(Last Updated On: )
’’شعوروادرک‘‘ شمارہ نمبر ۶ ۔ ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ پر گفت گو
اعتدال درسِ اسلام بھی ہے اور عمرانیات کی روح بھی ۔ لیکن کچھ عرصے سے جدید میڈیا بہت زیادہ مقبولحیثیت سے سوہانِ روح بنا ہوا ہے ۔ اس نے افراد کی متاعِ بے بہا یعنی ’’ وقت ‘‘ کو اس طرح گرفت میں لے لیا ہے ، جس طرح غلطی سے کمرے میں پھیلی ہوئی گیس آکسیجن کو کنزیوم کر لیتی ہے اور زندگی متاثر بلکہ مشکل ہوجاتی ہے ۔
ایک وقت تھا جب ڈیرے سجتے تھے ، بیٹھک لگتی تھی ، کچاری ہوتی تھی ۔ دن بھر کی کارروائیوں کا ذکر ہوتا تھا ۔ چھوٹے بڑوں سے کہانیاں اور تذکرے سنتے تھے‘ جن میں تجربات اور زندگی کا نچوڑ بیان ہوتے تھے ۔ سنجیدہ اور مزاحیہ ہر دو اَنداز آزمائے جاتے تھے تاکہ پیغام کی ترسیل بھی ہوسکے اور دن بھر کی مصروفیت سے ہونے والی تھکان اور پریشانی کو ختم کیا جاسکے ۔
لیکن دَورِ حاضر میں موبائل فون نے ساتھ ساتھ بیٹھے لوگوں کو یہ قوت دی ہے کہ گروپ کا ہر ایک فرد ضلع سے باہر کی حاصل وُصول میں لگا ہے تو کوئی صوبائی بلکہ ملکی حدود پار کرکے سات سمند رپار عہد و پیماں ، ربط و رَچائو اور بے محل چھپن چھپائیمیں ہمہ تن مصروف ہے ۔ا ور ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ مخاطبوں کو یقین دلا رہا ہے کہ
ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے
٭
بنا گئی مشینوں سا ہیں آرزوئیں انساں کو
وہ اُلفتیں بھی خواب ہیں‘ رفاقتیں بھی خواب ہیں
اس سب گَڑ بَڑ گھٹالے میں سب سے زیادہ نقصان ، قلم ، کتاب اور قاری کا ہوا ہے ۔ کسی بھی موضوع پر مواد جیسے تیسے کرکے انٹرنیٹ پر مل جاتا ہے ۔ لہٰذا وہ ادیبوں کی تلاش اور بر محل تحریر کا فقدان اس تیز رفتار ی کا تحفہ قرار پایا ہے ، صرف اتنا نہیں بلکہ کتب بینی کا زمانہ قصۂ پارینہ بن گیا ہے ۔ کیوں کہ انواع و اقسام کی تحریریں چھوٹی درمیانی اور بڑی سکرینوں پر رنگ برنگے فونٹس میں دستیاب ہیں۔ بے شک وہ تُک بندی پر مبنی ہیں مگر قاری کو پست حوصلہ کرنے میں اپنا کردار خوب نبھا رہی ہیں اور ۸ سال سے ۸۰ سال تک ہر فرد اچھا ، نیا اور اُس کے سے اچھا موبائل فون چاہتا ہے مگر کتاب نہیں اور اگر کوئی کچھ پڑھتا بھی ہے تو فقط فوری اور سَر سَری جب کہ حبیب احمد صدیقی نے فرمایا :
ہائے بیداد محبت کہ یہ ایں بربادی
ہم کو اَحساسِ زیاں بھی تو نہیں ہوتا ہے
آپ خواہ جس بھی سکرین پر جس بھی فارمیٹ میں کوئی ادبی ، اصلاحی یا کسی اَور طرح کا متن پڑھ رہے ہیں ۔ اس کی بنیاد کوئی نہ کوئی کتاب ہے ۔ کیوں کہ ایک عام فہم تعریف کے مطابق ہر لکھی ہو ئی بات کو کتاب ہی کہا جاتا ہے ۔اور اگر کتاب ہی نہ ہوگی تو پھر ’’ مچھلی کے بغیر پانی ‘‘ کے مصداق آپ کے ہاں سکرین تو ہوگی مگر سکرپٹ ہرگز نہ ہوگا اور دے دِلا کے ایک ہی مَصرف اور بیان آپ کے پاس ہوگا کہ
میں کھولاں کیڑھی کتاب نوں
میں کیڑھا لفظ پڑھاں
میں جیڑھا وَرقہ کھولدی
اس ورقے اوندا ناں
ایسے میں غنیمت ہے‘ ایسے لوگوں کا وجود جو دَامے ، دَرمے ، سخنے اس بنیادی ضرورت کے لیے متاعِ مطلوبہ یعنی کتاب کے وجود اور دَوام کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیتے ہیں ۔ قریہ قریہ سیر کرتے اور قرطاس و قلم کے ساتھ ساتھ نئے اور پرانے لکھنے والوں کو کھوج کھوج کر بار بار ملاقاتیں کرکے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ قلم کے جمود کو تحریک میں بدل سکیں ۔ انہیں لاثانی شخصیات میں ایک نمایاں نام محمد یوسف وحید ہے ۔
