٢٠١٩ الوداع . نفرت کے ایک اور سال کا خاتمہ ہوا . سیاسی وعدے ادھورے رہے . ملک کو نفرت اور تشدد کی بھٹی میں جھونک دیا گیا . پانچ برس کی نفرت مودی کی دوسری اننگ میں اپنی انتہا کو پنھچ گیی .موت کا جو کھیل دادری اوراخلاق احمد سے شروع ہوا وہ ہجومی تشدد سے آگے بڑھ کے سی اے اے اور ڈیٹینشن سنٹر تک پنھچ گیا .آزادی کے بہتر برسوں میں پہلی بار مسلمانوں کو اجنبی بنانے کی مہم شروع ہوئی . جامعہ ملیہ کی حصّے داری نے وزیر داخلہ کے بڑھتے جنوں کو ٹھنڈا کرنے کا کام کیا . مودی کی طاقت دوسرے پائیدان پر آ گیی . ٢٧ برس بعد بابری مسجد کا فیصلہ آیا . علما کی قیادت آزاد ہندوستان میں پہلی بار حاشیہ پر آ گیی . اس برس ایسا بہت کچھ ہوا جو تاریخ میں پہلی بار ہوا .٢٠١٩ کی خوبی ہے کہ ہم ہندوستانی اچانک ١٥ ویں صدی میں پنھچ گئے .ہم ایسے خونچکاں مناظر کے ساتھ تھے جن کے بارے میں کبھی آزادی کے ٧٢ برسوں میں سوچا بھی نہیں تھا . مودی کی دوسری اننگ کی شروعات نے ہمیں نفرت کے ایسے جزیرے میں پہچا دیا ، جہاں سے باہر نکلنے کا کویی راستہ نہیں تھا . جی ڈی پی ٢ پر آگیی . کروڑوں بے روزگار ہو گئے .زندگی کی رفتار تھم گیی . چار برسوں میں ٥٠ ہزار سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کر لی . نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پہلے ہی ہندوستانیوں کو دھول چٹا چکی تھی . ٢٠١٩ میں ساری توجہ مودی نے اپنے لباس پر دی . ٢٠١٩ نے ثابت کیا کہ ملک کی ترقی کے نام پر بی جے پی کا دامن خالی ہے .٢٠١٩ نے بتایا کہ فسطائی طاقتوں کے عروج کے باوجود ایک بڑی طاقت نوجوانوں کی ہوتی ہے . کیب , این آر سی ، این آر پی اور سی اے اے کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے حکومت ہندوستانی عوام کی پیشانی پر موت لکھ رہی تھی ، طلبا طالبات کے ہجوم نے امت شاہ کے سازشی کھیل کو خراب کر دیا .٢٠١٩ میں جاتے جاتے امیت شاہ نے این ڈی ٹی وی
کے حوالے سے جو اپنا کمزور موقف سامنے رکھا ، اس میں ایک شکست خوردہ بادشاہ کی آواز سنایی دے رہی تھی . اس کے باوجود امیت شاہ کوئی بھی پیغام دینے میں ناکام رہے . ٢٠١٩ میں فلمی دنیا بھی دو حصّوں میں تقسیم نظر آیی . بہت بڑا فلمی قبیلہ احتجاج میں ساتھ آتا ہوا نظر آیا .
بابری مسجد فیصلہ ، مودی کی دوسری اننگ ، پورے ملک میں این سی آر نافذ کرنا . کیب کو قانون بنا کر مسلمانوں کی حق تلفی کرنا ٢٠١٩ کے ایسے زخم ہیں ، جن کا بھرنا
آسان نہیں . دو جادوگر اپنی فوج کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف نظر اہے ، ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا حادثہ تھا .
اب کچھ باتیں بابری مسجد کے تعلق سے کرتے ہیں .
