر قریب بیٹھا ہوں اور بالکل تنہائی میں اس وقت وہ مجھے عورت معلوم ہورہی تھی ۔گوشت پوست کی ایک نوجوان عورت اس وقت فطرت اپنی پوری حکومت کے ساتھ میرے دل سے اس پیہم پیدا ہونے والے احساس کو زائل کررہی تھی کہ وہ میری چچازاد بہن بھی ہے اور معاشرت اور مذہب کے تمام تر قیود مجھے بے بنیاد اور غیر فطری نظر آرہے تھے‘ فطرت نے سرشت انسانی کو آزاد بنایا ہے تو پھر یہ خود ساختہ پابندیاں کیوں‘‘۔۲؎
ناول ’’ہوس‘‘ کا کردار خود عزیز احمد بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں اپنے نفسیاتی و جنسی خیالات کو ناول میں پیش کیا ہے۔ یہ ناول مقامی طور پر حیدرآباد یا عثمان آباد کے ایک نوجوان کا کردار ہے۔’’مرمر اور خون‘‘ عزیز احمد کا دوسرا ناول ہے۔ یہ ناول بھی 1932ء میں لکھا گیا‘ عزیزاحمد نے تعلیمی تعطیلات کے درمیان اپنے وطن عثمان آباد میں اپنے دو ناول ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمراور خون‘‘ تصنیف کئے اور وہ ان ناولوں کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ انہیں زیور طبع سے آراستہ کیا جائے‘ کیونکہ یہ ان کے زمانہ طالب علمی کی وہ ابتدائی کاوش تھیں‘ جن میں فن کاری سے زیادہ تاثراتی جذبات غالب ہیں‘ ناول ’’ہوس‘‘ کی طرح ’’مرمر اور خون‘‘ کا دیباچہ بھی ان کے استاد مولوی عبدالحق نے لکھا اس ناول کے تعلق سے وہ یوں رقم طراز ہیں:
’’یہ عزیز احمد سلمہ‘ کا نقش ثانی ہے اور اکثر وبیشتر نقش ثانی اول سے بہتر ہوتاہے‘‘۔ ۳؎
خود عزیز احمد نے اپنے ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے:
’’اس ناول یعنی ’’مرمر اور خون‘‘ کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں‘ یہ آرٹ اور نشاۃ ثانیہ پر بہت سی کتابوں اور ہیولاک ایلس کی نفسیاتی جنسی کا اُبال ہے‘‘۔ ۴؎
اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد کو اعتراف ہے کہ انہوں نے اپنے ابتدائی دو ناول مغرب کے اور خصوصاً بہت سے انگریزی ناولوں کے مطالعہ کے بعد تاثراتی طورپر مقامی فضاء اور مقامی کرداروںکو لے کر لکھے ہیں‘ اس لئے ان ناولوں کے جدید اور متنازعہ موضوعات قارئین کو کھٹکتے ہیں‘ عزیز احمد کی یہ ابتدائی کوششیں تھیں جو بعد میںآنے والے ترقی پسند افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کو اس طرح کے موضوعات کے برتنے میں راہ ہموار کررہی تھیں اور عریاں نگاری ایک فن کی صورت اختیار کرنے لگی تھی۔
ناول ’’مرمر اور خون‘‘ کے مرکزی کرداروں میں عذرا اور طلعت اور رفعت کے کردار اہم ہیں۔ نسرین‘ زینب اور پروفیسر وغیرہ کے کردار ضمنی ہونے کے باوجود ناول میں اپنی موجودگی کااحساس دلاتے ہیں۔ اس ناول میں بھی عزیز احمد نے اپنے کرداروں کے ارتقاء کو پیش کرتے ہوئے ان کی نفسیاتی کیفیات کی عکاسی کی ہے۔ عذرا پروفیسر منصور احمدکی اکلوتی بیٹی ہے۔ جس کے باپ نے یورپ میں ایک طویل عرصہ قیام کیا تھا‘ اور ایک یورپین عورت سے شادی کی تھی جو کہ عذرا کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد انتقال کرجاتی ہے‘ یورپ میں دو تین سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد عذرا اپنے باپ پروفیسر منصور احمد کے ہمراہ وطن واپس ہوتی ہے۔ صرف باپ کے زیرتربیت رہنے کی وجہہ سے عذرا میں نسوانی حجاب کے بجائے مردانہ وجاہت سی آگئی تھی‘ پروفیسر کو ہمیشہ یہ خیال کھٹکتا رہتا کہ اس نے ایک مغربی عورت سے شادی کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی‘ کیونکہ اس کی بیٹی میں مغرب و مشرق کے متضاد رجحانات پرورش پانے لگے تھے۔ عزیز احمد لکھتے ہیں:
