سائنسی سراغرسانی کی ایک کہانی
اگر مشرقی ایشیا کے جنگلوں میں جائیں تو قسم قسم کے جاندار ملیں گے۔ گینڈے، لگڑ بگڑ، ٹاپیر وغیرہ۔ ان جنگلوں میں ایک وقت میں ایک عجیب جانور پھرا کرتا تھا۔ دس فٹ اونچا اور پانچ سو کلوگرام وزنی۔ آج کے بڑے گوریلا سے دُگنا۔ سائنسدان اسے جائیگین تھوپتھیکس کہتے ہیں۔ یہ اس دنیا میں پھرنے والا سب سے بڑا ایپ تھا۔ یہ کیسے رہا اور کیوں غائب ہوا؟ اس سب میں سیکھنے کی کئی باتیں ہیں۔
یہ کہانی ہانگ کانگ کے ایک روایتی دواخانے میں پڑے دانتوں سے شروع ہوتی ہے۔ ۱۹۳۵ میں سائنسدان رالف کوننگوالڈ دوا خانوں میں پڑے دانت دیکھ رہے تھے جن کو ڈریگن کے دانت کہا جاتا تھا۔ یہ طرح طرح کے جانوروں کے فوسل دانت تھے جو روایتی چینی ادویات میں استعمال کئے جاتے تھے۔ ان میں ایک حیران کن دانت ان کو نظر آیا۔ بہت بڑا اور فلیٹ۔ اس کا تجزیہ کرنے پر کوننگوالڈ نے نتیجہ نکالا کہ یہ دانت بہت بڑے سائز کے پرائمیٹ کا تھا۔ اس کو جائیگن تھوپیتھیکس کا نام دیا گیا۔ یعنی عظیم بندر۔ اس کے بعد ڈھونڈنے پر دوسری دکانوں سے دوسرے دانت ملے۔ پھر ایک غار سے جبڑا۔ اب تک اس کے ہزاروں دانت مل چکے ہیں اور جبڑے کی ہڈیاں لیکن کچھ اور نہیں ملا لیکن اسی سے ہم اس کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہیں۔
اس کی تین الگ انواع تھیں۔ سب سے پرانی نوے لاکھ سال پہلے کی۔ ان میں سے سب سے بڑا بیس لاکھ سال پہلے تھا اور ایک لاکھ سال پہلے ختم ہو گیا۔ یہ موجودہ چین اور ویتنام کے مقام پر تھا۔ ۲۰۰۸ میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ان کے دس دانتوں کے اینیمل کی موٹائی کی اور اس کے نیچے پائے جانے والے ڈینٹین کی سٹڈی کی۔ اس سے پتہ لگا کہ ان کا قریب ترین زندہ رشتہ دار کون ہے۔ وہ ہے اورنگاٹن۔ یہ کچھ عجیب تھا کیونکہ اورنگاٹن اونچے درختوں کے اوپر رہتے ہیں۔ جبکہ اپنے سائز کی وجہ سے اس کے لئے یہ ممکن نہیں تھا۔ یہ زمین پر رہنے والا تھا۔ اس سے نئے سوال جنم لیتے تھے۔ یہ کھاتا کیا تھا؟ اس کے دانت چوڑے اور فلیٹ تھے لیکن جبڑے مضبوط اور گہرے۔ ان کے سٹرکچر سے پتہ لگتا ہے کہ ان کی غذا زیادہ فائبر والی اور سخت تھی۔ کچھ دانتوں سے پودوں کے مائیکروفوسل بھی ملے جو فائیلولتھ کہلاتے ہیں۔ ان سے پتہ لگا کہ یہ کچھ قسم کی گھاس، غالبا بانس، پھل اور بیج کھاتے تھے۔ یہ فزیکل سراغ ہمیں ان کی غذا کا بتاتے تھے جبکہ ان کا کیمیائی تجزیہ ہمیں یہ بتا دیتا ہے کہ یہ رہتے کہاں رہے۔
سراغ رسانی کا اگلا قدم کاربن آئسوٹوپ سے شروع ہوتا ہے۔ فوٹوسنتھیسز کے عمل کے دوران مختلف پودے کاربن کے آئسوٹوپ کا فرق تناسب بناتے ہیں۔ اس کا انحصار ہے کہ وہ رہتے کہاں ہیں۔ مثال کے طور پر جو پودے ٹھنڈی اور نمی والی جگہ پر ہوتے ہیں، وہ سی تھری پودے کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اپنی خوراک تیار کرنے کے طریقے میں تھری کاربن ایسڈ بنتا ہے جو کاربن آئسوٹوپ کا اپنا خاص تناسب رکھتا ہے۔ جو پودے گرم اور خشک موسم میں اگتے ہیں وہ سی فور پودے کہلاتے ہیں کیونکہ ان کا فوٹوسنتھیسز کا طریقہ معمولی سا فرق ہے۔ یہ ان سائنسدانوں کے لئے بڑا کارآمد ہے۔ پودوں کے یہ کیمیکل دستخط ان کو کھانے والے جانور جذب کر لیتے ہیں۔ جائنگئن ٹوپتھیکیس کے دانتوں کے کیمیائی تجزیے نے مزید راز اگل دئے۔ نہ صرف یہ پتہ لگ گیا کہ وہ کھاتے کہاں تھے بلکہ یہ کہ وہ رہتے کہاں تھے۔