فیصلہ آنے میں ٢٧ برس لگ گئے . یہ بھی ضروری ہے کہ ہم آخر کیسے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے ؟ ایسا فیصلہ جو مسلمانوں کو خوش کر دے ؟ ایسا فیصلہ جہاں مکمل انصاف ہو . بہت پہلے ایک کہانی پڑھی تھی ، ایک شخص نے جادوگر پر اعتبار کیا . جادوگر فریبی نکلا اور اس نے مسکرا کر استفسار کیا ، آج کے زمانے میں بھی جادو پر یقین رکھتے ہو ؟ جادو پر یقین نہ ہوتا تو معاملہ ١٩٤٩ میں بھی ختم ہو سکتا تھا . اس کے بعد بھی کانگریس کی حکومت میں کیی مواقع اے جب انصاف کی امید کی جا سکتی تھی . . اہم سوال ، مجرم کون ؟ بابری مسجد کا قفل کھولنے والا ؟ مورتی جس دور میں رکھی گیی وہ حکومت ؟ یا جس حکومت میں فیصلہ آیا ، وہ ؟ اب ایک بات یہ بھی نکل کر سامنے آیی کہ مسلم تنظیمیں کس بنیاد پر بار بار یہ کہتی رہیں کہ ان کو ہر فیصلہ منظور ہو گا . جبکہ جمہوریت کے دور میں ہی زندہ رہنے والی ہندو تنظیموں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ انکو ہر فیصلہ منظور ہوگا.شنوایی کے دوران اور قبل بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کمی تھی . کیی فریق بازار سجاے کھڑے تھے .ان میں مصالحت پر زور دینے والے بھی تھے . یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں نے آثار قدیمہ کی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا . جبکہ راجیو دھون نے بابر نامہ سے لے کے ہر وہ ثبوت پیش کیے جس سے مُقدمےکی نوعیت بدل سکتی تھی .اب آپ پچھلے ٦ ماہ کا جائزہ لیجئے . وہ پر سکوں تھے ، جنہیں پر سکون نہیں ہونا تھا . وہ پر امید تھے ، جہاں انکو پریشان ہونا تھا . ایک بڑی بات اور ہوئی ، جمہوریت اور آیین سے محبت کرنے والے سامنے آ گئے .
.
٢٠١٩ انتخابات کا نتیجہ آنے سے قبل کی پریس کانفرنس یاد کیجئے .٥ برس جس مودی کو شاہی انداز میں دیکھا ، پریس کانفرنس میں اسی مودی کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ کر پہلی بار اندازہ ہوا کہ انسان اندر سے کتنا کمزور ہوتا ہے . نتائج سے قبل کی پریس کانفرنس پر کتنے ہی کارٹون سوشل ویب سائٹ پر وائرل ہو چکے تھے . یہ وہ مودی نہیں تھا ، جسے ہم پانچ برس میں ہر دن دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے . قیمتی لباس . لہجے میں جوش . کسی کی پرواہ نہ کرنا . صرف امت شاہ پر بھروسہ کرنا اور جو بھی جی میں اے بولنا . نہ صحافیوں سے کویی گلا شکوہ نہ سوال جواب . اس بات کا اندازہ بھی مشکل تھا کہ آخر اس پریس کانفرنس کی ضرورت ہی کیوں محسوس کی گیی ؟ پریس کانفرنس کی قیادت امت شاہ نے کی .ہیرو وہی تھے . مائیک ان کے ہی ہاتھوں میں تھا . پہلی بار یہ بھی احساس ہوا کہ پریس کانفرنس کے ذریعہ امت شاہ اپنی طاقت کا اعتراف کرنے اے ہوں .کیا نتیجہ آنے تک امت شاہ مودی سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں ؟ سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے .اڈوانی کے ساتھ ساتھ ، کبھی پیچھے پیچھے چلنے والے نریندر نے آخر گرو کو ہی حاشیہ پر ڈال دیا .٢٠١٩ کا ایک کرشنا سادھوی پرگیہ کی سیاست میں حیرتناک واپسی بھی ہے . گوڈسے کو خدا ماننے والی سادھوی نے مودی اور شاہ کو نقصان پنہچانے میں کویی کمی نہیں رکھی . . امت شاہ سادھوی اور ہندو آتنک واد کی صفایی دیتے رہے . یہ سوال پوری طرح بے معنی رکھتا ہے کہ آخر سادھوی کی حمایت میں صفایی دینے کی ضرورت پیش کیوں ایی اور ضمانت پر رہا سادھوی کو ٹکٹ ہی کیوں دیا گیا ؟ تیج بہادر کو بے شرمی کے ساتھ الیکشن سے آوٹ کرنے والے الیکشن کمیشن نے سادھوی کے معاملے میں اپنے ضمیر کی کیوں نہیں سنی ؟
ذرا اندازہ لگائیے کہ یہ پانچ برس کیسے گزرا ؟
پانچ برسوں کی تاریخ کے ہر دن کو یاد کر لیجئے .