’’ایک مغربی عورت سے شادی اس کی ناقابل تلافی غلطی تھی‘ جس کا اثر اس کی اولاد پر اس طرح پڑرہا تھا کہ اس کا طرز خیال نہ تو قطعاً مغربی تھا‘ اور نہ قطعا مشرقی‘ ایک درمیانی خطرناک فضاء میں اس کے دماغ نے نشونما پائی تھی‘‘۔ ۵؎
اپنے اس خیال کو عزیز احمد ایک مرتبہ پھر یوں دہراتے ہیں:۔
’’اس کی تعمیر مشرق و مغرب کے متضاد عناصر سے ہوئی ہے۔۔۔ اس کی تربیت اس قدر آزادی کے باوجود کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ وہ نہ خالص مغربی حلقوں اور نہ اعلیٰ مشرقی حلقوں میں اپنے آپ کو بے تکلف پاتی تھی‘ وہ محسوس کرنے لگی کہ مشرق و مغرب کی آمیزش کی وجہہ سے وہ اپنی افتاد طبعیت اور اپنے طرز خیال کی حد تک مشرق و مغرب دونوں سے علیحدہ ہے‘‘۔۶؎
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ عزیز احمد یہ دو ابتدائی ناول ہندوستان کے اس شہری زندگی کے نوجوانوں کی زندگی کو پیش کرتے ہیں جن پر انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب کے اثرات پڑنے لگے تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی سے قبل عزیز احمد بھی انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور امکان ہے کہ انگریزی تعلیم کے ثرات کے تحت انہوں نے یہ ناول لکھے ہوں۔
عزیز احمد کے حالات زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ آئی سی ایس کی تعلیم کے لیے وہ لندن بھی گئے تھے اور وہاں کے قیام کے واقعات کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنا شاہکار ناول ’’گریز‘‘ 1945ء میں لکھا۔’’گریز‘‘ میں نعیم حسن نامی ایک ایسے ہندوستانی نوجوان کا قصہ پیش کیا گیا ہے جو شہر حیدرآباد کا متوطن ہے‘ ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے سبب اپنی زندگی عسرت میں بسر کرتا ہے لیکن کسی طرح اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے‘ ایک رئیسہ خانم کی بیٹی بلقیس سے ایک ایک طرفہ عشق کرتا ہے جو رشتہ میں اس کی چچا زاد بہن بھی ہے لیکن اپنی عسرت کی بناء پر شادی سے احترازکرتاہے‘ اسی دوران وہ آئی‘ سی ‘ ایس کیلئے منتخب ہوجاتا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انگلستان روانہ ہوجاتا ہے اپنی رنگین طبعیت کی بناء پر لندن اور پیرس کی حسین زندگی میںکھو جاتا ہے‘ طرح طرح کی لڑکیوں سے عشق رچاتا ہے اور بقو ل احسن فاروقی :
’’وہ(نعیم) آئی ‘ سی ایس کی ٹریننگ کیلئے انگلینڈ جاتا ہے اور وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوائے عورت بازی کے کوئی اس کا مشغلہ ہی نہیں ہے‘‘ اگر’’گریز‘‘ سے یورپ کا اندازہ لگایاجائے تو معلوم ہوگا کہ ان حصوں میں جہاںنعیم گئے سوائے قحباؤں کے اور کوئی بستا نہیں‘‘۔ ۷؎
