وہ21 ستمبر 1897 کو لاہور کے کوچہ چابک سواراں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق عہدِ شاہ جہانی کے مشہور معمار خاندان سے تھا، جنہوں نے تاج محل آگرہ، جامع مسجد دہلی، اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کئے تھے۔عبدالرحمٰن چغتائی کے دادا رنجیت سنگھ کے میرِ تعمیرات رہے۔ عبدالرحمٰن نے مصوری کو پہلے مشغلے کے طور پر اختیار کیا اور پھر میو سکول آف آرٹس لاہور میں باقاعدہ داخلہ لے لیا ۔ 1914 میں وہاں سے ڈرائینگ کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ اس دوران انہوں نے استاد میراں بخش سے خاصا استفادہ کیا۔ پھر میو سکول ہی میں مصوری کے استاد رکھ لئے گئے۔ 1919 میں لاہور میں ہندوستانی مصوری کی ایک نمائش نے ان کی طبیعت پر مہمیز کا کام کیا۔ انہوں نے اپنے پرنسپل کے مشورے پر اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ’ماڈرن ریویو‘ میں اشاعت کیلئے بھیجیں۔ یہ تصاویر شائع ہوئیں تو ہر طرف چغتائی کے فن کی دھوم مچ گئی۔ اس زمانے میں انہوں نےمصوری میں اپنے جداگانہ اسلوب کی بنیاد ڈالی جو بعد ازاں چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوا۔
1928 میں انہوں نے’مرقع چغتائی‘ شائع کیا، جس میں غالب کے کلام کی مصورانہ تشریح کی گئی تھی۔ یہ اردو میں اپنی طرز کی پہلی کتاب تھی، جس کی بھرپور پذیرائی کی گئی۔1935 میں غالب کے کلام پر ان کی دوسری کتاب ’نقشِ چغتائی‘ شائع ہوئی۔ یہ بھی بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں ہوئیں اور ان کے فن پاروں کے مزید مجموعے شائع ہوئے۔
قیامِ پاکستان کے بعد چغتائی نے پاکستان کا پہلا ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے مونوگرام بھی انہوں نے تیار کئے۔
پاکستان میں مصوری کی پہلی نمائش بھی عبدالرحمٰن چغتائی کی تھی۔ یہ نمائش 10دسمبر 1949 کو لاہور میں آرٹس کونسل کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے ہاتھوں افتتاح کے موقع ہوئی۔ 31 مارچ 1952 کو گورنر جنرل غلام محمد نے کراچی میں ان کی نمائش کا افتتاح کیا۔
عبدالرحمٰن چغتائی ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’لگان‘ اور ’کاجل‘ شائع ہوئے۔
عبدالرحمٰن چغتائی نے 17 جنوری 1975 کو لاہور میں وفات پائی۔ ان کی تصاویر بے شمار آرٹ گیلریوں کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی عمارت اور دی ہیگ کے قصرِ امن میں بھی آویزاں ہیں۔
(انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، پاکستان کرونیکل سے استفادہ)
سید خورشید عالم:
چغتائی صاحب کو پتنگ بازی اور پتنگ سازی سے بھی دلچسپی تھی۔ بسنت سے ہفتہ بھر قبل تمام مصروفیات ترک کرکے پتنگیں بنانے اور انہیں ٹیسٹ کرنےمیں لگ جاتے تھے۔ پرفیکشنسٹ تھے، لہٰذا پتنگیں بھی پرفیکٹ بناتے تھے اور اس ایک ہفتے کے دوران دیکھنے والے فیصلہ نہیں کرپاتے تھے کہ چغتائی صاحب مصوری اچھی کرتے ہیں یا پتنگیں اچھی بناتے ہیں۔