بچپن کی حسین یادوں میں ہماری ذات سے جڑا ایک حوالہ سب سے اچھی گڑیا کا انتخاب ۱۵ سیکنڈز سے پہلے کر لینا ہے اور خیر سے وہ زمانہ میلوں ، ٹھیلوں ، تہواروں ، شادی بیاہ اور عرس کے حوالے سے یادگار تھا ۔جہاں آج کی طرح پابندیاں نہیں تھیں بلکہ میل ملاپ ، رِیت رواج اور اسی طرح کی دیگر سماجی وَلولوں کی تازگی اور رَکھ رَکھائو بدرجہ اتم موجود تھا ۔ خیر آئے دن بازار سجا رہتا تھا اور ہماری سکھیاں امی سے اجازت لے کر ہمیں ساتھ لے جاتی تھیں ۔ اس تمہید کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ہم آپ کو بتا سکیں کہ وہ محمد یوسف وحید ‘ جس کا ذکر ہم باباجان سے پہلے سے سنتے آئے ہیں ۔ مگر اُن کے ذوق ، فکراور ادب کے معترف ہم کتاب ’’خان پور کا ادب ‘‘اور ’’ شعوروادراک‘‘ کا شمارہ نمبر ۴، ’’ حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ سے ہوئے اور اب ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر تو کہا ہی ان کے لیے گیا تھا :
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ادب کی خدمت کو خود پر فرض قرار دے کر رات دن ایک کر دینے والے یہ ادیب عمل کی ترغیب اس مؤثر انداز سے دیتے ہیں کہ آپ انکار کرکے تو دکھائیں ۔ آپ حالات کا شکوہ کریں تو کہیں گے مجھے دیکھ لو ۔ آپ وسائل کی کم یابی کی بات کریں تو درجہ بہ درجہ اپنے وَسائل کا خاکہ سامنے رکھ دیں گے ۔ آپ لوگوں کی ناقدری کا رونا روئیں گے تو جواب ملے گا باتوں کا کیا ہے ، آئی گئی ہوجاتی ہیں ‘ اَصل چیز عمل ہے ۔ صرف اسے اچھا ، سچا اور رَواں رَہنا چاہیے ۔
شاید کسی دانشور نے محمد یوسف وحید کے لیے ہی یہ بات کہی تھی کہ
’’ مثالیں مت دو بلکہ خود مثال بن جائو ‘‘ ۔
ہاں مگر یہ کامیاب لوگوں کی مثال ضرور دیتے ہیں ۔ اور آپ کے ذہن میں جو بہترین خاکہ بنتا ہے ۔ اُس کی صاف ستھری ، واضح اور حقیقی فریم میں یہ خود فٹ آتے ہیں اور خوب آتے ہیں ۔محترم محمد یوسف وحید کی جس بات نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ‘ وہ اُن کی حوصلہ افزائی کی عادت ہے ۔ جس کے لیے وہ ہر ممکن طریقہ اپناتے ہیں بلکہ نت نئے ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔ہاں مگر اس میں ایک بات جو اُنہیں ہم سے ۱۰۰ میں سے ۱۰۰ نمبر دلواتی ہے ۔ وہ ہے اُن کا مخلص اور بے لوث ہونا ۔ وقت کی کمی کا اَحساس شدت سے کرتے بھی ہیں اور دوسرے کو اُس کا اَحسا س بھی باورکراتے ہیں ۔ کسی آشنائے راز کے اس شعر کی صورت آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔
ملک عدم توں ننگے پنڈے اَوندا اے اندر جہانے
اک کفن دی خاطر بندہ کناں پینڈا کردا اے
ہم اکثر سوچتے رہتے ہیں کہ قدم قدم پر حوصلہ شکنی ، زہر فگاری ، طعنہ زنی ، سرد مہری اور اسی قبیل کے کئی ایک منفی روّیوں کو برداشت کرتے ہوئے کس طرح اپنے اچھے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسروں کے لیے لیے بھی آسانیوں کا سامان کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ عزت دو اور عزت لو ، کائنات کا مُسلمہ اُصول ہے ۔اس کی عملی شکل ہم سے اُن کی مہربانیوں کی جھلک ایک نظر ملاحظہ فرمائیں :
