زندگی کے دکھ گننا اور بات ہے اور اس کے دکھ سہنا بالکل اور بات ،اور جس حساس آدمی کو یہ دونوں خوبیاں میسر آجائیں اس کی انفرادیت اپنی جگہ قائم ودائم رہتی ہے بلکہ اپنے ہم عصروں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی ۔دکھ گننا دراصل اس دنیا کی گھمبیرتا کا جائزہ لینے کے مترادف ہے۔ہر دکھ کسی نہ کسی سانحے،واقعے ،شکست اور نارسائی کا آئینہ ہوتا ہے۔جب دکھوں کے شمار کرنے کا سبق اَزبر ہوجائے اور اس میں کسی طرح ردو کدکا احتمال باقی نہ ہو تو تجربہ سالم،کسک بے مثال اور زخم پختہ سے پختہ تر نظر آنے لگتے ہیں ،اور اس مستزاد یہ کہ ان رواں تجربات کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے اوپر طاری کرلینے کے مواقع بھی میسر آتے رہیں تو فنکار کی حسیات دنیا کے لیے آئینہ بن جاتی ہیں۔وہ اگر مٹی کو مٹی کہے تو لوگ اسے سونا سمجھتے ہیں۔اُس کی کارگہ ِ فکر و فن میں اگر کنکر بھی تراشے جائیں تو اُن کی دمک ستاروں،کہکشاؤں اور ہیروں سے کم نہیں ہوتی،میرے خیال میں اعظم کمال ایک ایسا ہی جہاں دیدہ اور دل گداختہ شاعر ہے جس کے اشعار میں غزل کی روایت سے لگا کھانے کے باوجود جدید کوائف و حالات کی ترجمانی اس خوبی سے ہورہی ہے کہ وہ ان ہر دو زمانوں کا نمائندہ شاعر معلوم ہوتا ہے۔وہ کسی برخود غلط قسم کے جدیدیے کی طرح پرانی بنیادوں کو ہلاتا نہیں بلکہ انھی پر ایک ایسی مضبوط عمارت استوار کر لیتا ہے جو دیدہ زیب بھی ہوتی ہے ،قابل ستائش بھی اور تاریخی اور ارتقائی اعتبار سے ایک سَچا اور سُچا اظہار بھی۔
اعظم کمال ایک صاحب ِ دل اور مرنجاں مرنج قسم کا انسان ہے۔وہ کچھ نہ بھی کہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں حرفِ خیر و برکت کا سرمایہ ہی رکھتا ہے اور اگر اس کا لب ِ حقیقت پسند اشعار کی زبان میں وا بھی ہو تو کہنے والے یہ کہتے اس کا حرف ،حرف ِ تسلی اور ہرہر لفظ ،باعث ِ اطمینان ِ قلب بن جاتا ہے۔یہ لوگوں کا اعظم کمال کی خوش نہادی،خوش طبعی اورخوش فکری پر کامل اتفاق اتحاد ہی تو ہے جو اسے ہر محفل میں جانِ محفل بنانے میں پیش پیش رہتا ہے۔ورنہ آج کل کی ادبی محفلوں پر اہل قلم کی ادبی کاوشوں کا تجزیہ کم اور ان کی ذات کی ادھیڑ بن زیادہ مرکز ِ فکر و نظر بن جاتی ہے۔اگر یوں نہ ہو تو یوں بھی نہ ہو کہ ایک جیسے تخلیقی سرچشمے سے سیراب ہونے والے لوگوں کے منہ شیر ینیوں کی بجائے کڑوے کسیلے ذائقوں سے آلودہ ہوں اور وہ اپنے آپ کو ایک دوسرے کا دوست کم اور رقیب زیادہ سمجھنے لگیں ۔اعظم کمال اس ضمن میں بڑا خوش نصیب ہے کہ وہ ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا ہے۔دوستوں پر جان دیتا ہے اور دشمنوں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ انہیں اس کو اپنا دشمن کہنے میں انتہائی ندامت سی محسوس ہوتی ہے ۔میرے خیال میں اگر اعظم کمال جیسے ایک آدھ اور شاعر یا قلم کار پیدا ہوجائیں تو ادبی کنیا کے پُورن ماشی کے دن ازسر نو لوٹ آئیں۔
جیسے میں پہلے عرض کرچکی ہوں اعظم کمال کے شعر میں غم کی گھلاوٹ ،درد کی چاشنی اور رنج کی تسکین آمیز راحت کچھ اس طرح گھل مل گئی ہے کہ اس کی فکر کے تیرونشتر باوجود اپنی تیز دھانی اور زخم آفرینی کے شاخِ گلاب سے جھڑتے ہوئے پھول دکھائی دیتے ہیں۔جن میں بلاشبہ کانٹے بھی ہوتے ہیںمگر ان میں چبھن کم کم ہی نظر آتی ہے۔یہ صفت ایک ناتجربہ کار فنکار میں کہاں دکھائی دیتی ہے۔کوئی مدت العمر تک شعر کے دشت میں بادیہ پیمائی کرے اور محمل ِ معنی کی باطنی سچائیوں سے لے کر ذرہ ہائے صحرا کی نوکیلی کار گزاریوں کا بھید جان لے تو یہ عرفانِ نظر نصیب ہوتا اور خال خال ورنہ مصرع موزوں کرلینا اور اس کے ماتھے پر کہکشاؤں اور رنگوں کی لیلا سجا لینا شاعری نہیں،ہنر مندی ضرور کہلائی جاسکتی ہے میں کہاں تک اپنے دعوے میں حق بجانب ہوں۔اس کی گواہی مندرجہ ذیل اشعار دیں گے:
دیکھنے میں ہے جو دیا معلوم
کیسے جلتا ہے کس کو کیا معلوم
کیا کروں خاک کے تکبر کا
آدمی بھی ہوا خدا ، معلوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے چہرے پیچھے ہیں چہرے کئی
آئینوں کی طرح ہم بھی حیران ہے
کیا کسی روز ہم نے کیا ہے شمار
آدمی کتنے ہیں کتنے انسان ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوف رسم و رواج بھی تو ہے
کل کی بنیاد آ ج بھی تو ہے
ہاں میں ہاں کس طرح ملاؤں تری
میرا اپنا مزاج بھی تو ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون کہتا ہے آسمان میں رکھ
میں دیا ہوں مجھے مکان میں رکھ
میری ہمدرد ہے میرے مولا
میری تنہائی کو امان میں رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبدیل کبھی راہ محبت نہیں کرتا
انسان کے رشتے سے بغاوت نہیں کرتا
اللہ کا بندہ ہوں عبادت ہے میرا کام
اعظم تو کسی شخص سے نفرت نہیں کرتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاک بدن کو خیرہ کیا نور تک گئے
صحن ِ حرم سے عرصہ گہہ ِ طور تک گئے
شرمندہ ہوکے موت نے ہتھیار رکھ دئیے
ہم زندگی سے ملنے بہت دور تک گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے خوابوں میں کھونا چاہتا ہوں
بہت جاگا ہوں سونا چاہتا ہوں
تری آنکھوں سے موتی جو گرے ہیں
رگِ جاں میں پرونا چاہتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کرے وہ کشادگی ٔ ظرف ،وسعت ِ نگاہ اور تسکین خاطر جو اعظم کمال کی زندگی اور شاعری کا طرہ ٔ امتیاز ہے قائم و دائم رہے اور اس کے آنے والے مجموعہ ہائے کلام ایک منفرد فکر،ایک منجھے ہوئے اسلوب،ایک رچے ہوئے طرز ِ امتیاز کا بیش قیمت سرمایہ ثابت ہوں۔