ناول ’’گریز‘‘میں 1936ء سے1942ء کے درمیانی زمانہ میں حیدرآباد اور یورپ کے بڑے بڑے شہروں کی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی نوجوان کے آئی سی ایس میں انتخاب کے بعد انگلستان جاکر کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں‘ اس کی دماغی حالت کیا ہوجاتی ہے اور وہ زندگی کو کس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ یورپ کے آزاد ماحول میں کس طرح وہ عیش پرستانہ زندگی بسر کرتا ہے۔نعیم کی زندگی میں ہلچل مچانے والی لڑکی ایلس ہے۔ یہ ایک امریکی لڑکی ہے جو فرانسیسی زبان سیکھنے یورپ آتی ہے اور بہت جلد نعیم کے قریب ہوجاتی ہے۔ عزیز احمد نے نعیم اور ایلس کی محبت کو جذباتی انداز میں پیش کیاہے۔ شروع میں نعیم‘ ایلس سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ کس طرح اس کی جنسی ہوس کی تکمیل ہو لیکن ایلس ایک مشرقی لڑکی کی طرح آگے بڑھنے نہیں دیتی‘ چنانچہ نعیم بے چین سا ہوجاتاہے:
’’اس جنسی تشنگی کی وجہہ سے نعیم بہت بے چین ہوجاتا ہے بعض وقت وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ایلس کا پیچھا چھوڑدے اور کوئی ایسی لڑکی تلاش کرے جس سے اس کی مدعا برآری زیادہ آسانی سے ہو‘‘۔ ۸؎
ناول’’گریز‘‘ میں عزیز احمد نے یورپ کی زندگی وہاں کے بازار ‘کلبوں اور شہروں کے احوال اس انداز میں پیش کیے کہ ناول کا قاری اپنے آپ کو مغرب کی فضائوں میں گھومتا محسوس کرتا ہے اس طرح یہ ناول علاقائی اثرات کے ساتھ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نعیم کی شکل میں خود عزیز احمد نے آئی سی ایس کے دوران مغرب کے مشاہدات بیان کیے ہوں۔
ناول ’’گریز‘‘کے بعد عزیز احمد کو جس ناول سے مقبولیت حاصل ہوئی وہ ’’آگ‘‘ ہے جو 1945ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ عزیز احمد کے ابتدائی تین ناولوں ’’ہوس‘‘ ’’مرمر اور خون‘‘ اور ’’گریز‘‘ میں بنیادی طورپر جنسی پہلو نمایاں تھا۔ لیکن ان کا چوتھا ناول ’’آگ‘‘ جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں عزیز احمد نے زندگی کے تہذیبی اور معاشرتی پہلوؤں کی نمایاں عکاسی کی ہے‘ ’’آگ‘‘ میں انہوں نے 1908ء سے1945ء کے درمیان کشمیر کی زندگی کے تہذیبی‘ معاشرتی‘ سیاسی و سماجی پہلوؤں کو فنکاری سے پیش کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے اس عرصہ میں ہندوستان اور دنیا کے حالات کو نظر میں رکھا ہے اور ان حالات کے کشمیری زندگی پر اثر انداز ہونے والے اثرات کو بھی پیش کیا ہے‘ ان میں خاص طورپر ایشیا اور یورپ کے ممالک کے سیاسی حالات‘ انقلابات اور صنعتی ترقی کا تذکرہ اہم ہے اس طرح عزیز احمد کا یہ ناول ایک تاریخی دستاویز بن جاتا ہے۔عزیز احمد کے حالات زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ شادی کے بعد 1945ء میں انہوں نے کشمیر کی سیاحت کی تھی اور وہاں انہوں نے کشمیر کے حسن کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہاں کی تہذیبی زندگی کا بہ طور خاص مطالعہ کیا اور اسے ناول ’’ آگ‘‘ میں فنکاری کے ساتھ پیش کیا۔
