آزادی ، کامیابی اور جینے کی تمنا
( اداکار اور فلم میکر ' کرک ڈگلس ' پر ایک نوٹ )
بھلا ہو میرے والد کا جنہوں نے مجھے سکول میں داخل کرانے کے ساتھ ساتھ کہانیاں تو سنائیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے فلم بینی کے شوق کو بھی مجھ میں منتقل کیا ۔ یہ سن ساٹھ کا سال تھا ۔ میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا اور وکٹر میچیور کی فلم ’ سیمسن اور ڈیلائلہ ‘ دیکھ چکا تھا ۔ چارلٹن ہیسٹن کی ’ بن حر ‘ اورجینا لولو بریجیڈو و انتھونی کوئین کی ’ ہنچ بیک آف ناریڑڈیم ‘ بھی دیکھ لی تھی ۔ اسی سال کی بات ہے کہ ایک فلم ’ لاسٹ ٹرین فرام گن ہل ‘ بھی لاہور کے ریگل سینما میں لگی ۔ اس میں ایک اداکار تو میں نے پہچان لیا جسے میں پہلے ’ کبڑے ‘ کے روپ میں ’ ہنچ بیک آف ناریڑڈیم ‘ میں دیکھ چکا تھا لیکن باقی اداکار میرے لئے اجنبی تھے ۔ اس کی ہیروئن بھی میرے لئے گمنام ہی تھی سوائے اس کے کہ مجھے اس کی بھوری آنکھیں یاد ہیں ۔ یہ ایک ویسٹرن ایکشن فلم تھی جو دودوستوں کی کہانی تھی ۔ اس میں ایک دوست جو قصبے ’ گن ہل ‘ کا کرتا دھرتا ہے ۔ ( یہ بیلڈن کا کردار ہے جسے انتھونی کوئین نے ادا کیا تھا ) جبکہ دوسرا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پاس کے ہی ایک گاﺅں میں ایک تھانیدار( یو ایس مارشل ) ہے ۔ تھانیدارمورگن کا کردار ادا کرنے والا یہ اداکار میں نے پہلی بار دیکھا تھا ۔ اس کی بیوی اپنے والد سے مل کر بیٹے کے ہمراہ گھر واپس آتے ہوئے ریپ کا شکار ہو جاتی ہے اور اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والے اسے قتل بھی کر دیتے ہیں۔ اس کا بیٹا قاتلوں کے گھوڑوں میں سے ایک کے گھوڑے پرسوار ہو کر بھاگ کر اپنی جان بچاتے ہوئے والد تک پہنچتا ہے ۔ اس کا والد گھوڑے کی کاٹھی سے پہچان جاتا ہے کہ یہ بیلڈن کے گھوڑوں کی مخصوص کاٹھی ہے ۔ مورگن اپنے دوست کے پاس جاتا ہے اور وہاں اس پر حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ بیلڈن کا بیٹا ہی اس کی بیوی کا قاتل ہے جسے وہ مورگن کے حوالے کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔ وقت اب ان کے درمیان قانون کی لکیر کھینچ دیتا ہے اور فلم کے اختتام پر بیلڈن ، مورگن کے ہاتھوں مارا جاتا ہے ۔ مورگن کا کردار ادا کرنے والے کا نام تو میں نے اس وقت پوسٹروں پر پڑھ لیا ہو گا لیکن وہ مجھے یاد نہ رہا لیکن یہ ضرور یاد رہا کہ اس تھوڈی میں ایک مستقل گہرا گڑھا تھا جیسے لڑکیوں کی گالوں میں پڑتے ہیں ۔ فلم بھی کچھ زیادہ اہم نہیں تھی اس لئے ذہن سے محو ہو گئی (’ لاسٹ ٹرین فرام گن ہل ‘ 1959ء کی فلم تھی ) ۔ سال بھی نہ گزرا تھا کہ ایک اتوار کو میں ابھی ٹھنڈی دہی اور کلچے کا ناشتہ کر رہا تھا کہ میرے والد نے مجھے کہا ، ” فلم دیکھنی ہے! “
میں نے کلچے کا نوالہ دہی میں ڈبو کر منہ میں رکھا اور سر اثبات میں ہلا دیا ۔
وہ بولے؛ ” چلو پھر جلدی سے ناشتہ کرو ، نہاﺅ اور کپڑے بدلو ۔ میٹنی شو میں ایک اچھی فلم لگی ہوئی ہے “ ۔ ( جب تک پاکستان میں سینما کلچر زندہ رہا ، میٹنی شو میں عام طور پہلے کئی بار چلی ہوئی فلمیں اتوار کو گیارہ بجے ایک بار لگا کرتی تھیں اور تین بجے سے باقاعدہ طور پر لگی فلم کے تین شو شروع ہو جاتے تھے ۔) ۔ یہ سن کر میرے ہاتھ اور منہ تیزی سے چلنے لگے اور ساڑھے دس بجے جب میں اجلی قمیض اور نیکر پہنے تیار ہو کراپنے تیل چپڑے بالوں میں آڑھی مانگ نکال رہا تھا تو میری والدہ اس تکرار میں الجھی ہوئی تھیں کہ میرا باپ مجھے خراب کر رہا ہے ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم باپ بیٹا سائیکل پر سوار مال روڈ پر رواں دواں تھے اور ہماری منزل ’ پلازہ ‘ سینما تھی ۔ میرے والد کی عادت تھی کہ وہ جب بھی مجھے فلم دکھانے لے جاتے تھے تو اس کی کہانی مجھے راستے میں ہی سنا دیتے تھے تاکہ میں فلم دیکھنے کے دوران ان سے زیادہ سوال نہ کروں ۔ مجھے یاد ہے ؛ انہوں نے مجھے فلم کا نام بتاتے ہوئے ’ لسٹ فار لائف (Lust for Life) کا مطلب بھی بتایا تھا اور پھر فلم کی کہانی کا لب لباب بھی ۔ مجھے اس وقت صرف یہ بات سمجھ میں آئی تھی کہ یہ کسی مصور کی کہانی ہے جو جنون میں آ کر اپنا کان کاٹتا ہے اور اپنی معشوقہ کو تحفتاً پیش کر دیتا ہے اور بالاخر خود کو گولی مار لیتا ہے (اب کی بات اور ہے کہ مجھے وین گاف بارے کیا اور کتنی جانکاری ہے ۔) ۔
فلم ’ لسٹ فار لائف ‘ شروع ہوئی تو ایک بار پھر انتھونی کوئن اور تھوڑی میں گہرے گڑھے والا اداکار سکرین پر موجود تھے ۔ البتہ اس بار اس کا یہ گڑھا داڑھی میں قدرے چھپا ہوا تھا ۔ اس فلم میں بھی یہ اداکار آپس میں لڑتے جھگڑتے ہی دکھائی دئیے تھے ۔ وین گاف نے کیوں کان کاٹا تھا ، گوگین کون تھا کرسٹین اور، تھیو کون تھے ۔ مجھے کچھ زیادہ سمجھ نہ آیا تھا البتہ فلم ختم ہونے پر ’ کرک ڈگلس‘ کا نام وکٹر میچور ، انتھونی کوئن اور چارلٹن ہیسٹن جیسوں کے ساتھ میرے ذہن میں جگہ بنا گیا ۔ ( لسٹ فار لائف 1956 ء کی فلم ہے ) ۔
دو تین سال بعد کرک ڈگلس سے میرا تیسرا ٹاکرہ اس کی فلم ’ سپارٹاکس‘ میں ہوا ۔ ایک باغی غلام کی کہانی میں اس کا مرکزی کردار ادا کرتا ، فلم کے آخری سین میں مصلوب ہوا کرک ڈگلس اس وقت مجھے بہت بھایا تھا جب وہ اپنے شیر خوار کو آزاد دیکھتا ہے ۔
میں نے بعد ازاں اس کی اور بھی کئی فلمیں دیکھیں لیکن مجھے اس بات کی آج بھی حسرت ہے کہ کاش میں اس کو’ کین کیسے ‘ کے ناول پر مبنی براڈوے کے ڈرامے ’ ون فلیو اوور دی کوکو‘ز نیسٹ‘ (1963 ء ) میں میکمرفی کے کردار میں ادا کاری کرتے ہوئے دیکھ سکتا ، جسے بعد ازاں اس کے بیٹے مائیکل ڈگلس نے 1975ء میں فلم میں ڈھالا تھا اور یہ کردار ’ جیک نکلسن ‘ نے ادا کیا تھا ۔
آج ، 20177 ء فروری کے مہینے میں ، جب میں پلٹ کرماضی میں جھانکتا ہوں تو مجھے بہت سے اداکار جن کی فلمیں میں بچپن اور جوانی میں بہت شوق سے دیکھا کرتا تھا قصہ پارینہ معلوم پڑتے ہیں ۔ وکٹر میچیور ، انتھونی کوئن ، چارلٹن ہیسٹن سمیت اور کئی اس دنیا میں نہیں رہے ، یہاں تک کہ اپنی سائیکل کے ڈنڈے پر لگی مُنی سے گدی پر بٹھا کر فلم نگری کی سیر کرانے والے والد اور ان سے تکرار کرنے والی والدہ بھی اوپر آسمانوں میں کہیں تارے بنے جگمگا رہے ہیں ۔ ایسے میں کرک ڈگلس آج بھی زندگی کا ہمسفر ہے ۔
9 دسمبر 2016 ء کو اس نے اپنی زندگی میں سرد و گرم موسموں کے علاوہ زیست کی 1000 بہاریں بھی مکمل کی ہیں ۔ اب اس کے چہرے کی پہچان ’ تھوڈی میں موجود گڑھا ‘ سکڑ کر نقطے میں بدل چکا ہے اور اس کا کچھ حصہ بیٹے میں منتقل ہو چکا ہے ۔ وہ اب واکر کا سہارا لے کر چلتا ہے ، کچھ سال پہلے قدرت نے اس کی گویائی کو بھی سلب کرنا چاہا تھا لیکن آزاد زندہ رہنے کی وہ خواہش جو سپارٹاکس میں جوالا بنی تھی اور وین گاف کی زندگی میں کامیاب مصور بننے کی تمنا نے کچھ ایسا امتزاج بنایا کہ کرک ڈگلس جلد ہی بول بھی اٹھا اور زندگی کی بساط پر چال بھی چل رہا ہے ۔ براوو ۔ ۔ ۔۔ کرک ڈگلس
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10154060264926895