یہ کچھ اور تھا، جس سے ہم واقف نہیں تھے۔ لیکن کوئی تھا جو ہندوستان سے باربار ایک سوال کر رہا تھا رہا تھا ….اپنا گھر ایک شعبدہ باز کے حوالے کرنے کے بعد سوچتے ہوکہ کہ وہ تمہارے گھر کی حفاظت کرے گا؟ جواب کے طورپر کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ ایک کام کیجئے ۔ ایک سفید کاغذلیجئے۔ کاغذ پر گودھر ہ لکھتے ہوئے یقیناآپ کے ہاتھوں میں لرزش ہوگی ، مگر ابھی آپ کو دو منزلوں سے گزرنا اور باقی ہے ۔ آڑی ترچھی لکیریں کھیذرا سا احتجاج تو کر ہی سکتے تھے .نچ کر ایک ریلوے اسٹیشن بنالیجئے ۔ پٹریوں کی لائن بچھادیجئے ۔ پھر ایک پٹری پر ایک ٹرین کو کھڑا کیجئے ۔ ٹرین پر سابرمتی آشرم لکھ دیجئے ۔ پھر جی چاہے تو ٹرین کی ایک بوگی پر ایس ۔6لکھ دیجئے ۔ مگر یادرہے،اب ایک دھماکہ ہونے والا ہے ۔ یہ سادہ سا نظر آنے والا کاغذ سلگنے والا ہے اور اس کی آگ گلبرگہ سوسائیٹی سے نروداپٹیا اور نروداپٹیا سے ہوکر پورے ہندوستان تک پھیلنے والی ہے ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹرین2014کے بعد ہندوستان کے ہر شہر سے گزری ۔ اور آہستہ آہستہ ہم اس سفید کاغذ میں تبدیل ہوگئے، جس میں آگ سلگ چکی تھی۔اور ملک نفرت کی کہانی لکھ رہا تھا۔
تاریخ میں زراسا پیچھے جائیے تو ایک موڑ1857کا آتا ہے ۔ غدرہوا،ناکام رہا مگر غدر کے ناکام افسانوں میں جھوٹ کے پیوند نہیں لگے تھے۔ پھر زرا سا آگے بڑھیئے تو 1947آتا ہے ۔ کہتے ہیں ملک تقسیم ہوا تو سرحد کے دونوں طرف لاشیں بچھ گئی تھیں۔ جو کچھ ہوا بہت کھل کر اور ہیبتناک طریقے سے ہوا۔ انگریز شاطر تھے۔ عیّار تھے۔ مکار تھے شعبدہ باز تھے۔ ایسے شعبدہ باز جو ہاتھ میں گیند رکھ لیںاور آپ کو کہیں کہ دیکھو، یہ مٹھائی ہے۔ جب کہ آپ صاف دیکھ رہے ہیں کہ شعبدہ باز کے ہاتھ میں مٹھائی نہیں بلکہ بارود سے کھیلنے والی گیند ہے ۔2014کے بعد حکومت سنبھالنے والے بہت کچھ بھول گئے تھے .۔ ابہت کچھ کانگریس بھی بھول گیی تھی اور اب تک اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے .
نتائج آنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں مودی نے امبیڈکر کا نام لیا . آیین کے تحفظ کا ذکر کیا . یہ بھی کہا کہ ملک کی اقلیتوں کو فرضی خوف کے فریب میں مبتلا کیا گیا ہے . وہ اقلیتوں کو خوف کے ماحول سے باہر نکالنے کا کام کرینگے . اس تقریر کو بہتر شروعات کی طرف پہلا قدم مانا جا سکتا تھا مگر ایسا ہوا نہیں .حالات بدتر ہوتے چلے گئے . جیت کے بعد بھی مودی نے یہی کہا تھا کہ وہ بد نیتی سے کویی کام نہیں کریں گے .سب کو موقع دیں گے .اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی اقلیتیں خوف زدہ ہیں .اس کی وجہ پانچ برس میں ان کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی ہے . اقلیتیں حقیقت میں معصوم ہوتی ہیں .روزی ، روٹی ، روزگار اور تحفظ ان کے اہم مسائل ہوتے ہیں . اس لئے سیاست آسانی سے اقلیتوں کا شکار کر لیتی ہے
