اس دنیا میں ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے آزادی سب کے حصہ میں مقرر کررکھی ہے آزادی ہر انسان کا ذاتی حق ہے اور کوئی اسے چھین نہیں سکتا، اور پھر صرف زندگی گزارنے کی آزادی نہیں بلکہ ہر چیز کی آزادی کا وہ حقدار ہے زبان و بیان کی آزادی، فکرو و خیالات کی آزادی اعضاء و جوارح کی آزادی ، چلنے پھرنے کی آزادی، اٹھنے بیٹھنے کی آزادی، کھانے پینے کی آزادی، اگر کوئی شخص ان سب آزادی کو چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو پھر وہ ظالم کہلاے گا،
غلامی اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں اور کیوں ہو جب پیدا کرنے والا خود اللہ ہے سب کچھ کا مالک وہی تو پھر حق یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کا غلام رہے بندہ اگر کسی کو اپنا غلام سمجھ لے اور جبرا وہ کسی کو اپنا غلام بنانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ شخص ظالم شمار کیا جائے گا،
تاریخ اسلام میں اس طرح کے بہت سارے نمونے دکھائی دیتے ہیں کہ جب جب کسی ظالم حکومت نے اللہ تعالیٰ کے کسی بندہ کو اپنا غلام بنانا چاہا تو پھر خداوند نے اس کی آزادی کا راہ ہموار کیا اور غلام بنانے والوں کو تہ تیغ کر دیا گیا،
فرعون نے جب بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنالیا تھا اور اسرائیلیوں پر خوب ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے ان کے لڑکیوں کو زندہ رکھا جاتا اور لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی ماؤں کے گود میں ذبح کر دیا جاتا گویا اسرائیلیوں کیلئے دنیا تاریک تھی اور ان کے سامنے جو منظر تھا وہ قیامت سے کم نہیں تھا ،
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسرائیلیوں کی آزادی کیلئے درباد فرعون میں بھیجا جہاں سخت مناظرہ ہوا اور پھر آزادی کی راہ ہموار ہوئی،
حضور کی بعثت سے پہلے عرب جہالت میں لوگ ذہنی غلامی کے شکار تھے آزادی رائے کی غلامی میں مبتلا تھے بولنے کا حق صرف سربرآوردہ لوگوں ہی کو تھا مظلوم کی زبان کاٹ دی گئی تھی سربراہان جو فیصلہ کردیں وہی اٹل اس کے خلاف راے قائم کرنے کی کسی کو اجازت نہیں چاہے فیصلہ کمزور طبقہ کیلئے کتنے ہی کٹھن اور مشکل کیوں نہ ہو لیکن یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی غلامی سے آزادی عطا کی اور اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر پوری دنیا میں آزادی کا علم بلند کروایا ،
دنیا کروٹیں لیتی رہی حالات بدلتے گئے افکار و خیالات بدلتے گئے نئے نئے قانون کا رواج ہوتا رہا جمہوریت، ڈکٹیٹر، خود پسندی، جیسے اصول نافذ ہوئے لیکن دنیا نے جمہوریت کو سب سے زیادہ ترجیح دی اور اسی نہج پر دنیا کی حکمرانی چلتی رہی ہندوستان میں بھی جمہوریت ہی کا بول بالا رہا لیکن چند عرصہ تک اس کا عروج رہا اور پھر گہن لگنا شروع ہوا اور بہت جلد جمہوریت کی روشنی مانند پڑ گئی
اس وقت ہند کا جو منظر نامہ ہے وہ جمہوریت سے ڈکٹیٹر شپ میں تبدیلی کا بڑھتا قدم اور پھر اس کے فروغ کی اشاعت کی کوشش زوروں پر ہے ،
نام کی جمہوریت دعویٰ جمہوریت خوب ہے لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس،۔ ایک طبقہ کو حراساں کرنے اور اس کے خلاف طرح طرح کے قوانین نافذ کرنے کا سلسلہ زوروں پر ہے اب یہاں کسی کی رائے نہیں سنی جانے لگی آزادی رائے جو جمہوریت کا عین حصہ ہے اس کو بند کرنے کی کوشش جاری ہے کتنے ایسے کیسز آئے کہ جنہوں نے غلط پالیسیوں کے خلاف اپنی رائے بلند کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی گئی ابھی کی تازہ رپورٹ کے مطابق فرانسیسی حکومت کو لیکر مشہور شاعر منور رانا نے آزادی رائے کا حق استعمال کیا تو اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا گویا اب یہاں بھی فرعونی حکومت قائم ہونے جارہی ہے اب تو زبانیں کاٹ دی جائیں گی قلم توڑ دیا جائے گا اور پھر اسرائیلیوں کی طرح زندگی بسر کرنی پڑے گی ، اب ہمارے پاس ایک ہی چارہ بچ جاتا ہے کہ ہم یہاں کی سیاست سے واقف ہوں یہاں کے اصول اور کانٹیٹیوشن کو اچھی سے پڑھیں اپنے حقوق کو سمجھیں اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کیلئے میدان عمل میں آئیں ہم قانون سے نابلند ہوکر اپنی بات رکھتے ہیں اس لئے ہماری بات دبا دی جاتی ہے اپنی آزادی کی خاطر اور ہر طرح کی آزادی کی خاطر جو قربانیاں دینی پڑے اس کیلئے تیار رہیں،