عزیز احمد نے کشمیری زندگی کو پیش کرنے میں ایک خاص طرز کو اپنایا ہے انہوں نے اس ناول کو بنیادی طورپر دو حصوں میں تقسیم کیا ’’شنیدہ‘‘ اور ’’دیدہ‘‘ اور پہلے حصہ ’’شنیدہ‘‘ میں انہوںنے اپنے وسیع مطالعہ اور تجربہ سے کام لیتے ہوئے حالات کا تذکرہ اور تجزیہ کیا ہے۔ دوسرے حصہ ’’دیدہ‘‘ میں عزیز احمد نے واحد متکلم بن کر کشمیری زندگی کا مشاہدہ کیا اور احوال پیش کئے۔عزیز احمد نے اپنے ملازمت کے سلسلہ میں کچھ عرصہ کشمیر میں قیام کیا تھا‘ چنانچہ اپنے عمیق مشاہدہ اور کشمیری زندگی کو قریب سے دیکھنے کی بناء پر انہوں نے ’’آگ‘‘ میں کشمیرکی زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ پیش کیا ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قارئین کے سامنے کھول کر پیش کردیا ہے۔ کشمیر کی زندگی کی اتنی حقیقی اور واضح تصویر شائد ہی اردو کی کسی اور ناول میں اس تفصیل سے پیش ہوئی ہو‘ یہاں کشمیری عوام‘ کشمیر کے قدرتی مناظر‘ جھیلیں‘ ہاؤس بوٹ‘ شکاری بھی ہیں‘ اور کشمیری مزدور غریب عوام کی محنت کش زندگی کی حقیقی تصویر بھی۔ عام طورپر کشمیر کے نام کے ساتھ ہی ایک فرحت بخش احساس ذہن میں جاگ اٹھتا ہے‘ کشمیر کی وادی کے قدرتی حسن کا احساس‘ اور جنت نشان کشمیر اور شعراء اور ادیبوں کے خوابوں کی جنت کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے‘ یہ احساس کشمیر کے باہر رہنے والوں اور سیاحوں کا ہوتاہے‘ لیکن حقیقت میں کشمیر کے اس دلفریب حسن کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی وہ زندگی بھی ہے جو نامساعد حالات کے سبب پریشانیوں اور مصائب میں گھری ہوئی ہے نشیب و فراز میں گھری زندگی کو کشمیری عوام ہی زیادہ محسوس کرسکتے ہیں اور بقول یوسف سرمست کے:
’’کشمیر یہاں جنت نشان ہی نہیں جنہم زار بھی نظر آتاہے‘‘۔ ۹؎
چنانچہ ’’آگ‘‘ میں عزیز احمد نے بھی کشمیری زندگی کے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے‘ اور بتایا کہ اس جنت نشان کشمیر میں بھی زندگی طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ اس ناول میں کشمیر کے غریب عوام کے مسائل‘ بھوک‘ افلاس‘ گندگی‘ بیماریوں کا تذکرہ ہے‘ اسی کے ساتھ دولت مند سرمایہ داروں کی زندگی کی رونق‘ ان کی شایان شان زندگی اور دولت کے بل بوتے پر غریب بھولے بھالے عوام پر ان کی ظلم و زیادتی‘اور ان کی اخلاق سوز حرکتیں ان سب کا ذکر ہے اور ساتھ ہی اس عہد کے ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات‘ جدوجہد آزادی کا ذکر بھی ہمیں ملتا ہے۔
ناول ’’آگ‘‘ میں عزیز احمد نے جہاں کشمیر کی زندگی میں پھیلی ان گندگیوں کو پیش کیا ہے وہیں زندگی کے بیان کے ساتھ انہوں نے وہاں کی تہذیبی و معاشرتی پہلوؤں کو بھی خوب اجاگر کیا ہے وہاں کے لوگوں کا رہن سہن‘ بات چیت‘ لباس‘ طرز معاشرت‘ شادی بیاہ کی تقاریب‘ مہمان داری وغیرہ کی تفصیلات اس انداز میںملتی ہیں کہ ہم ناول کے ذریعہ کشمیری تہذیب سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں۔ سکندر جو کی شادی کے موقع پر کشمیری دعوت کی تفصیل یوں ملتی ہے:
’’مہمانوں کے آگے بڑے بڑے سرخ دسترخوان بچھائے گئے‘جن پر آداب طعام اور فارسی اشعار چھپے ہوئے تھے اور نوکروں نے مہمانوں کے ہاتھ دھلائے جو چاروں دیواروں کا سہارا لگائے چاروں طرف بیٹھے تھے پھر دسترخوان پر چاولوں کے بڑے بڑے طبق رکھے گئے کچھ مہمان دسترخوان کے دوسرے طرف بیٹھ گئے‘ ایک ایک طبق چار چار آدمیوں کیلئے تھا‘ چارجگہ کباب‘ شوربا اور بوٹیاں تھیں۔۔۔ مٹر کا شوربا‘ آلو کا خورما‘ گوشتا با‘ کوفتے‘ مرچوں کا سرخ خورما‘ ترکاری کی ساگ اور آب گوشت‘ ہر طبق میں چار چار ہاتھوں کی انگلیاں بے تکلفی سے چاولوں اور گوشت اور خورمے کو ایک کرتی جاتیں‘‘۔ ۱۰؎
ناول ’’گریز‘‘ اور ’آگ‘‘ کی مقبولیت کے بعد عزیز احمد کا جو ناول مشہور ہوا وہ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ ہے۔ جو پہلی بار 1947ء میں چھپ کر شائع ہوا‘ اس کا شمار عزیز احمد کے اہم ناولوں میںکیا جاتا ہے۔ ’’آگ‘‘ کشمیری زندگی سے متعلق تھا۔ کشمیر کی سیاحت سے واپس آنے کے بعد عزیز احمد نے حیدرآباد کے دوران قیام ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ لکھا۔ اس ناول میں عزیزاحمد نے اپنے ہی وطن حیدرآباد کی تہذیب و معاشرت کواپنے عہد کے آئینہ سے پیش کیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل ریاست حیدرآبادکے امراء اور نوابین کی زندگی ان کی معاشرت‘ ان کے رہن سہن‘ ان کی شان و شوکت‘ ان کی خاندانی زندگی کی کشمکش اور آپسی رسہ کشی اور نوابی زندگی کے زوال کو اس ناول میں پیش کیا گیا ہے اور یہ پیشکشی بڑی فنکاری اور حقیقت پر مبنی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ عزیز احمد جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری کے دوران کچھ عرصہ شاہی دربار سے بھی بسلسلہ ملازمت منسلک رہے تھے‘ 1941ء سے1945ء کے دوران عرصہ میں وہ آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کی بہو شہزادی در شہوار کے سکریٹری رہے تھے۔ اس عرصہ میںانہیں شاہی زندگی کے مختلف پہلوؤں کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ایک لحاظ سے وہ شاہی گھرانے کے فرد ہوگئے تھے۔ چنانچہ اس ناول میں شاہی زندگی و نوابی زندگی کی گہما گہمی اور زمانہ کے اتار چڑھاؤ کی جو حقیقی تصویر کشی عزیز احمدنے کی ہے وہ ان کے گہرے مشاہدے اور تجربات کا نچوڑ ہے۔
’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کا ا اہم کردار سلطان حسین ہے‘ وہ کشن پلی کا انجینئر ہے ۔کشن پلی دراصل حیدرآباد کے کسی نواحی علاقے کی طرف اشارہ ہے۔ امریکہ سے واپسی کے دس بارہ سال انفرادی زندگی میں عیش و عشرت سیروتفریح میں بسر کردیتاہے‘ مسوری اس کی پسندیدہ جگہ تھی‘ جہاں ہرسال وہ اپنا اچھا وقت شراب نوشی‘ تاش کی بازیوں اور عورت بازی میںگذارتا اور بقول عزیز احمد کے :
’’وہ مسوری میں ہر سیزن میں کم سے کم ایک نئے معاشقہ کی کوشش کرتا رہا‘‘۔۱۱؎
ناول میں سلطان حسین کے ایک دوست سریندر کا کردار ہے جو کلب میں اس کا ساتھی ہے‘ سریندر کے روپ میں دراصل عزیز احمد خود ناول کی زندگی میں داخل ہوجاتے ہیں کیونکہ سریندر کی زبانی فلسفیانہ خیالات‘ سیاسی‘ سماجی و معاشرتی مسائل پر بحیثیں دراصل عزیز احمد کی ذہنی فکر کا پتہ دیتی ہے سریندر کے کردار میں عزیز احمد کی چھاپ اسوقت صاف نظر آتی ہے جب وہ مزدوروں کی حمایت کرتا ہے اور متوسط طبقہ کی ترقی کا ذکر کرتے ہیں:
’’تمام سیاسی فلسفے تو متوسط طبقہ کے دماغ ہی سے نکلے ہیں نا‘ میکیاولی سے مارکس تک‘ افلاطون کی جمہوریت سے ہٹلر کی جدوجہد تک یہ سارے نقشے کس نے کھینچے ہیں‘‘۔ ۱۲؎
عزیز احمد نے ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ میںحیدرآباد کے طبقہ امراء کی زوال آمادہ زندگی کی تصویر کشی کی تھی۔ اسی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے ایک ناول ’’شبنم‘‘ لکھا۔ یہ ناول 1950ء میں شائع ہوا۔ 1943ء تا1950ء کے ایک قلیل عرصہ میں عزیز احمد نے چاراہم ناول ’’گریز‘‘ ’’آگ‘‘ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ اور ’’شنبم‘‘ لکھ کر ناول نگاری کی دنیا میں اپنا مقام بنالیا۔ یہ چاروں ناول اردو دنیا کی تاریخ میںعزیز احمد کے نام کو زندہ رکھنے کیلئے کافی ہیں‘ عزیز احمد کے پچھلے ناولوں میں عموماً مرد کرداروں کے معاشقے اور ان کی جنسی بے راہ روی کو پیش کیا گیاتھا‘ ’’شبنم‘‘ میں انہوں نے ایک نسوانی کردار کی عشقیہ داستان اور اس کی بیباک زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اُسے مرکزی حیثیت دی ہے۔ ’’شبنم‘‘ نامی اس لڑکی کی داستان عشق کے پس منظر میں عزیز احمد نے متوسط طبقہ کی زندگی کی کشمکش اور زندگی کے نشیب و فراز کو فنکاری سے پیش کیا ہے اور اس متوسط طبقہ کا تعلق حیدرآبادی معاشرہ سے ہے اور اس معاشرہ کی پستیوںکا تذکرہ کرتے ہوئے عزیز احمد نے بتایاکہ کس طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں اپنے گھر والوں کی غیر ذمہ داریوں کی بناء عشق و عاشقی کے چکروں میں پڑ کر اپنی زندگی کے چین و سکون کوکھوبیٹھی ہیں۔ اپنے سنہرے مستقبل کے خواب لئے وہ بازار حسن میں لٹ جاتی ہیں لیکن ان کے خوابوںکی تکمیل نہیں ہوپاتی۔
ناول ’’شبنم‘‘ کے تعلق سے عام طورپر یہ بات مشہور ہے کہ اس میں عزیز احمد نے یونیورسٹی کے پروفیسروں کی عشقیہ داستان رقم کی ہے‘ خلیل الرحمن اعظمی کے بموجب :
’’اس ناول میں یونیورسٹی کے پروفیسروں کی زندگی اور ان کی اخلاقی کمزرویوں کو موضوع بنایا گیا ہے‘‘۔ ۱۳؎
اس بات کو تقویت اس لئے بھی پہنچتی ہے کہ عزیز احمد تقریباً دس بارہ برس تک یونیورسٹی سے وابستہ تھے اور درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے تھے۔
’’شبنم‘‘ میں پیش کردہ پروفیسر اعجاز کے روپ میں خود ان کے حقیقی کردار کی مشابہت دکھائی دیتی ہے۔ جس میں وہ اپنے ناولوں اور اس کے موضوعات پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پروفیسراعجاز کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آدمی کچھ عجیب طرح کے تھے‘ ان کا ذہنی تکبر بہت مشہور تھا اور نوجوان اُن کی اس اکڑ کو کچھ زیادہ پسند نہیںکرتے تھے‘ ان کی قابلیت وغیرہ پر تو خیر اکثر لوگ غور ہی نہیں کرتے تھے‘ ہاں اس پر اختلاف رائے ضرور تھا کہ انگریزی کی پروفیسری کے ساتھ ہرسال بے تحاشہ ایک ناول لکھنا کیا ضروری ہے۔۔۔۔ اور کیا نام رکھے ہیں‘ ’’آتش کشمیر‘‘ ’’فرار‘‘ وغیرہ جن میںرسوائے جنس اور عریانی کے کچھ نہیں‘‘۔۱۴؎