٢٠١٩ میں ہندوتو کے شہنشاہ امت شاہ وزیر داخلہ بن گئے . یہ عھدہ ان کو ہی سنبھالنا تھا . . اس عھدے کے لئے مودی کے پاس شاہ سے بہتر کویی نام نہیں تھا . شاہ فیصلہ لینے میں ماہر ہیں . راج ناتھ ان سے مختلف ہیں . نرم مزاج بھی ہیں اور دور اندیش بھی . اسلئے کیی بار ہمسایہ ملک کے تعلق سے بھی وہ کویی بڑا فیصلہ نہیں لے سکے . اب امت شاہ ہیں تو کویی بھی بڑا فیصلہ لینا مودی کے لئے بھی آسان ہو جائے گا . امت شاہ کے پچھلے بیانات کا جائزہ لیں تو یہ بات بہت حد تک صاف ہو چکی تھی کہ وزیر داخلہ کا عھدہ وہی سنبھالیں گے . راج ناتھ سنگھ کا رویہ یہ تھا کہ مسلمانوں سے ناراضگی نہیں چاہتے تھے . مسلم لیڈران سے بھی ملتے رہے ہیں . ہندوستانی مسلمانوں کو لے کر انکا ایک بیان بھی آیا تھا کہ جو بھی ہندوستانی مسلمانوں کے کردار پر شک کرتا ہے ، وہ غدار ہے . امت شاہ عام طور پر مسلمانوں کا نام نہیں لیتے . اب وزیر داخلہ بنے تو مسلمان گھس پیٹھیوں کو نکالنے پر آمادہ ہو گئے .. الیکشن کےدوران اروند کیجریوال مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہ بیان دے چکے تھے کہ مسلمانوں نے اگر غلطی کی ، مودی آ گئے تو وزیر داخلہ امت شاہ ہوں گے . اب یہ تمام باتیں پرانی ہو چکی ہیں .ملک کا مستقبل لکھا جا چکا ہے . راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں مودی کو اہم فیصلہ لینے میں وہ طاقت نہیں ملتی جو امت شاہ سے مل رہی ہے . بلکہ آج کی تاریخ میں اصلی وزیر اعظم امت شاہ ہو چکے ہیں . . امت شاہ کو لے کر مسلمانوں کے اندر جو خوف ہے ، اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا .
٢٠١٩ میں این سی آر کا معاملہ گرم ہوا . امت شاہ پہلے ہی یہ بیان دے چکے تھے کہ این سی آر کو پورے ہندوستان میں نافذ کیا جائے گا . ٢٠١٨ میں جب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آیا تھا تو کانگریس نے مخالفت کی تھی اور اس عمل کو غیر منصفانہ اور انسانیت کے خلاف بتایا تھا . امت شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ کانگریس میں طاقت کا فقدان تھا ، اس لئے حکومت میں رہتے ہوئے بھی کانگریس اس معاملے کو اٹھا نہیں پایی . آسام میں جن لوگوں کے نام این آر سی میں شامل نہیں ہیں ان کی تعداد محض 40 لاکھ نہیں بلکہ یہ خاندانوں کی تعداد ہے۔ لوگوں کی تعداد کل ملا کر 1.2 کروڑ ہے۔ اب اگر یہ معاملہ پورے ہندوستان کو لے کر شروع ہوتا ہے تو سمجھ لیجئے ، کروڑوں مسلمان شہریت سے خارج ہو جاہیں گے . . امت شاہ کے لئے یہ تمام فیصلے لینے آسان ہیں . . نفسیاتی سطح پر یہ خوف مودی کے اندر قائم رہے گا کہ امت شاہ سیاسی ریس میں ان سے آگے نہ نکل جاہیں . . جو مودی کے بھکت ہیں ، در پردہ یہی لوگ امت شاہ کے بھی بھکت ہیں . اور ایسے تمام لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے امت شاہ کا ساتھ کس قدر ضروری ہے .
بے نامی جائداد کے معاملے کو لیجئے تو کچھ باتیں صاف ہو جاتی ہیں .ایسی زمینوں پر حکومت کا قبضہ ہو جائے گا ، جنکے کاغذات نہیں ہیں یاآدھے ادھورے ہیں . تقسیم کے بعد بہت سے مسلمان پاکستان چلے گئے . زمینیں عزیز رشتے داروں کے پاس رہ گین . ممکن ہے حکومت ان زمینوں پر قبضہ کر لے جن کے وارث پاکستان چلے گئے ..اس قانون میں مسلمانوں کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن ایسی زیادہ تر زمینوں کے مالک مسلمان ہی ہیں .آسام کے لاکھوں مسلمانوں کے سر سے چھت چھین لینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اور اسکے آگے ملک کے باقی مسلمان ہیں جن پر خطرہ منڈلا رہا ہے .
. اب مسلہ صرف آسام کا نہیں ہے . امت شاہ این سی آر کو پورے ہندوستان میں نافذ کریں گے تو بڑے پیمانے پر مسلمان اس کا شکار ہوں گے .
