آج – 31/دسمبر 1958
مقبول پاکستانی شاعر، استاد شاعر بہزادؔ لکھنؤی کے پوتے اور ممتاز شاعر” عزم بہزادؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
اردو کے مقبول شاعر عزم بہزادؔ کا اصل نام مختار احمد تھا اور وہ ۳١ دسمبر ١٩٥٨ء کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور شاعر بہزادؔ لکھنوی کے پوتے تھے۔ ان کے والد افسر بہزادؔ بھی کراچی کے ممتاز شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ عزم بہزادؔ کو شاعری ورثے میں ملی ہے۔ ان کی شاعری کا آغاز ۱۹۷۲ء میں ہوا۔ ڈاکٹر بیتاب نظیری اور نازش حیدری سے مشورۂ سخن کیا۔ عزم بہزادؔ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں اور خلیجی ریاستوں کے مشاعروں میں شرکت کی ہے۔ وہ آج کل کسی اشتہاری ایجنسی میں بطور اردو کاپی رائٹر ملاز م ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں۔ عزم بہزادؔ کی شاعری کا مجموعہ ” تعبیر سے پہلے“ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔
٤ مارچ ٢٠١١ء کو اردو کے مقبول شاعر عزم بہزادؔ کراچی میں وفات پاگئے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر عزم بہزادؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اے خوابِ پذیرائی تو کیوں مری آنکھوں میں
اندیشۂ دنیا کی تعبیر اٹھا لایا
—
آمادگی کو وصل سے مشروط مت سمجھ
یہ دیکھ اس سوال پہ سنجیدہ کون ہے
—
دریا پار اترنے والے یہ بھی جان نہیں پائے
کسے کنارے پر لے ڈوبا پار اتر جانے کا غم
—
روشنی ڈھونڈ کے لانا کوئی مشکل تو نہ تھا
لیکن اس دوڑ میں ہر شخص کو جلتے دیکھا
—
سوال کرنے کے حوصلے سے جواب دینے کے فیصلے تک
جو وقفۂ صبر آ گیا تھا اسی کی لذت میں آ بسا ہوں
—
عجب محفل ہے سب اک دوسرے پر ہنس رہے ہیں
عجب تنہائی ہے خلوت کی خلوت رو رہی ہے
—
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں
—
کل سامنے منزل تھی پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا
—
کوئی آسان رفاقت نہیں لکھی میں نے
قرب کو جب بھی لکھا جذبِ رقابت لکھا
—
جانے کب کس پر کھل جائے شہر فنا کا دروازہ
جانے کب کس کو آ گھیرے اپنے مر جانے کا غم
—
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی
—
جو یہاں حاضر ہے وہ مثلِ گماں موجود ہے
اور جو غائب ہے اس کی داستاں موجود ہے
—
جو بات شرط وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بد گمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
—
اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
میں جاگتے رہنے کی تدبیر اٹھا لایا
—
حسن گویائی کو لکھنا تھا لکھی سرگوشی
شور لکھنا تھا سو آزار سماعت لکھا
—
پہلے دل کو آس دلا کر بے پروا ہو جاتا تھا
اب تو عزمؔ بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
میں جاگتے رہنے کی تدبیر اٹھا لایا
میں نیت شبِ خوں سے خیمے میں گیا لیکن
دشمن کے سرہانے سے شمشیر اٹھا لایا
وہ صبحِ رہائی تھی یا شامِ اسیری تھی
جب میں درِ زنداں سے زنجیر اٹھا لایا
آوارہ مزاجی پر حرف آنے سے پہلے ہی
دل تیرے تغافل کی تصویر اٹھا لایا
اے خوابِ پذیرائی تو کیوں مری آنکھوں میں
اندیشۂ دنیا کی تعبیر اٹھا لایا
وہ سنگِ ملامت تھا جس کو ترا دل کہہ کر
اس کوچے سے مجھ جیسا رہگیر اٹھا لایا
اس شخص سے میں سب کو عجلت میں ملا بیٹھا
اور اپنے لیے کیسی تاخیر اٹھا لایا
میدانِ شکایت سے کیا اپنے سوا لاتا
اک رنج تھا میں جس کی تعمیر اٹھا لایا
اس بزم سخن میں ہم کیا پہنچے کہ شور اٹھا
لو عزمؔ کوئی زخمی تحریر اٹھا لایا
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
بے حد غم ہیں جن میں اوّل عمر گزر جانے کا غم
ہر خواہش کا دھیرے دھیرے دل سے اتر جانے کا غم
ہر تفصیل میں جانے والا ذہن سوال کی زد پر ہے
ہر تشریح کے پیچھے ہے انجام سے ڈر جانے کا غم
جانے کب کس پر کُھل جائے شہرِ فنا کا دروازہ
جانے کب کس کو آ گھیرے اپنے مر جانے کا غم
یہ جو بھیڑ ہے بے حالوں کی دوڑ ہے چند نوالوں کی
نان و نمک کا بوجھ لیے جلدی سے گھر جانے کا غم
دریا پار اترنے والے یہ بھی جان نہیں پائے
کسے کنارے پر لے ڈوبا پار اتر جانے کا غم
عزمؔ اداسی کا یہ صحرا یوں قدموں سے لپٹا ہے
جلنے والوں کو مل جائے جیسے ٹھہر جانے کا غم
✧◉➻══════════════➻◉✧
جو بات شرط وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بد گمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
کسی ستارے سے کیا شکایت کہ رات سب کچھ بجھا ہوا تھا
فسردگی لکھ رہی تھی دل پر شکستگی کی نئی کہانی
عجیب آشوبِ وضع داری ہمارے اعصاب پر ہے طاری
لبوں پہ ترتیب خوش کلامی دلوں میں تنظیمِ نوحہ خوانی
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
عزمؔ بہزاد
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ عزمؔ بہزادکی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