نمبر شمار
نام مضمون /تحریر
موضوع
اشاعت
۱
’’خان پور کا ادب ‘‘۔
تعارف
خان پور کا اَدب ، الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، ۲۰۲۱ء
۲
حیدر قریشی کی افسانہ نگاری
نثری مضمون
سہ ماہی شعورو ادراک ، شمارہ نمبر ۵، ( جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء)
۳
گوہرِ باکمال …سیّد محمد فارو ق القادری ؒ
نثری مضمون
سہ ماہی شعورو ادراک ، شمارہ نمبر ۵ ، خصوصی گوشہ ’’ سید محمد فاروق القادری ‘‘
( جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء)
۴
محسنِ ادب و سفیرِ محبت …حفیظ شاہد
نثری مضمون
سہ ماہی شعورو ادراک ، شمارہ نمبر۶،
( اپریل تا جون ۲۰۲۱ء)
۵
خان پور کا اَدب
تبصرہ
کتاب:’’ خان پور کا اَدب ‘‘۔ہفت روزہ اخبار ِاکبر رحیم یار خان ۔پنجند ڈاٹ کام ، شعوروادراک ، شمارہ نمبر ۵ ( جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء)
۶
مجلہ ’’شعوروادراک ‘‘
تبصرہ
شعوروادراک شمارہ نمبر۴ ، خاص نمبر’ ’حیدر قریشی گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ پر تبصر ہ
ہفت روزہ اخبارِاکبر رحیم یار خان ۔ پنجند ڈاٹ کام (ویب سائٹ)
۷
مجلہ ’’شعوروادراک ‘‘
تبصرہ
شعوروادراک شمارہ نمبر ۵ ، خصوصی گوشہ’ ’سید محمد فاروق القادری ‘‘ پر تبصر ہ
ہفت روزہ اخبارِاکبر رحیم یار خان ۔ پنجند ڈاٹ کام (ویب سائٹ)
سلطان العاشقین خواجہ غلام فرید ؒکے ۱۲۴ ویں سالانہ عُرس کا دن تھا اور ہم خواجہ غلام فرید کے حضور منقبت کے دو اشعار کہہ چکے تھے کہ بابا جان نے بتا یا کہ ’’ شعوروادراک‘‘ کے تازہ شمارہ نمبر ۶ ، ’’ حفیظ شاہد نمبر‘‘ پر تبصرہ ذرا جلد ی لکھ دیں ۔ ہم نے بسم اللہ پڑھی اور تبصرہ مکمل کرنے کے بعد منقبت کے باقی ماندہ اشعار مکمل کیے ۔ منقبت کے چند اشعار قارئین کی نذر تاکہ حوالہ بھی رَہ جائے اور سنبھالا بھی رَہ جائے ۔
منقبت بحضور سلطان العاشقین خواجہ غلام فریدؒ
دل میں فریدِ پاک کی اُلفت اُجال کر
دل کے نگر کو آج تو رشکِ جمال کر
اہلِ نظر میں ذوق کی خیرات عام ہے
باطن کی آنکھ کھول کے رقص و دھمال کر
وحدت کے تو آکے یہاں قلزم میں ڈوب جا
تو حق نما ہو یار کا بھی خال خال کر
دامن زباں کو تو بچا دنیا کی بھیڑ میں
خواجہ کے آ دربار میں دل کو سنبھال کر
اے شمسؔ دل عرفان سے معمور کر اَبھی
ہے کیمیا کی کان بس دَم دَم خیال کر
حدیث ِ مبارکہ میں الاعمالُ باالنّیات فرما کر صفتِ اخلاص کی عظمت اور اہمیت دونوں کو اُجاگر کر دیا گیا ہے ۔ محمد یوسف وحید بجا طور پر اَخلاص کی دولت سے مالا مال ہیں ۔ حلقۂ احباب اور حلقۂ اَثر میں بھی فردِ غنی ہیں ۔ اپنی دُھن میں مگن مقاصد کے حُصول کے لیے نہایت صدقِ دل سے کوشاں اور اُمید کی کرن مل جانے پر نہایت شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں اور پھر تازہ دَم ہو کر نئے مقاصد کے حُصول کے لیے عزمِ سفر کرتے ہیں ۔ عمیر نجمی کا ایک شعر اُن کی نذر کہ
مجھے پہلے پہل لگتا تھا، ذاتی مسئلہ ہے
میں پھر سمجھا محبت کائناتی مسئلہ ہے
ہم اپنی بات کو مختصر کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مجلہ ’’ بچے من کے سچے ‘‘ اور ’’ محمد یوسف وحید ‘‘ کو دیکھ کر محنت ، محبت ، اخلاص ، جذبہ اور عزم و استقلال پر یقین آنے میں دیر نہیں لگتی ۔
٭٭٭