یہ ملک جیسے ہندوؤں کا ہے ،اسی طرح مسلمانوں کا بھی ہے . 1857کی بغاوت میں مادر وطن ہندوستان زندہ باد کانعرہ پہلی بار عظیم اللہ خان نے لگایا تھا، جو اس انقلاب کی ایک مضبوط کڑی تھے۔ اس نعرے کا ترجمہ ہندی میں بھارت ماتا کی جئے ہوتا ہے .۔ ان معتصب شرپسندوں کو کیامعلوم کہ جس نعرے کی بنا پر ہماری صدیوں پرانی ملت کے شیرازے بکھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس کے پیچھے بھی ساجھی سنسکرتی کا ایک نمائندہ کھڑا تھا۔ یہ یوسف مہر علی تھے جنہوں نے پہلی بار انگریزوں کوئٹ انڈیا ، انگریزو بھارت چھوڑو کا نعرہ دیا۔ سائمن گو بیک کا نعرہ دینے والے بھی یوسف مہر علی تھے۔ اسی دور میں زین العابدین نے جے ہند کا نعرہ دیا اور اپنے نام کے آگے سافرانی کا اضافہ کیا، جس کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں۔ وہ جرمنی میں انجینئرنگ کی پڑھائی کررہے تھے ۔ پڑھائی چھوڑ کر آزاد ہند فوج میں شامل ہوگئے۔ اس زمانے میں قومی پرچم کے ڈیزائن کو لے کر ایک تنازعہ سامنے آیا۔ ہندوطبقہ زعفرانی رنگ چاہتا تھا اور مسلمان سبزرنگ پسند کرتے تھے ۔ ہندﺅں کی دریادلی تھی کہ انہوں نے زعفرانی رنگ کا ارادہ چھوڑدیا مگر زین العابدین کو یہ دریادلی کچھ ایسی بھائی کہ انہوں نے اپنے نام کے آگے Saffronیعنی بھگوارنگ جوڑنے کا فیصلہ کیا اور عابد حسن سفرانی بن گئے۔ انقلاب زندہ باد کانعرہ حسرت موہانی نے 1921میں دیا۔ بھگت سنگھ نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے یہی نعرہ لگایا تھا۔مولانا کو گنگا دھر کاتلک کانعرہ سوتنتر تا ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے بہت پسند تھا۔ سرفروشی کی تمنا کا نعمہ بسمل عظیم آبادی نے سنایا۔ آج جو ہمارا قومی پرچم ہے ، اس کا ڈیزائن حیدرآبادی خاتون ثریا طیب جی نے تیار کیا۔ ہزاروں مثالیں گواہ ہیں کہ اردو ہندی رشتے نے اپنی شگفتگی، تازگی اور ہمہ جہتی کی بنیاد پر عالم کاری کے اس عہد میں دنیا کے ہر خطے میں اپنے نقوش چھوڑے۔
ملک کی تعمیر میں جو کردار مسلمانوں کا رہا وہ تاریخ قبل فراموش سچ ہے .— اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ مولوی باقر نے اردو صحافت کے لیے جام شہادت نوش کیا اور دیکھیے تو یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1857سے تقسیم ہند تک مسلمان انگریزوں کے خلاف جنگ میں آگے ہی آگے تھے ، کبھی پیچھے نہیں ہٹے . مسلمانوں کا ہر لفظ انگریزوں کے لیے بغاوت تھااور پھر تاریخ کی کتابوں میں وہ دن روشن ہوا، جو آزادی سے منسوب ہے اور غور کیجئے تو اس کے پیچھے بھی مسلمانوں کے ناقابل فراموش کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قومی یکجہتی ہی تھی کہ منشی پریم چند اور منشی نولکشور جیسے لوگوں نے آگے بڑھ کر حکومت برطانیہ کے خلاف جہاد چھیڑ دیا— منشی نولکشور کے اودھ اخبارکے ایک مضمون میں انگریزی اخباروں کو ہندستان کی آستین میں سانپ تک کہا گیا۔ مکند لال، ایودھیا پرشاد، پنڈت کشن چند موہن، منشی گوپی ناتھ امن، صوفی انبا پرساد جیسے لوگ تھے جو مسلسل اخبارات کے ذریعہ انگریزوں سے لڑتے رہے تھے اور دوسری طرف عبد الرزاق ملیح آبادی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، مولوی احمد حسن شوکت، منشی محبوب علی، مولانا ظفر علی خاں، مولانا محمد اسمعیل علی گڑھی، مولوی جمیل الدین جیسی شخصیات بھی تھیں، جنہیں آزادی کی حمایت کے لیے انگریزی سرکار کا ظلم سہنا پڑ رہا تھا۔ قومی یکجہتی کی ایک زبان کو لے کر اس سے بڑی مثالیں اور کیا ہوسکتی ہیں۔ اور اس ملک کے لیے جہاں صوفی سنتوں کی صداﺅں نے وحدت کے گیت گائے ہوں، جس سرزمین کو خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیائ، قطب الدین بختیار کاکی، حضرت امیر خسرو نے اپنے لہو سے سینچا ہو، جہاں ایک زبان نے دلوں میں گونجنے والی شاعری سے بلا تفریق مذہب وملت محبت کا درس دیا ہو.