’’آتش کشمیر‘ ’’فرار‘‘ سے مراد عزیز احمد کے ناول ’’آگ‘‘ اور ’’گریز‘‘ہیں۔ ’’شبنم‘‘ میں پروفیسر اعجاز کے روپ میں عزیزاحمد کی شخصیت کی جھلک اور دوسرے کرداروں کی زندگی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد نے اپنے ماحول کے حقیقی واقعات اور حقیقی کرداروں کو اس ناول میں پیش کیا ہے۔
ارشد‘ شبنم کے کردار کے بارے میں استفسارکرتاہے تو وہ جواب دیتی ہے:
’’دیکھئے ہم امیر نہیں‘ ابا جان منصف تھے‘ اب وظیفہ ہوگیا‘ عالمگیر نگر میں پچیس تیس ہزار کے مکانات ہیں‘ یہاں ایک چالیس ہزار کا مکان ہے‘ لیکن ہماری رگوں میں شریفانہ خون ہے ‘ عالیشان حویلیاں نہیں لاکھوں روپیہ نہیں‘ لیکن ہم اپنی گڈری میں مست ہیں‘ دوسری چیز یہ کہ میری پرورش خالص مشرقی ماحول میں ہوئی ہے‘ میرے خاص عقیدے اور روایات ہیں میر ان عقیدوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا مذہب کا مجھے سب سے زیادہ خیال ہے‘‘۔۱۵؎
عزیز احمد کی ناول نگاری کے جائزے میں یہ بات خصوصیت سے واضح ہوتی ہے کہ ان کے ناولوں میں ان کا مطالعہ‘ مشاہدہ وسیع تجربہ اور علمیت ضرور شامل ہوتے ہیں۔ عزیز احمد کسی مقام یا افراد کے بارے میں اس وقت تک نہیں لکھتے جب تک ان کا عمیق مشاہدہ نہ کرلیں‘ 1957ء تا 1962ء میں وہ انگلستان میں مقیم تھے‘ چنانچہ ان کا ناول ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ برطانوی زندگی سے متعلق ہے۔ اس ناول کا بنیادی موضوع مشرق و مغرب کے لوگوں کی زندگی کا فرق پیش کرنا ہے اس ناول میں عزیز احمد نے نسل پرستی اور رنگ و نسل‘ مذہب و تہذیب کی بنا لوگوں میں تفریق‘ پاکستانی نوجوانوں کی انگلستان میں آزادی‘ ایشیائی تارکین وطن کے مسائل‘ طرح طرح کے لوگوں کے جذبات و خیالات غرض مختلف موضوعات پر فلسفیانہ مباحث کے ذریعہ وہاں کی زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا ہے اس کے علاوہ مشرق کے اعلیٰ تہذیبی و اخلاقی اقدار کے ساتھ وہاں کے لوگوں کی اخلاقی گراوٹ اور مغرب میں نسلی امتیاز برتنے والوں کے باوجود لوگوںمیں مشرق و مشرقی اقدار سے دلچسپی کے تضاد کو مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔
’’تری دلبری کا بھرم‘‘ میں ڈاکٹر جمشید اور کرسٹل مرکزی کردار نبھاتے ہوئے اپنے کلینک میں آئے مریضوں سے احوال سنتے ہیں‘ اس طرح عزیزاحمد نے اپنے ناول کو آگے بڑھا یا ہے‘ سب سے پہلے ماسٹر اقتدار الاولیاء آتے ہیں‘ یہ بنگلہ دیشی ہیں جو اُس وقت مشرقی پاکستان کہلاتا تھا ان کی عمر 26برس ہے اور جائگام کے ایک مدرسہ میں ہیڈ ماسٹر ہوتے ہوئے لندن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن میں ایم اے کے طالب علم ہیں‘ مذہبی آدمی ہیں اور اعصابی کمزوری کے علاج کیلئے ڈاکٹر صاحب کے یہاں آتے ہیں ڈاکٹر صاحب سے نسخہ لے کر جب وہ لندن کی تیز رفتار زندگی میں ایک مرتبہ پھر داخل ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگتے ہیں‘ یہاں کے لوگوں کے بارے میں ان کے خیالات ملاحظہ ہوں:
’’یہ سب کون ہیں جو پریتوں اور پریوں کی طرح اپنے اپنے کام سے چلے جارہے ہیں۔ کوئی کسی سے بات نہیں کرتا‘ راستہ میں کوئی کسی کو ٹہراکر خیریت نہیں پوچھتا کسی کو کسی سے غرض نہیں‘‘۔ ۱۶؎
