دنیا کی تمام بڑی بڑی ائر لائنوں نے مجھے اپنے جہازوں میں سفر کرنے کی پیشکش کی ان میں روانڈا، گھانا، نائجر، چاڈ، صومالیہ اور افغانستان کی ائر لائنیں نمایاں تھیں۔ ان ائر لائنوں نے گارنٹی دی تھی کہ ان کے جہازوں میں سفر آرام دہ ہوگا، کسی معاملے میں تاخیر نہیں ہوگی اور معیار عالمی سطح کا ہوگا لیکن میں نے ان کی پیشکش ٹھکرا دیں، میں نے دنیا کی عظیم ترین ائر لائن سے ٹکٹ خریدا۔
دنیا کی عظیم ترین ائر لائن کے عظیم جہاز سے جب میں بنکاک کےلئے کئی گھنٹوں کی تاخیر سے روانہ ہوا تو اس جہاز کا لاہور رُکنے کا کوئی پروگرام نہ تھا لیکن جب یہ جہاز لاہور سے گزر رہا تھا تو کچھ مسافروں نے راستے میں کھڑے ہو کر زور زور سے ہاتھ ہلائے اور جہاز کو رُکنے کا اشارہ کیا، جہاز نے جواب میں زور زور سے ہارن بجائے اور انہیں راستے سے ہٹ جانے کےلئے کہا لیکن گٹھڑیاں سروں پر لادے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے مسافر کہاں ماننے والے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ جی ٹی ایس کی اس بس کو، نہیں، معاف کیجئے، میرا مطلب ہے عظیم ترین ائر لائن کے اس جہاز کو لاہور رکنا پڑا۔ یہ اسلام آباد سے کئی گھنٹے تاخیر سے چلا تھا۔ دو گھنٹوں کی تاخیر مزید جمع ہوگئی۔
ہانگ کانگ جانے والا یہ جہاز بنکاک رُکا تو کئی مسافر نیچے اترے۔ ان مسافروں نے بنکاک سے سنگاپور، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کئی دوسرے ملکوں کےلئے جہاز پکڑنے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ سارے جہاز جا چکے ہیں، ان گستاخ جہازوں نے عظیم ترین ائر لائن کے جہاز کا انتظار ہی نہیں کیا۔
ان واماندہ مسافروں کو بنکاک کے ہوائی اڈے کے ملازمین دیکھتے تھے اور روتے تھے۔ دیکھتے اس لئے تھے کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے ملک کی ائر لائن دنیا کی عظیم ترین ائر لائن ہے اور روتے اس لئے تھے کہ عظیم ترین ائر لائن کا کوئی نمائندہ ان کی رہنمائی کے لئے موجود نہیں تھا۔ بالآخر ایک تھائی بی بی نمودار ہوئی اُس نے عظیم ترین ائر لائن کا نام لے کر قہقہہ بلند کیا اور کہا کہ اس ائر لائن کے جہاز ہمیشہ تاخیر سے آتے ہیں اور اس کے مسافر ہمیشہ بدحال اور خراب ہوتے ہِیں۔
ان مسافروں کو پورے چوبیس گھنٹے بنکاک رُکنا پڑا، دوسرے دن یہ مختلف جہازوں مےں بیٹھ کر سنگاپور اور دوسرے شہروں میں پہنچے۔ نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور دوسرے ملکوں کو جانے والے جہاز بھی جا چکے تھے چنانچہ انہیں کئی شہروں میں کئی بار رُکنا پڑا۔
عظیم ترین ائر لائن کا جہاز جب بنکاک سے اُڑا تو یہ گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں کے حساب سے تاخیر کا شکار ہو چکا تھا۔ اسکی منزل ہانگ کانگ تھی، یہ ہانگ کانگ اُترا تو اسکے مسافروں کی شکلیں بدل چکی تھیں۔ عورتیں بوڑھی ہو چکی تھیں، مرد کبڑے ہوگئے تھے۔ بچے شادی کی عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