٢٠٠٢ میں گجرات حادثہ ہوا .ایک بڑی پلاننگ پر کام شروع ہوا . ایک وزیر اعظم نے مسلمانوں کو کتے کا پلا کہا ، ہم اس وقت بھی نہیں سمجھے کہ حکومت نے مسلمانوں کو ان کی اوقات سمجھانے کے لئے مہرے چلنے شروع کر دیے ہیں . تین طلاق ، ہجومی تشدد ، اشتعال انگیز بیانات ، میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنا .. ہم یہ سب دیکھ رہے تھے اور بابری مسجد میں الجھے ہوئے تھے . کرایہ داروں کی نہ زمین نہ ہوتی ہے نہ مسجد . اس طاقت کا اندازہ لگائیے کہ کسی مذھب کے خلاف کھل کر بولنا کیسا ہوتا ہے ؟ اس میں ہمت تھی .پارلیمنٹ میں سب کے سامنے جھوٹ بولنے کی . جبکہ ابھی کویی وقت نہیں تھا اس بل کو لانے کے لئے . جب معیشت دم توڑ رہی ہو ، بھوک ہر دروازے پر دستک دے رہی ہو ، نوجوان روزگار کو لے کر بے حال ہوں ، کسان خود کشی کر رہے ہوں ، ایسے ماحول میں ملک کے معیار کو بلند کرنے کی جگہ نفرت کے ایسے بل کو سامنے لایا گیا ، جس نے ساری حدیں توڑ دیں . یہ ہونا تھا یہ ہو گیا . یہ پہلے بھی ہو رہا تھا .چھ برسوں سے . وہ شخص ہر جگہ ، ہر اجلاس میں بھگوڑوں کو نکال باہر کرنے کی باتیں کرتا تھا اور ہماری ملی تنظیمیں ایسے اشتعال انگیز بیانات کے خلاف متحد نہیں ہو سکیں . جناح جیتے ، ہٹلر جیتا ، یا بی جے پی جیتی سوال اس کا نہیں . اب ماضی اور تاریخ کے حوالے بدل جاییں گے .سوچئے آگے کیا ہوگا ؟ مستقبل کا کیا ہوگا ..؟اگر اب بھی نہیں سوچ رہے تو وہ گیس چیمبر زیادہ دور نہیں جس کی پیشن گویئی میں نے مرگ انبوہ میں کی ہے . انکے لئے یہ سوال ہے ہی نہیں کہ تیس کروڑ مسلمان کہاں جاہیں گے ؟ وہ جہنم میں جاییں ، اس بات سے انھیں کویی سروکار نہیں . لیکن اس بات سے سروکار اب ضرور ہے کہ فلم ، میڈیا ، سپورٹس ، سرکاری نوکری ، ملک کے اہم منصب اور عھدوں پر مسلمان نہ ہوں . مسلمانوں کی سماجی ، سیاسی حیثیت کو زیرو بنا دیا جائے . ابھی وقت تاریخ کے مجرے دیکھنے کا نہیں ہے .ابھی وقت مولانا ابو الکلام آزاد جیسوں کو یاد کرنے کا نہیں ہے . یہ حالات مختلف ہیں . ہندوستان کو میانمار یا روہنگیا میں تبدیل کیا جا سکتا ہے . آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے . اس لئے کہ لوک سبھا سے راجیہ سبھا تک انھیں روکنے والا کویی نہیں .الوداع ٢٠١٩ ، تم نے اتنے زخم دیے ہیں کہ انھیں بھولا نہیں جا سکتا . ہم تمہیں یاد رکھیں گے . اور تمہاری نا کامیوں سے کامیابی کی راہ پیدا کریں گے ..