ماسٹر اقتدار الاولیاء مشرق کے ایک غیر ترقی یافتہ ملک سے آئے تھے‘ جہاں زندگی اور ممالک کے مقابلہ میں سست روی سے چل رہی تھی اور لوگوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ ایک دوسرے کی خیریت پوچھ لیتے‘ لیکن لندن جیسے شہر میں جہاں صنعتی انقلاب کے بعد زندگی مشینی ہوگئی تھی اور لوگ مادہ پرست ہوتے جارہے تھے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں رہا تھا کہ وہ سماجی اخلاقیات نبھانے کیلئے اپنا کچھ وقت دے سکیں لیکن مغرب کی یہ ترقی بعض معاملات میں ماسٹر صاحب کو اچھی لگتی ہے ان کا خیال ہے کہ :
’’ہر چیز قسطوں پر ملتی ہے‘ یہاںہر ایک کو دوسرے پر کتنا اعتبار ہے‘ یہاں ہر معاملہ کی ابتداء اعتبار سے ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں بے اعتباری سے ہمارے ملک میں ہر شخص اس وقت تک مجرم ہے جب تک وہ اپنے آپ کو بے گناہ نہ ثابت کرے‘‘۔ ۱۷؎
اس طرح عزیز احمد نے مشرق و مغرب کے تضاد کو پیش کرتے ہوئے یہ بات بتائی کہ مغرب میں علم کی ترقی اور نظم و ضبط کی بدولت ترقی ہوئی ہے اور مشرق اس لئے پیچھے ہے کہ وہاں ظلمت کا اندھیرا دور نہیں ہوا ہے اور قدیم فرسودہ روایات کے پس پردہ قوم جہالت میں ڈوبی ہوئی ہے۔
نتائج:
عزیز احمد کے ناولوں کے انفرادی مطالعے اور ناولوں میںپیش کردہ شہری زندگی کے ماحول کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد کے ناولوں میںعلاقائی اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اور ان کی ناول نگاری کا سفر ان کی زندگی کے سفر کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ان ناولوں میں جو نوجوان کردار پیش ہوئے ہیں ان میں بالواسطہ طور پر عزیز احمد نے خود اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ اس طرح یہ مطالعہ واضح کرتا ہے کہ عزیز احمد کے ناولوں میں زمانی اور علاقائی اثرات کی ان کے حالات زندگی سے مطابقت پائی جاتی ہے۔اور اردو ناول کا قاری یہ بات واضح طور پر محسوس کرنے لگتا ہے۔
حواشی
۱؎ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ’’اردو افسانہ کی روائت‘‘ ص ۵۷۳۔اکاولی ادبیات پاکستان ۱۹۷۱ء
۲؎ عزیز احمد ’’ہوس‘‘ ص ۳۱۔۳۲
۳؎ عبدالحق’’دیباچہ‘‘ مرمر اور خون‘‘ از: عزیز احمد ص۷۔ مکتبہ جدید لاہوربار دوم ۱۹۵۱ء
۴؎ عزیز احمد ’’ہوس‘‘ بشمول عزیز احمد کی ناول نگاری‘ از سلیمان اطہر جاوید‘‘ ص۶۰
۵؎ عزیز احمد’’مرمر اور خون‘‘ ص ۱۴
۶؎ عزیز احمد’’مرمر اور خون‘‘ ص ۲۹
۷؎ محمداحسن فاروقی’’اردو ناول کی تنقیدی تاریخ‘‘ ص ۲۳۴ لکھنو۱۹۶۲ء
۸؎ عزیز احمد’’گریز‘‘ ص ۱۲۵
۹؎ یوسف سرمست ’’بیسویں صدی میں اردو ناول‘‘ ص ۲۴۶
۱۰؎ عزیز احمد ’’آگ‘‘ ص ۱۲۲
۱۱؎ عزیز احمد’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ ص ۶۷
۱۲؎ عزیز احمد’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ ص ۱۳۰
۱۳؎ خلیل الرحمن اعظمی‘ ’’اردو میں ترقی پسند تحریک‘‘ ص ۲۱۳۔ ایجوکیشنل بک ہاوس علیگڑھ ۱۹۸۴ء
۱۴؎ عزیز احمد’’شبنم‘‘ ص ۶۰۔ دہلی ۱۹۶۰ء ایڈیشن ناشر شاہین بکڈپو امیرا کول کشمیر۔
۱۵؎ عزیز احمد’’شبنم‘‘ ص ۱۲۳
۱۶؎ عزیزاحمد’’تری دلبری کا بھرم‘‘ ص ۳۸
۱۷؎ عزیزاحمد’’تری دلبری کا بھرم‘‘ ص ۳۹