اُستاد الشعراء ، چھ شعری مجموعوں اور کلیات: ’’ ختمِ سفر سے پہلے‘‘ کے خالق حفیظ شاہد ‘ حساس ، نرمل سوچوں کے مالک اور دیدہ ٔ بینا رکھنے والے عمدہ شاعر تھے ۔ اُن کی شاعری اَمن ، محبت ، ہم آہنگی اور مثبت روّیوں کوفروغ دینے والے عمرانی تجربات کا نچوڑ ہے ۔اُن کے جملہ شعری کلام میںچھپا سبق اور پیغام واضح طور پر اَحساس دلانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ حفیظ شاہد نہایت صُلح جو ، امن پسند ، وطن پرست اور منفی روّیوں پر رنجیدہ ہوجانے والے سنجیدہ شاعر ہیں ۔ حفیظ شاہد اپنے کلام میں ایک واعظ کے روپ میں درسِ محبت دیتے نظر آتے ہیں ۔ حفیظ شاہد نے زندگی کے تلخ و شیریں نشیب و فراز اور تجربات کو اپنی شاعری میں نچوڑ کی صورت پیش کر دیا ہے ۔ ہم اگر ان تجربات سے فائدہ اُٹھانا چاہیں تو زندگی آسان اور خوب صورت ہوجائے گی ۔
حفیظ شاہد کے کلا م میں زندگی کے بہت سے رہنما اُصول ملتے ہیں ۔حفیظ شاہد سُستی اور کاہلی کوسخت ناپسندکرتے اور عقل وخرداور جرأت مندی کو پسند کرتے ہیں ۔ وہ اپنے قاری کو حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا درس دیتے ہیں ۔ اپنی مٹی اور اپنے وطن سے محبت کرنا سکھاتے ہیں ۔ الغرض حفیظ شاہد کا مکمل کلام ایک عمرانی صحیفے کی مانند ہے۔ حفیظ شاہد کے غیر مطبوعہ کلام کو حُسنِ ترتیب و اشاعت سے نواز کر محمد یوسف وحید نے ایک اہم اخلاقی ، ادبی اور ادب دوستی کا فریضہ سر انجام دینے کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے ۔
’’ شعوروادراک‘‘ کا تازہ شمارہ ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ نہایت عمدہ اور بے مثال کاوش ہے ۔ شمارے میں شامل حفیظ شاہد کا غیر مطبوعہ کلام جو ’’ حاصلِ غزل ‘‘ کے عنوان سے مدیر محمد یوسف وحید اور سعدیہ وحید نے ترتیب دیا ہے ۔ میں اس علمی ، ادبی اور تاریخی کارنامے پر ’’ شعوروادراک‘‘ کے مدیر ، معاون مدیر اور جملہ احباب کو دِلی مبارک باد پیش کرتی ہوں اور مزید ترقی ، کامیابی اور خوش حالی کے لیے دُعا گو ہوں ۔
’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ سے چند منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں :
کیا کتابِ منصفی میں ہے یہی مرقوم دیکھ
ایک ہی صف میں کھڑے ہیں ظالم و مظلوم دیکھ
(سفر روشنی کا )
زندگی سے مطمئن تو کم ملیں گے شہر میں
لوگ اپنے آپ سے برہم ملیں گے شہر میں
(سفر روشنی کا )
میں نے شاہد ؔاُس کو ڈھالا ہے غزل کے رُوپ میں
مجھ کو جو کچھ عصرِ حاضر کے مسائل سے مِلا
(چراغِ حرف)
خالی تھی میری جیب بھلا کیا خریدتا
بھر آئی آنکھ رونقِ بازار دیکھ کر
(چراغِ حرف)
یہ میں نے کب کہا ہے اپنے قصرِ زر میں رہنے دو
مجھے شہرِ قناعت کے شکستہ گھر میں رہنے دو
(مہتاب ِ غزل )
ہار پھولوں کے لئے بیٹھے ہیں اُس کی راہ میں
اور کر سکتے ہیں کیا اُس کی پذیرائی میں ہم
(مہتاب ِ غزل )
اجل اور زندگی کی دوستی اک حرفِ باطل ہے
بہت دشوار ہے پانی پہ بنیادِ مکاں رکھنا
(یہ دریاپار کرنا ہے )
فکرِ سُود وزیاں میں رہتا ہوں
میں بھی اِس خاکداں میں رہتا ہوں
(یہ دریاپار کرنا ہے )
بارِ غم و الم سے کہیں چھت نہ گِر پڑے
ڈرتا ہوں یہ بدن کی عمارت نہ گِر پڑے
(فاصلہ درمیاں وہی ہے ابھی )
خاموش ہیں سب لوگ مرے شہر کے شاہدؔ
مقتول سے قاتل کا پتا پُوچھ رہا ہوں
(فاصلہ درمیاں وہی ہے ابھی )
٭٭٭