چینی سائنسدانوں نے اس کے اینیمل کا تجزیہ کیا جس سے پتہ لگ گیا کہ یہ صرف سی تھری پودے کھایا کرتے تھے۔ اس علاقے میں یہ پودے سرد اور نمی والے جنگلوں میں اگا کرتے تھے، نہ کہ گرم میدانوں میں۔ اس دور میں رہنے والے دوسرے ممالیہ جانوروں کا بھی اسی قسم کا تجزیہ کیا گیا یعنی اسی دور کے گینڈوں یا لگڑبگڑ وغیرہ کا۔ ان سے پتہ لگا کہ وہ نہ صرف سی تھری پودے کھاتے تھے بلکہ سی فور بھی۔ اس سے پتہ لگا کہ اگرچہ اس دور میں ماحول تو کئی طرح کا تھا لیکن یہ دوسرے چوپائوں کے برعکس اپنے آپ کو صرف گھنے جنگل تک محدود رکھتے تھے۔ ویسا ہی جیسے آج اورنگاٹن یا گوریلا کرتے ہیں۔ اس طرح کا سپیشلائزڈ طرز زندگی ان کے لئے لمبا عرصہ تو ٹھیک چلتا رہا۔ ان کی نوع بلیکی جنوب مشرقی ایشیا کے گھنے جنگلوں میں بیس لاکھ تک زندہ رہی۔
یہ زمین پر بڑی تبدیلی کا وقت تھا۔ پلاسٹوسین، جسے برفانی ایج بھی کہا جاتا ہے۔ جب گلیشئیر زمین پر بہہ رہے تھے اور بدل رہے تھے۔ جب یہ جمتے تو ہوا سے نمی کو بھی کم کر دیتے۔ پگھلتے تو اس نمی کو نکال دیتے۔ اس وجہ سے جانوروں کے رہنے والی جگہیں بھی بدل رہی تھیں۔ بیس ہزار سے ایک لاکھ سال تک موسم گرم مرطوب رہتا اور جنگلوں کو بڑھنے کا موقع ملتا لیکن اگلے ہی سائیکل میں پھیلتے گلیشئیر نمی جذب کرتے اور میدان ان کی جگہ لے لیا کرتے۔ جائیگن تھوپتھیکس ابتدائی کچھ گلیشئل پیریڈ میں بچ گئے۔ وسطی پلائیسٹوسین کے دور میں ایسا نہ ہوا۔ سردی کی تیز لہر سے بدلتی دنیا میں یہ ناپید ہو گئے۔ پھیلتی برف سے سکڑتے جنگل سے ان کی تعداد تیزی سے گھٹی۔ ایک لاکھ سال قبل آخری جائگئن ٹوپتھیکس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
یہ جانور اپنے ماحول کا ماہر تھا۔ اسے اگر اپنے مطابق ماحول ملتا رہتا تو یہ اپنے بڑے جثے کو سپورٹ کر سکتا تھا۔ لیکن صرف اپنے علاقے کا ماہر ہونے کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ بدلتی دنیا کا سامنا نہ کر سکا۔ اس دنیا میں مستقل تبدیلی کی ریت اسے لے ڈوبی۔
دوسرے جانور جو اپنے علاقے کے ماہر ہیں، ان کو بھی اسی قسم کا خطرہ ہے۔ اس کا قریب ترین زندہ رشتہ دار اسی قسم کے مسائل سے دو چار ہے۔ بورنیو اور سماترا کے گھنے جنگلوں میں رہنے والے اورنگاٹن کی تینوں انواع انسانی ایکٹیویٹی کی وجہ سے کم ہوتے جنگلات کی وجہ سے ناپید ہونے کے قریب ہیں۔ ابھی اس کی کہانی کے ٹکڑے مکمل نہیں۔ کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہم نہ صرف اس اورنگاٹن کی بلکہ خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اگر ایک وقت میں زمین پر بسنے والے اس عظیم گوریلے کی کہانی کی ٹھیک طریقے سے جان لیں۔
جبڑوں اور دانتوں کی مدد سے کی گئی سائنسی سراغرسانی کی اس کہانی میں ایک سبق بھی ہے کہ کوئی چاہے کتنا طاقتور ہو، کتنا بڑا یا کتنا ہی ماہر، اگر بدلتے وقت کا ساتھ نہیں دے سکتا تو باقی نہیں رہتا۔
یہ ناپید کیوں ہوا؟
https://www.livescience.com/53313-biggest-ape-forest-dwelle…
اس جانور کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Gigantopithecus
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