کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ لوگ صرف عظیم فن پاروں سے متاثر ہوتے ہیں؟ یا ایک عظیم فن پارہ ،سب کو ایک ہی طرح سے متاثر کرتا ہے؟ بالکل نہیں۔میرے عزیز، کوئی فن پارہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو ،وہ آدمی کی داخلی دنیا کو اتنا ہی متاثر کرے گا ،جتنی اور جیسی وہ دنیا ہوگی۔بارش کا پانی ، زمین کے ایک قطعے سے سبزہ اگاتا ہے،اور دوسرے قطعے کو بس دلدل میں بدل کر اس کی روئیدگی کی قوت تباہ کردیتا ہے۔تم اپنے اردگرد ایسے لوگ دیکھو گے،جن کی داخلی دنیا میں ہومر، رومی ،بیدل، غالب،اقبال، بورخیس ،قرۃ العین حیدر،کامیو،اتالو کالوینو اور دیگر بڑے ادباکا ایک لفظ تک شامل نہیں،لیکن موسمی مقبولیت کی حامل کتابیں، ان کی نجی یادداشت کا مستقل حصہ بنی ہوئی ہیں۔ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ انھیں اس کا تاسف ہوتا ہوگا؟تم ان سے بات کرکے دیکھنا۔انھیں کوئی تاسف نہیں۔آدمی جسے پسند کرتا ہے، اس کے لیے دلیل گھڑنا ،اس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔صرف مقبول مصنفین ہی کو نہیں،لوگ پکے فاشسٹوں،ظالم آمروں کے دفاع کے لیے استدلال کے بہترین طریقے بروے کار لانے میں حیا محسوس نہیں کرتے۔
اسی طرح تمھیں یہ دیکھ کربھی حیرت ہوگی کہ کئی بار معمولی ، پمفلٹ نماتحریروں — اور آج کل تو سوشل میڈیا ٹرینڈز—-نے لوگوں کو اجتماعی طور پر منظم ومتحرک کیا ہے۔اور ان کے مقابلے میں صدیوں سے کلاسیک تسلیم کیے جانے والی کتابوں کےطلسم وجمال کا قصہ، چند اعلیٰ ذوق کے حامل افراد کے ڈرائنگ روم یا لائبریریوں کے ایک، تاریک شیلف تک محدود رہتا ہے۔ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ عظیم مصنفوں کے نام لوگوں کے حافظے میں شامل ہوجاتے ہیں مگر ان کی تحریروں کی روشنی کی ایک کرن بھی ، ان کی شخصیت میں نہیں اتری ہوتی۔ لوگ عظیم شعرا کا کلام بھی یاد کر لیتے ہیں،اسے لہک لہک کر پڑھتے بھی ہیں،داد بھی وصول کرتے ہیں مگر اس کلام کی معنیاتی دنیا کا ذرہ تک ، ان کے فکر واحساس کا حصہ نہیں بن پاتا۔ان کا حال میر کےاس شعر جیسا ہوتا ہے:
مکے گیا مدینے گیا کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا
وہ بڑے مصنفوں کی عظیم الشان دنیاؤں سے ویسے ہی چل پھر آکر اپنی ہی جون میں لوٹ آتے ہیں۔ کسی اور کو اس سے دل چسپی ہو یا نہ ہو،نقاد کو یہ جاننے سے ضرور دل چسپی ہونی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟اسے اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ دنیا میں عظیم ادب کی اتنی زیادہ کتابیں ہر لائبریری ، نصابوں اور کئی گھروں میں ہونے کے باوجود، یہ دنیا دکھوں کااتناہی تاریک گھر ہے،جتنا ہزاروں برس پہلے تھا ؟کیااسی لیے آج بھی ادب کا بڑا موضوع وہی انسانی مصائب ہیں جوہمیں گلگامش، یونانی دیوتاؤں کے قصوں، کتھا سرت ساگر ،بائبل کے ایوب کے صحیفے، اوردھمپد میں ملتے ہیں؟یہ دنیا کتنی بدلی ہے؟آدمی اندر سے کتنا بدلاہے؟
(زیر طبع کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط ” سے اقتباس)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...