ہانگ کانگ اتر کر کچھ مسافروں نے جاپان کا جہاز پکڑنا تھا اور کچھ نے کوریا کا، معلوم ہوا کہ یہ سارے جہاز بھی جا چکے ہیں، چنانچہ ان مسافروں کو کئی گھنٹے، ہانگ کانگ میں رُکنا پڑا۔ جب یہ مسافر ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے پر، بنچوں پر بیٹھے، اپنی قسمت کو رو رہے تھے تو عظیم ترین ائر لائن کے افسر اور ملازمین ہانگ کانگ کے بازاروں میں سیر اور شاپنگ کر رہے تھے۔
میں پچھتا رہا ہوں کہ کاش روانڈا یا صومالیہ کی ائر لائن سے سفر کر لیتا۔ سنا ہے کہ رونڈا، گھانا، چاڈ اور صومالیہ کی ائر لائنوں میں بھرتی سفارش سے نہیں ہوتی۔ وزارت دفاع چلانے والے جرنیل ان ائر لائنوں کے انچارج نہیں ہوتے۔ انکے جہاز وقت پر روانہ ہوتے ہیں اور اگر تاخیر ہو جائے تو مسافروں کو ٹیلی فون پر باقاعدہ مطلع کیا جاتا ہے کہ فلاں وقت کے بجائے فلاں وقت پر پہنچیں۔ عظیم ترین ائر لائن نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی مسافر کو ٹیلی فون پر تاخیر کی اطلاع نہیں دی۔ ہاں! اُن شخصیات کو ضرور اطلاع دی جاتی ہے جو منیجنگ ڈائریکٹر کا تبادلہ کر سکتی ہیں۔!
روانڈا، گھانا، چاڈ اور صومالیہ کی ائر لائنوں میں کام کرنے والی میزبان خواتین کے چہرے جھریوں سے اَٹے ہوئے نہیں ہوتے، نہ ہی ان کے عملہ کے مرد حضرات ریش ہائے دراز اور ریش ہائے سفید کے مالک ہوتے ہیں، ان ائر لائنوں کے ملازمین خوش اخلاق ہوتے ہیں اور جس سے بات کریں اُس کے پیٹ میں سات ٹیکے نہیں لگانے پڑتے۔ گھنٹی بجانے پر ان ائر لائنوں کی ائر ہوسٹسیں کہیں نہ کہیں سے ضرور ظاہر ہوتی ہیں اور آکر یہ نہیں کہتیں کہ بار بار کیوں بلاتے ہو، ہمیں بھی تو پرواز کے دوران آرام کرنا ہوتا ہے! سنا ہے کہ یہ ائر لائنیں مسافروں کو تازہ کھانا فراہم کرتی ہےں جسے کھا کر قے ہوتی ہے نہ اُبکائی آتی ہے! ان ائر لائنوں کے ملازمین سمگلنگ کر کر کے ارب پتی بھی نہیں ہوئے۔
روانڈا، گھانا، چاڈ اور صومالیہ کے ہوائی جہازوں میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ان کا عملہ بین الاقوامی اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہوتا ہے، مثلاً بین الاقوامی فضائی اصول یہ ہے کہ ہر تین مسافروں کے استعمال کرنے کے بعد بیت الخلا کو صاف کیا جائےگا۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان ائر لائنوں کے جہازوں میں بیت الخلا پورے سفر کے دوران صاف ستھرے رہتے ہیں، پانی ختم ہوتا ہے نہ فرش پر کھڑے ۔ہونے سے ٹخنے پانی میں ڈوبتے ہیں!
میں نے تو عہد کیا ہے کہ آئندہ روانڈا، گھانا، چاڈ یا صومالیہ کی ائر لائن سے سفر کروں گا۔ آپ کا کیا ارادہ ہے؟
http://columns.izharulhaq.net/2011_12_01_archive.html
“